بلوچی سینیٹ کا اہم کردار اور بلوچستان کی ترقی

 سیاست ایک ایسا لا ئحہ عمل ہے جس میں عوام کے مسائل پر بحث ہوتی ہیں اورحکومتی یا ریاستی فیصلے عوامی رائے عامہ کی روشنی میں لئے جاتے ہیں۔اسکے برعکس پاکستان میں سیا ست کی تعریف کچھ یوں ہیں کہ سیاست ایک منافع بخش کاروبار ہے اگر آپ کامیاب ہو گئے تو راتوں رات امیر ہو جائے گے۔ جیسے آپ کا کاروبار سونے کی کان کی مانند چمک اُٹھے گا۔ آپ کے ذاتی خراجات کم ہو جائے گے کیونکہ آپ کیاخراجات کی ذمہ داری بھی مملکت پاکستان پر ہو گی۔

معروف علم سیاست پروفیسر سیلے کے نزدیک جمہوری حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے ۔ جس میں ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت کیا جائے۔ صدر لنکن نے ان الفاظ میں تعریف کی ہے کہ جمہوریت عوام کے ذریعے عوامی مفادات کے لئے عوام میں حکومت کو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ سیاست دان ، سیاست کی جان و پہچان اور حقائق سے بہت دور ہیں ۔ پاکستان میں سیاست محص کاروبار کا نام ہے۔ تمام سیاست دان جمہوریت،جمہوریت کے نعرہ بلند کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کے کردار اور کام ان کے نعروں کے بالکل مترادف ہیں۔ حکومت کہتی ہے ہم حکومت بچا رہے ہیں۔ اپوزیشن بھی حکومت سے اتفاق کرتی ہیں۔ اتحادی جماعتیں بھی حکومت میں اپنا اثر و رسوخ بچانے کے لئے کھڑے ہو جاتی ہیں۔

سینیٹ کا سب سے اہم کردار حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی پر بحث، ان میں اصطلاح اور خود نئی قانون سازی کرنا تھا۔اس کے علاوہ ایوان بالا نے متعدد ایسے بل جو کہ سینیٹ سے پاس ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں زیر التواء تھے انھیں دوبارہ ممبران کے سامنے پیش کیا۔ جس کے بعد قانون کی حیثیت دے دی گئی۔سال 2013 میں انسداد ریپ کا بل پیش کیا گیا تھا جو کہ سینیٹ سے منظوری کے باوجود قومی اسمبلی میں رکا ہوا تھا۔ اکتوبر 2016 میں اس بل کو پاس کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ کارو کاری کو خلاف قانون 2014 میں بنایا گیا تھا۔ یہ بل بھی التوا میں تھا جسے اکتوبر 2016 میں منظور کیا گیا۔

لیکن دوسری جانب پشاور کے آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد اسمبلی میں پیش کی گئی 21ویں ترمیم کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن رضا ربانی نے کہا کہ انھیں اس ترمیم کی بدولت فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دینے کے لیے ووٹ کرنے پر ’نہایت شرمندگی ہے۔‘

سال 2017 میں سینیٹ نے معلومات تک رسائی یا رائٹ ٹو انفارمیشن بل کو بھی اگست میں منظور کر کے قانونی حیثیت دی۔مئی میں یہ بل قومی اسمبلی سے سینیٹ گیا تھا لیکن سول سوسائٹی نے اس میں کافی خدشات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد بل میں ترمیم کر کے اُسے سینیٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں یہ بل منظور ہوا۔ان تین برسوں میں سینیٹ ہی وہ واحد ادارہ تھا جس نے حکومت کے سامنے ایک موثر حزب اختلاف کا کردار ادا کیا اور کئی اہم قوانین بنائے۔

پارلیمانی امور کے نگراں ادارے فافن کے شہزاد انور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سنہ 2015 کے بعد سے سینیٹ میں سب سے اہم تبدیلی ادارے میں شفافیت اور خود احتسابی ہے۔

مزید بتایا کہ نئی آنے والی تبدیلیوں کے مطابق اراکین سینیٹ کے لیے سینیٹ کے اجلاس میں شرکت اور ساتھ ساتھ حکومتی افسران اور وزراء کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نئے قوانین وضح کیے گئے۔

قومی اسمبلی میں حال ہی میں ہونے والے چیئرمین سینٹ کے چناو نے ساری بازی پلٹ کے رکھ دی ہے۔ اس کے جن پارٹیوں نے آپس میں ہاتھ ملایا ہے ۔ وہ حیران کن عمل ہے۔

عمران خان نے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانا ایسا سمجھا جیسا اپنی 22 سال کی محنت کو صفر کرنا ہے۔ سیاست کچھ اور ہے۔ یہ میری مافیہ کے خلاف جنگ ہے۔پاکستان کے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جمعہ کو اپنے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگلے چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے ہیں جبکہ ڈپٹی چیئرمین وفاقی انتظامیہ قبائلی علاقوں سے منتخب ہیں۔اینٹی پاکستان موومنٹ ہے ہی اس لیے کہ انکی احساس محرومی کے لیے کیونکہ وہ سمجھتے ہے کہ ان کو حقوق نہیں ملیں۔ اس کے چند ہی دنوں بعد عمران خان نے ڈپٹی چیئر مین کی حمایت کیا۔ جو کہ پیپلز پارٹی کا رکن ہے۔ عمران خان اپنی ہی بات سے پلٹ گیا۔ سیاست کے معنی بیان جو بیان کیا اس کے ہی مترادف قدم اٹھایا ہے۔ عمران خا ن نے اپنی بات کا وزن بنانے کے لیے بلوچستان میں جس پارٹی کی اکثریت ہے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اپوزیشن جماعت کا اصل مقصد مسلم لیگ ن کو پیچھے ہٹانا تھا۔ اب چاہے چیئر مین کوئی بھی کیوں نہ بن جائے۔ کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بس کسی سے ہاتھ ملانے کی وجہ اگر عوام کو بتادی جائے توذیادہ بہتر ہیں کہ کتنا گہرا تعلق ہے۔ یا یہ اپنی پارٹی اور سیاسی مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ اتنی واضح اکثریت سے سب حیران ہے ۔ اس سے پہلے زرداری نے تمام پارٹیوں سے رابطہ کیا۔ یہ بات صاف آیاں ہے کہ تبدیلی ووٹ سے آتی ہے لیکن اس کا صحیح استعمال کسی کسی کو آتا ہے۔ قوانین جتنے بھی مضبوط ہو ں عمل درآمد نہ ہو تو ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ مسلم لیگ ن ایک بہت بڑی جماعت ہیں اس کے بہت اتحادی تھے لیکن عین موقع پر سب کہاں غیب ہو گئے۔ اس کی وجہ ن لیگ کا اپنے کارکنان کے ساتھ رویہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آخروقت میں ووٹ نہیں دیا۔ نواز شریف چاہتا تو وہ بھی یہ بازی کھیل سکتا تھا۔ اس سے پہلے بھی زرداری نے اعلان کیا تھا ک اس بار ہمارا ہی چیئرمین سینیٹ ہو گا جب کے اس وقت بھی ان کے پاس اتنی سیٹیں نہیں تھی۔

چیئرمین سینیٹ چنا تو اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔

اپوزیشن جماعتوں نے اپنا ردِعمل کا اظہار نہایت سخت الفاظ سے کیا۔ تمام جماعتیں ایک ہو چکی ہے یہ ملک کے خلاف سازش ہے۔

پاکستان کے کاموں میں بلوچستان کا حصہ کم سے کم ہے اس لیے جتنا ہو سکے ان کو ذیادہ سے ذیادہ حصہ لینا ہوگا۔ بلوچستان سے فرد کا چیئرمین بننا بہت اچھا ثابت ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا بہت مثبت اثر پڑے گا کیونکہ وہ ایک پسماندہ علاقہ ہیں جو کہ اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

بلوچستان میں آخری بار مردم شماری 1998 میں ہوئی۔ جس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ سب سے ذیادہ بولی جانی والی 54.8% زبان بلوچی ہے۔ بہت سے قبائل بلوچستان کے لوگوں کو اپنا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ تین بہت بڑے قبائل ہیں ۔ جس میں بلوچ ،براوری اور پشتون ہیں۔ بلوچستان میں بڑی مقدار میں دھاتی اور غیر دھاتی معدنیا ت پائی جاتی ہیں۔ حکومت نے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بہت اقدام کیے ہیں۔ 40 ابتدائی فصلوں کے منصوبوں میں 16 منصوبے سی پیک کے ہیں۔

سی پیک ، بلوچستان کی غربت کو ختم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گوادر کے بندرگاہ پر تجارت سے قومی سطح پر ملین ریوینیو کا فائدہ ہوگا۔ اس سے معیشت اور عوام کو جد یدملے´ سہولیت مہیا ہونگی۔ 1.8% کروڑ بچے سکول نہیں جا سکتے۔ جس میں تہائی حصہ لڑکیوں کا ہیں۔ اس کی عوام اور ثقافت کی مدد سے بلوچستان کے ساتھ ہکجہتی اور مواصلات کے بانڈ کو محفوظ کرنا ہے۔ یہ پراجیکٹ سول سوسایٹی اور صوبے کی ملکیت ہیں۔ اس کا مقصد صوبے کی داستان اور نفسیات کو تقسیم کرنا ہیں۔

پہلے بلوچستان میں خود کش دھماکے ہوتے تھے، اغواء برائے تاوان عام تھا مگر اب عوام کی طاقت سے دہشتگردی اور اغواء کاری کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔کرپشن کے باعث ادارے تباہ ہو چکے ہیں، بلوچستان میں ترقیاتی کام شروع ہیں جن سے خوشحالی آئے گی،۔ ملک میں مذہبی جنونیت کو پھیلنے سے روکنا اور نظریاتی سیاست کی طرف واپس لوٹنا ہے۔

آ ج الحمدواﷲ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے قوم سی پیک کی صورت میں معاشی ترقی کے نئے مدارج کی جانب رواں دواں ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں بے پناہ اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے،اس مقصد کیلئے قائداعظم ؒکے سنہری اصولوں ایمان،اتحاد اور نظم و ضبط پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اس مقصد کیلئے وہ ایسے افراد کو سامنے لانے اور نامزد کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ووٹ کا صیح استعمال نہ صرف ان کے اپنے علاقوں کی تعمیر و ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوگا بلکہ اجتماعی طور پر وطن عزیز کی قیادت بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آنے کی راہ ہموار ہوگی جو جذبہ حب الوطنی کے حقیقی جذبہ سے سرشار ہوں اور جو ہر فیصلہ میں ملک و قوم کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھی۔

Zunaira Ikram
About the Author: Zunaira Ikram Read More Articles by Zunaira Ikram: 6 Articles with 8472 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.