غیر مسلم ممالک میں ریپ کا تناسب!!

دنیا بھر میں اسلامی ممالک میں قائدے قوانین قرآن و سنت کے سائے میں رہتے ہیں ، عالم اسلام میں کہیں بھی غیر شرعی امور کو جائز قرار نہیں دیا گیا ہے یا غیر شرعی امور کو آزادی نہیں بخشی گئی ہے، وہ کام جس کو اسلام نے مکروہ، گناہ کبیرہ قرار دیا ہے اور اس پر حد باندھتے ہوئے سزا مقرر کی گئی ہے وہ لازماً تمام عالم اسلام میں یکساں نفاذ ہوتی ہےمثال کے طور پر جیسے چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے پاکستان میں یہ سزا نہیں دی جاتی لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلامی قوانین میں پاکستان کو مستثنٰی دے دیا گیا ہو ،یہ حکومت وقت کی نا اہلی،بد قسمتی اور کمزوری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے دین کی پیروی نہیں کرپارہی ایسی حکومت کو عوام نا پسندگی سے دیکھتی ہے،بڑے گناہوں میں زنا بھی ہے جس کی سزا سنگسار یعنی اس گناہگار کو پتھروں سے مار مار کر کچل دیا جاتا ہے تا حال وہ مر نہ جائے، اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے بندوں کو انعامات سے نوازا ہے تو سزا سے بھی ڈرایا ہے تاکہ وہ گناہ سے بچتے رہیں اور انعامات کی جستجو و طلب کیلئے صراط المستقیم پر قائم رہیں ، یاد رکھیئے اگر اللہ بندوں کو سزا مقرر نہ کرتا تو یہ بنی النوع انسان دنیا میں اس قدر فساد بپا کرتا کہ انسان کو انسان جینے نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ دین محمدی کے علاوہ کوئی بھی مذہب اپنے پیروکاروں کو بد کرداری، فحاشی کا حکم نہیں دیتی لیکن تمام مذاہب میں سب سے اعلیٰ ترین احکامات صرف دین اسلام نے ہی دیئے ہیں کیونکہ دین اسلام درحقیقت فطرت حیات کے مطابق ہے، اسی لیئے اللہ نے دین میں سب سے زیادہ اسلام کو پسند فرمایا ہے اور اسلام کی تعلیمات میں ہی کامیابی و کامرانی سمائی ہوئی ہے ، دین محمدی جہاں پر امن ہے وہیں وہ پاکیزگی، طہارت اور نورانیت بھی بخشتی ہے،معزز قارئین۔۔!! گزشتہ روز شوشل میڈیا میں ایک خبر پر نظر پڑی جو ایک ویب سائٹ ونڈر لسٹ جسے اعجاز خان نے تحریر کیا ہے اور مکمل تحقیقی مکالہ جات کیساتھ ہے وہ میں اپنے قارئین کی نظر میں من و عن پیش کرنا چاہتا ہوں وہ تحریر یہ ہے۔ ۔۔فحاشی کا مرکز" میرے سامنے ریپ کے حوالے سے ٹاپ ٹین ملکوں کی فہرست موجود ہے جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑا اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوئی،یاد رہے کہ یہ کوئی مسلمان ملک نہیں بلکہ ایک عیسائی ملک ہے، ریپ کے حوالے سے ہی نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے، یہ بھی مسلم ملک نہیں،خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کے حوالے سے فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں پچیس لاکھ سولہ ہزار نو سو اٹھارہ ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ ماننا کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں،یاد رہے کینیڈا بھی مسلم ملک نہیں بلکہ ایک لبرل اور آزادی پسند ملک ہے،ساتواں نمبر فحاشی و عریانی جسے یار لوگ آزادی اور حقوق بھی کہتے ہیں میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ سن انیس سو اسی سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم سمجھ ہی نہیں جاتا تھا، اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے ہی موجود نہیں تھا، عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی سن انیس سو بیانوے کے بعدکیا گیا، فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ پچھتر ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں،چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک پینسٹھ لاکھ پانچ ہزار چار سو اڑسٹھ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے دو لاکھ چالیس ہزارسے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے،پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں ہرسولہ سے چھپن سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں ،چوتھے نمبر پر مشہور ملک ریپستان مطلب ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج نہیں کرواتیں تیسرے نمبر پہ سویڈن آتا ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت سیکسوئیل ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے، دوسرے نمبر پہ ساؤتھ افریقہ آتا ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ پینسٹھ ہزار سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں، ساؤتھ افریقہ بیبی اینڈ چائلڈ ریپ اور ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی دنیا میں بدنام ترین ملک جانا جاتاہےاور آخر میں پہلے نمبر پہ ہے مہذب ترین ملک امریکہ مہذب اور روشن خیال ملک ہونے کی وجہ سے یہاں کے کیسز بھی کافی عجیب و غریب واقع ہوے ہیں ، یہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوئی ہے پر ہر تینتیس میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوا ہےتین اعشاریہ انیس فیصد عورتیں اور آٹھ اعشاریہ تین فیصد امریکی مرد زندگی میں کم ازکم ایک دفعہ ریپ کا لازمی شکار ہوئے اوپر موجود تمام اعداد و شمار ایک ویب سائیٹ سے لئے گئے باقی ویب سائٹ بھی دیکھیں ان میں بھی ٹاپ ٹین کنٹریز یہی ہیں بس ترتیب آگے پیچھے ہے ، ان سب ملکوں میں آپکو کسی مسلم ملک کا نام نظر نہیں آئے گا، اگر آپ تیزاب گردی کے حوالے سے سرچ کریں تو بھی یہی ملک آپ کو سب سے زیادہ متاثرہ نظر آئیں گے،جی یہی وہ ممالک جنہیں ہمارا میڈیا جنت بریں ثابت کرنا چاہتا ہے جن کی ہمارے ہاں موجود لبرل باندر مثالیں دیتے ہیں ، افسوس کہ ہزاروں مختاراں مائیوں پہ مشتمل امریکہ اور دوسرے ان ممالک میں کوئی این جی اوز نہیں یہاں کسی شرمین عبید چنائی کو گھاس نہیں ڈالی جاتی یہاں کی کوئی این جی او اس بدترین کام پہ اپنے سسٹم پہ نوحہ کناں نظر نہیں آتی اور مزے کی بات یہ کہ ان ممالک میں کسی ملا مدرسے کا ہولڈ نہیں عورتوں کے حقوق نہیں دبائے جاتے ہاں عورتوں کے ریپ وہ بخوشی کر دیتے ہیں چند سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ آزادی نسواں درحقیقت عورت تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے ابھی جب اعداد شمار دیکھے تو اس بات پہ یقین ہوا کہ واقعی ہی آزادی کے نام پہ اس مہذب معاشرے نے عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا اس سے گھر چھینا ، تقدس چھینا ، عزت چھینی ، برابری کے نام پر مشقت کرائی گئی ، برینڈ بنا کر بیچا گیا ،بازاروں میں نیلام کیا گیا،عورت کی آزادی کے نام پر جنس و پیسے کے ان پیاسوں نے اسے خوب بیوقوف بنایا، بارہ سے تیرہ سال کی بچیاں بھی ان ہوس کے پجاریوں سے محفوظ نہ رہ سکیں ، سال میں ایک کیس پاکستان سے لیکر رونا پیٹنا کرنے والی یہ منحوس مائیاں کیا بارہ بارہ سال کی ان امریکی بچیوں کے بارے میں جانتی بھی ہیں جو کہ کم عمری میں ہی مائیں بن گئیں؟؟میرے خیال میں عورت کی آزادی کے نام پر جنس کا کاروبار چلانے والے صحافیوں اور کوٹھے چلانے والی ان سو کالڈ لبرل نائیکاؤں کو ڈراموں میں ڈال کر امریکہ و یورپ کی ان جعلی جنتوں میں بھیج دینا چاہئے کہ حقوق تو فی الحال وہاں کی مظلوم عورتوں کو چاہئے یہاں تو عورتیں محفوظ ہیںاگرچہ یہ دو سال قبل کی رپورٹ ہے اگر آپ موجودہ رپورٹ بھی اس بارے میں دیکھیں تو پہلے دس ممالک میں ان میں سے اکثر ملک موجود ہیں اور ملک پھر بھی وہی آتے ہیں جہاں عورت کو گھر میں بند نہیں رکھا جاتا۔معزز قارئین ۔۔۔!! اب آپ کی سمجھ مین واضع ہوگیا ہوگا کہ دین محمدی کے سائے میں ہم کس قدر محفوظ ہیں ہماری بچیاں بچے اللہ کے احکامات کے سائے میں پاک و مطاہرات کی زندگی گزار رہے ہیں، حالیہ دنوں میں پاکستان مین جنسی اسکیندل سامنے آتے تھے ان کی وجہ بھی گزشتہ دو جمہوری حکومتیں تھیں ،سابقہ حکمرانوں کے نام ہی کافی ہیں پاکستانی ہر بچہ بچہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات سے اچھی طرح جانتا ہے اسی لیئے عوام انہیں دین کے معاملہ میں کچھ نہیں کہتی کیونکہ دین قریب سے بھی نہیں گزارا،دین محمدی کو اگر یہ سمجھتے تو یقیناً آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر یقین رکھتے ان کےاور ان کی جماعت کے تمام لوگوں کے نزدیک آئین ایک کھلونا ہے اسے جس طرح چاہو کھیلو، توڑو یا پھینکو یہ خود کوقانون سے مبرا آج تک سمجھتے ہیں اسی بابت ان میں ابھی تک کوئی خوف نہیں اور نہ ہی ڈر،بہت سی ایسی باتیں ہیں جو نہ لکھی جاسکتی ہیں اور نہ ہی بولی جاسکتی ہیں بس یوں سمجھ لیجئے کہ پاکستان کی سلامتی و بقا کیلئے یہ مناسب نہیں، ان دنوں نے ہمیشہ اپنی ذات کے خاطر ہماری ماں یعنی وطن کو غیروں کے ہاتھوں لٹنے دیا، اس وطن عزیز کو تار تار کرنے میں یہ ظالم سیاسی حکمران پیش پیش رہے ہیں، حتیٰ کہ ان کے حواری سیاسی جماعتوں نے بھی بہت زیادہ مایوس رکھا ، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے سپہ سالاروں نے وطن عزیز کو تباہی کے دھانے سے بچانے کیلئے فوری ہنگامی ایکشن کیا انھوں نے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، پاکستانی معاشرے کی سدھار کا وقت آپہنچا ہے اور انشا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ثابت ہوگا یہاں دین حق کا بول بالا اوردستور قرآن نافذ ہوگا کیونکہ پاکستان بنا ہی ہے اسلام کیلئے یہ دنیا کی دوسری ریاست ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر معروض وجود میں آئی ہے، قائد اعظم کی سرپرستی میں دو قونی نظریہ ایک ہندو دوسرا مسلمان تھا یعنی دین محمدی ﷺ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہودیوں،بت پرستوںاور دیگر کافروں بشمول قادیانیت کو برداشت نہیں کہ پاکستان کیونکرپھلے پھولے وہ ہر طرح پاکستانی معاشرے کوق بگاڑنا چاہتے ہیں لیکن انشا اللہ وہ نامراد و ناکام لوٹیں گے کیونکہ پاکستان قوم اپنے سپہ سالار، حکومت وقت کیساتھ ایک پیچ پر موجود ہیں،اللہ اپاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین ثما آمین ۔۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔!!

جاوید صدیقی‎
About the Author: جاوید صدیقی‎ Read More Articles by جاوید صدیقی‎: 310 Articles with 244789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.