گلزارِ کربلا

خداوند باری تعالیٰ نے دین اسلام اور مسلمانان اسلام کو اک شرفِ خاص سے نوازا ہے، کوئی اور دین یا امت اس شرف سے سرفراز نہیں ہوسکی یہ شرف ہے معبودِ حقیقی کی خاطر نہ صرف اپنی جان، مال کا نذرانہ پیش کرنا بلکہ بوقتِ ضرورت اپنی اولاد کو بھی بلا دریغ قربان کر دینا۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس کے اسلامی سال کا آغاز اور اختتام انھی قربانیوں کی داستانِ عشق سناتا ہے۔

اگر اسلامی سال کے آخری مہینے پر نظر دوڑائیں تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی عظیم قربانی کی یاد آتی ہے جو انھوں نے اپنے معبود کی خوشنودی کی خاطر اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر کے رقم کی، اور ربِ باری تعالیٰ نے اپنے خلیل کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے نا صرف حضرت اسماعیلؑ کو ایک دنبے سے بدل دیا بلکہ تا قیامت اس قربانی کو اسلام کا بنیادی رکن بنا دیا۔ اسی طرح اگر پہلے اسلامی مہینے پر نظر دوڑائیں تو تاریخ اسلام نواسہء رسولؐ ، جگر گوشہِ بتولؑ ، سیدالشہداء ، شہنشاہِ کربلا حضرت امام حسینؑ کی اس قربانی کی یاد دلاتی ہے جو انھوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے خون سے دینِ اسلام کی سر بلندی کی خاطر کربلا کے ریگزار کو تا قیامت گلزار بنا کر پیش کی۔ ان دونوں قربانیوں کو دیکھتے ہوئے اگر میں یہ کہنے کی جسارت کروں کہ حضرتِ ابراہیمؑ کی قربانی عشق حقیقی کی ابتدا ہے تو وہیں امام عالی مقام کی قربانی عشقِ حقیقی کی معراج، یہاں یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ تاقیامت دینِ اسلام امام عالیٰ مقام کی اس قربانی پر نازاں اور شاد رہے گا ۔

ویسے تو تاریخ اسلام کا ہر باب ہی خون آشام اور الم انگیز واقعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ، خواہ وہ جنگِ بدر میں امیر حمزہؑ کی شہادت ہو، جنگ احد ہو، جنگِ صفین ہو یا پھر کربلا۔ لیکن ان سب میں بابِ کربلا بڑا ہی خونیں اور شفق رنگ ہے اس میں گلزارِ کربلا کی داستانِ عشق بیان کی گئی ہے تو دوسری طرف انتہائےِ ظلم و باطل۔یہ وہ داستان ہے جس کو لکھتے ہوئے قلم کا سینہ شق ہو جاتا ہے، دل کپکپا اٹھتا ہے، روح تھر تھرا جاتی ہے ، بدن کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف اک عاشق کے عشقِ حقیقی کی گہرائی دیکھ کر ایمان روشن ہو جاتا ہے رہتی دنیا تک شاید ہی کوئی عاشق عشق کے اس معراج کو پہنچ پائے جو سید الشہداء، باغبانِ کربلا کا مقدر ٹھہرا۔

آخر کربلا ہے کیا یہ عراق کا اک شہر ہے جو بغداد سے قریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، کربلا کے لفظی معنی کرب و بلا یعنی دکھ اور تکلیف کے ہیں۔ 61 ہجری 680عیسوی میں کربلا کا تاریخی معرکہ پیش آیا، اس حق و باطل کے معرکہ نے اسلام پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے دین اسلام رہتی دنیا تک امامِ عالی مقام کا ممنون رہے گا جنکی قربانی نے دینِ اسلام کو اسکی اصل شکل میں آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور تا قیامت رہے گا۔ اکثر واقعہ کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ کا غلط تاثر دے کر اسکی اہمیت کم کرنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے، یہ اک جنگ ہر گز نہیں تھی جنگیں سپاہیوں ، گھڑ سواروں، تیر تلواروں ، نیزوں سے لڑی جاتی ہیں، جنگیں کبھی بھی معصوم بچوں، خواتین، بوڑھوں سے نہیں لڑی جاتی تاریخِ اسلام تو اس کا کوئی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہے جس میں خواتین یا بچوں کو جنگ کے میدان میں استعمال کیا گیا ہو ، عقلِ انسانی بھی اس کو ماننے سے انکاری ہے۔

فلسفہِ کربلا کو سمجھنا شاید عقلِ انسانی کے بس کی بات نہیں، اس کا راز شاید محبوب اور عاشق کے علاوہ کوئی نہیں جان پایا اور نہ جان سکتا ہے۔ اسلام سے سیدالشہداء کی یہ کیسی محبت ہے کہ بدن زخموں سے چور ہے ، دشمن خنجر لئے سر پر معمور ہے آتی ہے اللہ اکبر کی اک صدا، عاشق نے سر سجدے میں اپنا رکھ دیا ، قران سے محبت ہے اس قدر ، سر تن سے ہےجدا نیزے پہ ہے ٹنگا پھر بھی ہونٹوں پر تلاوت ہے رواں دواں، عشق کا یہ کیسا سرور ہے،اک چھ ماہ کا سالار بھی لڑنے پر معمور ہے، دشمن کو دیتا للکار ہے، عشق میں یوں سر شار ہے ، سامنے ہزاروں دشمن تیار ہے وہ پھر بھی نہیں ڈرا، کوثر کے مالکوں کی بری حالت تھی پیاس سے ،آسمان سے بادلوں کا پھر کیوں نہ گزر ہوا، اسماعیلؑ کی ماں کی تگ و دو دیکھ کر مالک نے تاقیامت زم زم خلق کیا تو پھر ملکہء جنت کے جگر گوشہ پر یہ کیوں ستم روا، وہ مالک ِ جنت وہ شہنشاہوں کے شہنشاہ کیوں کربل میں آکے ہوئے غریبِ کربلا۔ حسینؑ کی اولاد کا یہ حال دیکھ کر مدینے میں مصطفیؓ بھی ہونگے بے قرار، نجف سے بھی آتی ہوگی اک پکار المدد یا پروردگار، المدد یا پروردگار۔ یہ سب دیکھ کر پتہ نہیں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ماجرا کچھ اور ہے یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے ، یہ عاشق اور معشوق کا کچھ الگ ہی کھیل ہے۔ کربلا کے ریگزار میں دین اسلام پر اپنے بہتر پھول نچھاور کر کے حسینؑ نے تاقیامت اس ریگزار کو گلزار کر دیا ہے جوکہ اب ہمیشہ ان کی خوشبو سے معطر رہے گا اور ہر عاشق کے لئے اک مثال۔

بقول شاعر

عشق میں کیا بچائیے ، عشق میں کیا لٹائیے
آلِ نبیؐ نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
 

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 49057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.