پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

15مارچ 2019 ایک ناقابل فراموش دن ہے ۔نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں 9پاکستانیوں سمیت50 نمازیوں کی شہادت نے پوری دنیا اور خصوصا عالم اسلام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔سفید فام دہشتگرد نے معصوم بچے کو بھی نہ بخشااور اسے بھی گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کردیا۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس حملے سے24گھنٹے قبل اس نے سوشل میڈیا پر دوچار نہیں بلکہ 74 صفحات پر مشتمل منشور جاری کیا۔ اس منشور میں کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر حملے کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس دہشت گرد نے اپنے منشور میں لکھا کہ وہ حملہ اس لئے کرے گا تا کہ (بقول اس کے) یورپ کی سرزمین پر غیر ملکیوں کے باعث ہونے والی لاکھوں اموات کا انتقام لے سکے۔فیس بک پر شیئر ہونے والے اس منشور کو درجنوں افراد نے شیئر اور پسند کیا۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کی خفیہ ایجنسیاں بھی اس صورت حال سے بے خبر رہیں۔ حملہ آور نے حملے کے لئے جمعہ کے دن کا انتخاب اس لئے کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان شہید ہوں۔فرقوں میں الجھی امت مسلمہ کیلئے یہ مقام عبرت ہے کہ اسلام دشمن ہزار سال بعد بھی ہماری تاریخ نہیں بھولے۔ نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ آور کی بندوق پر درج عبارات ماضی کے ان واقعات سے وابستہ ہیں جن میں خلافت عثمانیہ اور دیگر طاقتوں کے درمیان جنگیں ہوئی۔یہ دہشت گردانہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ اسلام کے خلاف اشتعال پیدا کیا جا سکے۔ مغرب میں اس طرز کے اسلامو فوبیا کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم جب اسلام پر تحقیق کرتے ہیں یا اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں، تووہ خود ہی اسلام کے گرویدہ بن جاتے ہیں۔جو بھی اسلام کے نزدیک آتا ہے تو وہ اسلام کو ہی اپنا نظریہ حیات بنانے میں فخر کرتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی اکثریت سکالرز کی ہے ۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ غور و تدبر کے بعد بڑی تعداد میں دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان نو مسلموں کودوستوں یا رشتہ دار وں کے ناراض ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ انہیں بھی مسلمان بنانے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔تمام مسلمان یہ ضرور سوچیں کہ جب وہ درندہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں داخل ہوا تو اس نے وہاں کیا کسی سے پوچھا تھا کہ تم کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو؟ یقینااس نے کسی سے کوئی سوال نہیں کیا کیوں کہ اس کی نظر میں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف رنگ وروپ اور قد کاٹھ والے انسان اس لیے قابل نفرت تھے کہ وہ اﷲ کے گھر میں ہیں اور وہ صرف مسلمان ہیں۔ اسی لیے اس نے تمام مسلمانوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہیدکردیا۔ اس سفید فام دہشت گردی کا اصل ہدف مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا تھا۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم ’’Jacinda Ardern‘‘ نے اپنے پہلے ہی رد عمل میں اس واقعہ کو نیوزی لینڈ پر دہشت گردانہ حملہ قرار دیا۔ مارنے والے دہشت گردوں کو ملک دشمن اور مرنے والوں کو شہیدکہا ۔ان نہتے اورمظلوم مسلمانو ں کو اپنا شہری قرار دیا۔شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیتی ملاقات میں کالے رنگ کا اسلامی لباس اور دوپٹہ زیب تن کیا۔ لواحقین عورتوں کے ساتھ معانقہ کیا۔ میتوں کی تدفین کا پورا خرچ خود سنبھالنے کا جرائت مندانہ اعلان کیا۔وزیر اعظم نے یہ پیشکش بھی کی کہ شہیدوں کے اہل خانہ اگر میت کو اپنے آبائی ممالک لے جانا چاہتے ہیں تو اسکے تمام اخراجات نیوزی لینڈ برداشت کریگا۔ انہوں نے فیس بک پر سخت ناراضگی کا اظہار کر کے دہشت گردی کے واقعہ پر مشتمل ویڈیوز کو ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام امن وآشتی کامذہب ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ19مارچ کو پارلیمنٹ کی کاروائی کا آغاز نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت اوراس کے انگریزی ترجمہ کے ذریعے ہوا۔، تمام اراکین نے قرآن کریم کو کھڑے ہوکر سماعت کیا۔ ’’السلام علیکم‘‘ سے خطاب شروع کیا۔ جمعۃ المبارک 22 مارچ کو اذان اور خطبہ سرکاری ٹیلی ویزن چینل اورسرکاری ریڈیوسے براہ راست نشرکیا۔اس کے علاوہ اس واقعہ کے سخت رد عمل کے طور پر اسلحہ رکھنے کے قانوں میں بھی تبدیلی کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ بلکہ شہداء کے لواحقین کو نیوزی لینڈ کی شہریت دینے کا بھی اعلان کردیا۔ جمعہ کے روز وہاں کی خواتین کو مسلمان عورتوں کی طرح دوپٹہ اوڑھنے اور دومنٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ہمیشہ کی طرح دنیا کے سارے ممالک کے سرابراہان اور مغرب پرست میڈیا نے بھی اس واقعہ کو شوٹنگ اور فائرنگ کا واقعہ قرار دے کر اس کو ٹالنے کی کوشش کی جس میں سرفہرست امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں جنہوں نے اس واقعہ کو دہشت گردانہ حملہ قرار دینے سے گریز کیا۔ صرف اتنا کہا کہ اس واقعہ پر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہ بھی پیش نظر رہے کہ حملہ آور امریکی صدر کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے۔لیکن نیوز ی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے امریکی صدر کو برجستہ جواب دیا کہ ’’آپ مسلمانوں سے نفرت ختم کر کے محبت کیجئے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیجئے‘‘ یہ امریکی صدر کے ساتھ لیڈی خاتون وزیر اعظم کا سخت رویہ تھا جس کی وجہ سے امریکی صدر کواپنا بیان واپس لے کر اس واقعہ کی مذمت کرنے پڑی۔’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘‘کے مصداق یہ صور ت حال قابل توجہ ہے کہ مغرب نواز میڈیا ایک عرصے سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔کھربوں ڈالر صرف اسلام کو خطرہ سمجھتے ہوئے اسے بد نام کرنے کیلئے لگا دیے گئے۔ ’’بڑے ممالک‘‘ کی خفیہ ایجنسیاں اور تھنک ٹیک اسلام کے نظریہ کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے کتنے ہی خطرناک منصوبے بنا چکے ہیں۔ اسی پالیسی کے تحت ماضی قریب میں افغانستان، عراق، لیبیا اور دیگر مسلمان ممالک میں لکھوکھہا مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔لیکن اسی خطے سے تعلق رکھنے والی مغربی خاتون وزیر اعظم نبی کریمﷺ کی احادیث کے حوالے دے کر ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے۔ وہ سفید فام دہشت گردی کو امن عالم کیلئے خطرہ قرار دیتی ہے۔ دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اہل اسلام کے ساتھ یگانگت کا اظہار کر کے تعصب پسندانہ جذبات کا قلع قمع کرو۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تمام یورپی ممالک کے سربراہان کے لئے ایک مثال پیش کی ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت جب تک دہشت گردی کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی، اس وقت تک دنیا میں امن وامان بحال نہیں ہوسکتا۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 216696 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More