قرآن کا ترجمہ سیاق و سباق کے ساتھ نہ کرنے کا نقصان

قراآن پاک اللہ کی عظم کتاب ہے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہے۔ بہت سے بزعم خود عالم دین اور قرآن کو سمجھنے والے خود تو ٹھوکر کھاتے ہی ہیں لیکن نادانستہ یا دانستہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ قرآن پاک سمجھ کر پڑھیں اور قرآن کی آیات کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھ کر پڑھیں گے تو اصل بات سمجھ میں آئے گی۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورہ مائدہ میں تورات کے حوالے کچھ باتیں بیان کی ہیں اگر ان آیات کو سیاق و سباق کے ساتھ نہ پڑھا جائے تو معنیٰ و مفہموم تبدیل ہوجائے گا اور بات کچھ کی کچھ ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَيْـًٔا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۰۰۴۲وَ كَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَؒ۰۰۴۳ سورہ مائدہ آیت ٤١ تا ٤٣ )
ترجمہ (یہ جُھوٹ سُننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں،لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس ﴿اپنے مقدمات لے کر﴾ آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کردو۔ انکار کردو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔۔ اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس توراة موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ )

یہاں خاص طور پر(بنی اسرائیل) کے اُن کے مفتیوں اور قاضیوں کی طرف اشارہ ہے جو جُھوٹی شہادتیں لے کر اور جھُوٹی رودادیں سُن کر اُن لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یا جن کے ساتھ ان کے ناجائز مفاد وابستہ ہوتے تھے۔

یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں بنے تھے بلکہ اسلامی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے۔ ان معاہدات کی رُو سے یہودیوں کو اپنے اندر ونی معاملات میں آزادی حاصل تھی اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق اُن کے اپنے جج کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے مقدمات لانے کے لیے وہ ازرُوئے قانون مجبُور نہ تھے۔ لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے اُن کا فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس اُمید پر آجاتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دُوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں۔ ()”“

یہاں خاص طور پر جس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا ۔ توراۃ کی رُو سے ان کی سزا رجم تھی ، یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ( استثناء – باب ۲۲ – آیت ۲۳ - ۲۴) لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پنچ بنایا جائے۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اَور حکم دیں تو قبول کر لیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو نہ قبول کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے رجم کا حکم دیا۔ انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس پر آپ نے پوچھا تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ انہوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر اُ ن سے پوچھا ، کیا توراۃ میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے؟ انہوں نے پھر وہ جھوٹا جواب دیا۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا، جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں توارۃ کا سب سے بڑا عالم تھا، خاموش رہا۔ آپ نے اُس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اُس خدا کی قسم دے کر پُوچھتا ہوں جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور طُور پر تمہیں شریعت عطا کی، کیا واقعی توراۃ میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ”اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حُکّام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے یہی حرکت سرزد ہوتی تو انہیں رجم کر دیا جاتا۔ پھر جب اس سے عوام میں ناراضی پیدا ہونے لگی تو ہم نے توراۃ کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جاِئیں اور انہیں مُنہ کالا کر کے گدھے پر اُلٹے مُنہ سوار کیا جائے۔“ اس کے بعد یہودیوں کے لیے کچھ بولنے کی گنجائش نہ رہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانی اور زانیہ کو سنگسار کر دیا گیا۔

دیکھیں یہ ایک واقعہ ہے جس کے پس منظر میں قرآن پاک کی آیات نازل ہوئیں اگر کوئی فرد اس پس منظر کو چھوڑ کر صرف یہ آیات پیش کرے گا تو مفہموم تبدیل ہوجائے گا۔

اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۰۰۴۴وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ١ۙ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ١ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۰۰۴۵ (سورہ مائدہ آیات ٤٤،٤٥ )
ترجمہ (ہم نے توراة نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مُسلِم تھے، اُسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربّانی اور اَحبار بھی ﴿اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے﴾ کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس ﴿اے گروہِ یہود !﴾ تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔

توراة میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کردے تو وہ اس کے لیے کَفّارہ ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔) (ربانی یعنی علمائ اور احبار یعنی فقہا )

اب خود غور کریں کہ اگر مذکورہ بالا آیات کو ان کے پس منطر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پڑھا جائے گا تو اس کا مفہوم یہ نکلے گا کہ قرآن کے ساتھ ساتھ تورات کو بھی پڑھا جائے اور اس سے بھی ہدایات حاصل کی جائے جبکہ یہ آیات خاص ایک واقعے کے پس منظر میں ہیں اور یہ آیات یہودیوں کے لئے ہیں کہ وہ اپنی آسانی کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم نہ بنایا کریں بلکہ ان کے پاس تورات موجود ہے وہ تورات میں سے اپنے فیصلے کیا کریں۔

اب اگر کوئی فرد جو کہ بزعمِ خود عالم دین یا قرآن کو سمجھنے کا دعویٰ کرے اور پچھلی آیات کو چھوڑ کر آگے کی دو آیات پیش کرے اور پھر اس سے من مانی تفسیر کرے یا من مانے معنی پہنانے کی کوشش کرے تو وہ غلط ہوگا ۔ بہت سے لوگوں کو یہ کہنا ہے کہ قرآن پاک خاص عربی میں ہے اور اس وقت عربی زبان کہیں نہیں بولی جارہی ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے قرآن کا ترجمہ کرنے کے لئے عربی کہاں سے سیکھی ہے؟ اگر سارے علماء کرام نے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر درست انداز میں نہیں کی تو پھر اس بات کی کیا سند ہے کہ انہوں نے جو ترجمہ اور تفسیر کی ہے وہ سو فیصد درست ہے؟

ہماری قارئین سے یہی گزارش ہے کہ رہبروں کے روپ میں رہزنوں کے ہتھے نہ چڑھیں اور ان سے بچ کر رہیں۔
(مضمون کی تیاری میں مولانا مودودی مرحوم کی شہرہ آفاق تفھیم القرآن سے مدد لی گئی ہے )
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1448033 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More