سفرِ معراج کی جزئیات کا اِحاطہ ممکن نہیں

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
کائنات میں عجائبات کی ایک دنیا آباد ہے اس طرح سفرِ معراج میں بھی حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَن گِنت عجائبات کا مشاہدہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سفرِ معراج کی جملہ تفصیلات اور ان مشاہدات کی جزئیات کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ شبِ معراج کی تفصیلات تک رسائی حدیث کی ہزاروں کتابوں کے عمیق مطالعے کے بغیر نہیں ہوسکتی اور پھر اِن تفصیلات اور جزئیات کو حیطہئ اِدراک میں لانا عقلِ اِنسانی کے بس کی بات نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حدیث کی چند کتابوں کا سرسری سا مطالعہ کرکے ہم نے جملہ تفصیلات سے آگاہی حاصل کر لی ہے چنانچہ اکثر لوگ اپنے محدود مطالعہ کی بناء پر کہہ دیتے ہیں کہ سدرۃ المنتہیٰ تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کا ذکر ملتا ہے، اِس سے آگے جو کچھ ہے وہ تخیّل کی بلند پروازی کا کرشمہ ہے یا صرف شاعرانہ باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں حالانکہ اَمر یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے اِن ہزاروں کتابوں میں بکھری ہوئی تفصیلات کا مکمل شعور ممکن ہی نہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے کے سفر کو شاعری سمجھ لینا کور فہمی نہیں تو اور کیا ہے۔
اِس ضمن میں اِمام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
جاوز السبع الطباق و ہی السمٰوت.
آپ ساتویں آسمان سے آگے نکل گئے۔

سفرِ معراج جو کائنات کا سب سے عظیم سفر ہے اور دیگر معجزات کی طرح اللہ رب العزت کی قدرت کا مظہر ہے سات طبقات، آسمانوں اور اُن سے وراء الوراء سدرۃ المنتہیٰ اور قاب قوسین اور پھر کرہئ ارضی کی طرف واپسی پر مشتمل ہے۔ اِس کی توجہیہ و توضیح عقلِ انسانی کے بس کی بات ہی نہیں۔ اِذَا ھَوٰی میں عظیم رفتار کی قسم زمانی اور مکانی فاصلوں کے ایک پل میں طے ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ فاصلے سمٹ رہے ہیں اور کروڑوں اَربوں سالوں کی مسافت لمحوں میں مکمل ہو رہی ہے۔ یہاں عقلِ ناقص اپنے عِجز کا اِظہار کرنے کے سوا کیا کر سکتی ہے۔ سفرِ معراج اتنی بڑی کائناتی سچائی ہے کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا سارا اِرتقاء اِس سفر کے خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں، جوں جوں انسان اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں سفرِ معراج کے مختلف مراحل کی پرتیں کھولتا جائے گا اَن گِنت کائناتی سچائیوں کا اِنکشاف ہوتا جائیگا اور جدید علوم کا دامن حیرت انگیز معلومات سے بھرتا جائیگا۔ سفرِ معراج کی جزئیات سے آگاہی علومِ جدیدہ کے ارتقاء کی ضامن ہے۔ معجزہئ معراج تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدّسہ کا ایک پہلو ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے اِکتسابِ شعور کرکے اِنسانی اِرتقائی بلندیوں پر گامزن رہا تو خدا جانے آنیوالے زمانوں میں یہ اِرتقاء کی کن بلندیوں پر فائز ہو گا۔ یہ تمام بلندیاں بھی صاحبِ معراج کی گرد پاہوں گی اِس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر صدی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدی ہے، ہر زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ ہے تو یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہوتی بلکہ اِن کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقوشِ کفِ پا سے پھوٹنے والی اِن عظیم روشینیوں کے اِبلاغ پر اٹھائی جاتی ہے جو تہذیبِ انسانی کے اِرتقاء کے ہر مرحلے پر اِہتمامِ چراغاں کر رہی ہیں۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پانچواں معنی : قلبِ انور کا اَنوارو تجلّیاتِ اِلٰہیہ کا مرکز بننا

اگر النجم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ منور مراد لیں تو اِس اَمر کی مناسبت سے ھویٰ کا ایک معنی اِنْشَرَحَ مِنَ الْاَنْوَار یعنی انوار و تجلیات سے کھل جانا ہوگا او رآیتِ مقدّسہ کا مفہوم کچھ یوں ہو گا قسم ہے ستارے کی طرح چمکتے ہوئے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے قلبِ منور کی، اِذَا ھَوٰی جب اَنوارو تجلیاتِ اِلٰہیہ سے اِس کا اِنشراح ہوا یعنی وہ کھل گیا۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا چھٹامعنی : کائنات کی ہر چیز پر رحمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محیط ہے

حضورسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا، اِس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پر رحمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محیط ہے۔ نجم کا ایک اور معنی بھی ہے گھاس النبت وہ گھاس جو قلیل مقدار میں لگائی جائے لیکن اتنی پھیل جائے کہ ساری کی ساری کیاری کو اپنے دامن میں سمیٹ لے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت نے بھی کائنات کی ہر شے کو اپنے دامن رحمت کے سائے میں لے رکھا ہے۔ سورہ الرحمٰن میں بھی نجم کا لفظ گھاس کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِO
(الرحمن، 55 : 6)
اور زمین پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت (اسی کو) سجدہ کر رہے ہیںo

یہاں بتایا جارہا ہے کہ نباتات اور درخت رب کائنات کے حکم کے پابند ہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اسکے تابع ہے کیونکہ وہ ہر جاندار اور غیر جاندار کا رب ہے اور کوئی اس کی خدائی میں اس کا شریک نہیں وہ ازل بھی ہے اور ابد بھی نہ اس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھاس سے کیا مراد ہے اور درخت کسے کہتے ہیں۔ گھاس سے مراد وہ پودے ہیں جن کے تنے نہیں ہوتے، وہ براہ راست زمین سے اپنا رزق لیتے ہیں اور درخت سے مراد وہ پودے ہیں جن کے تنے ہوتے ہیں اور وہ اوپر کی طرف بڑھتے ہیں، گھاس کی طرح زمین پر پھیلتے نہیں اور پتے اور شاخیں ان تنوں کے ذریعے زمین سے توانائی حاصل کرکے نشوونما پاتے ہیں۔

آیتِ مقدسہ میں نجم کا لفظ اِستعارۃً بیان کیا گیا ہے۔ ہادء کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجم سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس طرح گھاس پوری کیاری کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے اور ہرطرف گھاس ہی گھاس نظر آتی ہے اور زمین اس گھاس کے سائے میں چھپ جاتی ہے یعنی گھاس پھیل کر زمین کے اس ٹکڑے پر محیط ہو جاتی ہے، اے کالی کملی اوڑھ کر سونے والے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری رحمت اور تیرے نور کا دائرہ گھاس کی طرح ہر چیز کو اپنے دامنِ رحمت میں لے لیتا ہے کہ ہر سو تو ہی تو نظر آتا ہے ہر طرف تیری رحمت کے پرچم لہرا رہے ہیں ہر طرف تیرے محاسن اور محامدکی قندیلیں روشن ہیں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے رخِ زیبا کی قسم، میں جس جس عالم کا رب ہوں اُس اُس عالم کے لئے تو رحمت ہے۔ یہ ساری کائنات رنگ و بو، یہ خلا کی بے اَنت وسعتیں، یہ سورج، چاند ستارے، دھنک کے بکھرتے ہوئے رنگ، پھولوں کی مہکاریں، پرندوں کی چہکاریں، کہکشاؤں کی پھیلتی ہوئی دنیائیں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب کچھ تیری مملکتِ کرم کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ تیرے حیطہئ رحمت میں ہے حتیٰ کہ سدرۃ المنتہیٰ اور عرشِ بریں بھی تیرے نقوشِ کفِ پا کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے اِس لئے کہ سدرۃ المنتہیٰ اور عرشِ بریں بھی میری تخلیق ہے اور میری مخلوقات میں تو سب سے اول ہے۔ پیارے! تو میرا شاہکارِ تخلیق ہے، نہ تیری کوئی نظیر ہے اور نہ کوئی تیری مثال، میں خالق ہونے میں یکتا و تنہا تو مخلوق ہونے میں یکتا و تنہا، عبدیت تیرا جمال، بندگی تیرا حسن اور عِجز تیرا وقار ہے۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرا نورِ رحمت کائنات کی ہر شے پر محیط ہے۔ شبِ معراج ہم نے تجھے آسمانوں کی سیر اس لئے کرائی کہ تو دیکھ لے کہ تیری اَقلیمِ رحمت کی سرحدیں کہاں تک ہیں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس لئے تجھے رحمۃ للعالمین بنایا، تو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے، تمام جہان تیری رحمت کے محیط میں مانندِحباب ہیں، ہر طرف تیرا ہی نور جلوہ فرماہے، ہر طرف تیرے جمال کی رعنائیاں بکھری ہوئی ہیں، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر طرف تیری ہی روشنی ہے۔
اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
گنبدِ آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب
لفظ ھوٰی کے مختلف معانی :
ھوٰی کا پہلا معنی فنا ہونا

عربی لغت کے مطابق ھویٰ کا ایک معنی ہلاک ہونا، فنا ہونا بھی آتا ہے۔ اِس معنی کے مطابق آیتِ مقدسہ کا مفہوم کچھ یوں ہو گا کہ قسم ہے اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے پاک وجود کی، تیری ذاتِ اَقدس کی کہ وہ اللہ کی ذات میں فنا ہوکر بقائے دوام کے مقام پر فائز ہو گئی، اِسی طرح محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری صفات بھی اللہ رب العزت کی صفات میں فنا ہو کر بقاپا گئیں۔ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمارے قرب کے اِس درجے تک پہنچا کہ تیری ذات کو بھی فناء ِ تام نصیب ہوا اور تیری صفات کو بھی۔
قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیO فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیO
(النجم، 53 : 9 - 10)
پھر (اس محبوب حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھے پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیاo

اہلِ علم نے آیتِ مذکورہ کی متعدد تعبیرات بیان کی ہیں، اِن میں سے ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ دَنٰی اور تَدَلّٰی دو الگ الگ لفظ ہیں، یہ دونوں الفاظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے قریب ہونے یا کسی چیز کے قرب پر دلالت کرتے ہیں۔ عربی گرائمر کی رُو سے کلمہ دَنٰی فعل ہے، اِس کا فاعل ضمیرِمُستتر (ہُوَ) ہے، اِسے خواہ اللہ کی طرف لوٹا دیں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف، اس کا معنیٰ ہوگا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات اللہ رب العزت کی صفات کے قریب ہوئیں اور اِتنا قریب ہوئیں جتنا ممکن تھا یعنی قرب اپنی اِنتہاء کو پہنچ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو فناء ِ تام نصیب ہو گیا۔ فَتَدَلّٰی پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات کے قریب ہوئی تو ذاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی فناء ِ تام نصیب ہوا۔
دوسرا معنی : مانندِ برزخ ہونا

والنجم سے اگر مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا ہی مراد ہوتو پھر ھَوٰی کا ایک معنیٰ مانندِ برزخ بھی ہے۔ الشیء القائم بین الحلق والصدر، وہ چیز جو حلق اور سینے کے درمیان اٹکی ہوئی ہو، اِس اِعتبار سے آیت مقدّسہ (والنجم اذا ھوی) کا مفہوم یہ ہو گا کہ قسم ہے چکمتے ہوئے ستارے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے وجود اور تیرے سراپا کی، جب تو شبِ معراج اِتنا اُونچا ہو گیا کہ خلق نیچے رہ گئی اور صرف خالق تری ذات کے اُوپر تھا۔ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نے خالق اور اُس کی تمام مخلوقات کے درمیان درجہ پایا یعنی
بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر
تیرا سراپا خالق سے نیچے اور مخلوق سے اُوپر تھا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ برزخی ہے۔
اُدھر اللہ سے واصل اِدھر مخلوق میں شامل
خواص اُس برزخِ کُبریٰ کو ہے حرف مشدّد کا

جس حرف کے اوپر شدّ ہو اسے حرفِ مشدّد کہتے ہیں۔ شد حرف کو واضح کرتی ہے اس کی تین حیثیتیں ہوتی ہیں، ایک حیثیت اِس کے اپنے سراپا کی یعنی جس سے وہ خود قائم ہے اور دو حیثیتیں اِس کی اور ہوتی ہیں مثلاً ایک لفظ ہے معلّم اِس میں لام حرف مشدّد ہے لام کی تین حیثیتیں ہیں۔
1. پہلی اس کی حرف لام کے طور پر اپنی حیثیت
2. دوسری یہ کہ لام اپنے سے پہلے حرف یعنی ع کے ساتھ ملا ہوا ہے،
3. تیری حیثیت اپنے سے اگلے حرف م سے ملا ہونا ہے

درمیان میں ل کا اپنا سراپا ہے ایک ہاتھ اس کا ع پر ہے اور ایک م پر، اگر ل درمیان میں ہو تو اِس کی وساطت سے پچھلا میم اگلے ع سے مل سکتا ہے لیکن اگر ل کا واسطہ درمیان سے نکال دیں اور چاہیں کہ م کا ع سے اِتصال ہو جائے تو یہ ناممکن ہے۔ اگر م عین سے ملنا چاہے تو اسے ل کا دامن پکڑنا پڑے گا، اسے کہتے ہیں حرف مشدّد۔ خدا نے فرمایا محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری ذات حرفِ مشدّد کی طرح برزخی شان کی حامل ہے، میرے اور بندے کے درمیان ایک واسطہ تو ہے اب جو مجھ تک رسائی حاصل کرنا چاہے گا محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِسے تیری دہلیز پر ہو کر آنا پڑے گا کیونکہ تیرے واسطے کے بغیر مجھے اپنی توحید بھی قبول نہیں۔ اِس توحید کو سندِاِعتبار عطا کروں گا جس کا اظہار تیری ذات کے حوالے سے ہو گا۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس لئے میں نے کہیں بھی تجھے اپنے سے جدا نہیں کیا۔ اَذانوں میں میرے نام کے ساتھ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرا نام بھی گونجتا ہے۔ اُس وقت تک میں کسی کی عبادت ہی قبول نہیں کرتا جب تک وہ نماز میں تجھ پر درود و سلام نہ بھیجے، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور میرے فرشتے تجھ پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور اِیمان والوں کو بھی حکم ہے کہ تجھ پر درود اور سلام بھیجا کریں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری محبت ہی میرے مومنین کا معیارِ ایمان ہے۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ کائنات کبھی بھی معرض وجود میں نہ آتی، یہ سب رعنائیاں تیرے ہی قدموں کا تصدق ہیں۔ یہ سب بہاریں تیری ذات اَطہر کی خیرات ہیں۔
رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین حیثیتیں
رسول کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین حیثیتیں ہیں۔
ایک حیثیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے سرا پے کی ہے۔
دوسری حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ جل شانہ سے واصل ہیں۔
تیری حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں شامل ہیں۔

رسولِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا سراپا درمیان میں ہے۔ اُدھر اللہ سے واصل اور اِدھر مخلوق میں شامل، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِگرامی ہے کہ اللہ دیتا ہے، عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات کا رب ہے، میں تقسیم کرنے والا ہوں اللہ کی نعمتیں بانٹنے والا ہوں یعنی خالق اور مخلوق کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ لازمی اور ضروری ہے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ہاتھ دہلیز الوہیت پر ہے اور دوسرا مخلوقِ خدا کے برہنہ سروں پر، ایک ہاتھ سے اللہ رب العزت سے فیض لے رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے وہی فیض مخلوقِ خدا میں تقسیم فرما رہے ہیں۔ درمیان میں سراپائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو اس وساطت سے مخلوق اپنے خالق سے مل رہی ہے۔
تیسرا معنیٰ :۔ پھوٹنا، جاری ہونا

لفظ ھَوَیٰ پھوٹنے اور جاری ہونے کے معنوں میں بھی اِستعمال ہوتاہے تو اِس اِعتبار سے آیتِ مقدّسہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ قسم ہے قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ جب اِس سے اَنوارِالٰہی کے چشمے پھوٹنے لگے، اِس نے انوارِالٰہی کو اپنے اندر اتنا جذب کر لیا۔ اَنوارِاِلٰہیہ کا اِنشراح و اِنفجار ہوا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاۃٍ فِیہَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُ کَأَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ. . .
(النور، 24 : 35)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینہئ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس ( قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پرتَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے
حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر کا یہ عالم ہے کہ سینہئ اقدس کے شیشے سے اَنوار الٰہیہ کا اِنشراح ہو رہا ہے اور کرنیں پھوٹ پھوٹ کر باہر آرہی ہیں۔
چوتھا معنی :۔ غیر اللہ سے منقطع ہونا

عربی لغت میں ھویٰ کا غیر اللہ سے منقطع ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اِس اِعتبار سے آیت مقدسہ سے مفہوم یہ ہوا قسم ہے قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس حال کی کہ جب وہ اللہ کے سوا ہر ایک سے منقطع ہو گیا، دنیا کی ہر چیز سے مستغنی اور بے نیاز ہوگیا، اللہ تعالیٰ کی یاد، مشاہدے اور وصال میں سب کچھ بھول گیا۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَیO
(النجم، 53 : 2)
تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیO
(النجم، 53 : 17)
اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o
پانچواں معنی : ۔ محبت و خواہش
عربی لغت میں ھوٰی کا ایک معنی محبت اور خواہش کا بھی ہے یعنی اَلْحُبُّ وَالْاِشْتِھَاء ُ
(الشفاء ، 1 : 46)
مثلاً قرآن مجید میں اس کا حقیقی معنی یہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَیO إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَیO
(النجم، 53 : 3، 4)
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے کچھ ارشاد نہیں فرماتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی کچھ ارشاد فرماتے ہیں جو انہیں اپنے رب کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے۔
وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیO
(النازعات، 79 : 40)
اور جس نے اپنے نفس کو (ہر بری) خواہش سے روکا ہو گاo

قرآن مجید کی آیات مقدسہ کی روشنی میں ھوی کا معنی ہوا کسی خواہش کا پیدا ہونا، اس کا بھڑک اٹھنا، خواہش میں شدت پیدا ہونا، محبت، میلان اور رجحان کا اپنی انتہا کو پہنچ جانا، جذبے کی شدت کا اظہار مقصود ہو تو لفظ ھوی استعمال کیا جاتا ہے۔

ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی میں تو ھوی کی نفی کی جا رہی ہے۔ ھوی کا اثبات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح نفس کے درجات ہوتے ہیں اسی طرح ھوی کے بھی درجات ہوتے ہیں۔
درجات نفس
نفس کے مندرجہ ذیل درجات ہوتے ہیں۔
1. نفس امارہ
2. نفس لوامہ
3. نفس ملھمہ
4. نفس مطمئنہ
5. نفس راضیہ
6. نفس مرضیہ
7. نفس کاملہ
8. نفس صافیہ

اس آیتِ مقدسہ میں جس نفی کا ذکر کیا گیا ہے وہ نفسِ اَمّارہ کی ہے کیونکہ اس کی ھَوٰی مذموم ہوتی ہے۔ چونکہ ھَوٰی کا معنی میلان، رجحان اور رجوع اور رغبت ہے تو نفس جب تک اَمّارہ ہو اُس کا رجحان اور میلان اور رجوع حب الشھوات اور مذموم خواہشات کی طرف ہو گا۔ گویا لذتِ گناہ اِس کے لئے زیادہ پرکشش ہو گی لیکن جب ھَوٰی کی نسبت تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور خدا کے مقرب بندوں کی طرف ہو تو اُس سے ھوائے مذموم کی نفی ہو جائے گی کیونکہ اَمّارہ ہو گا تو ھوائے مذموم ہو گی اور جب نفسِ مطمئنہ، راضیہ اور مَرضیہ کے رجوع اور میلان و رجحان میں بھی اِشتہاء ہوتی ہے۔ جس طرح نفسِ اَمّارہ کے اندر خواہش کی آگ بھڑکتی ہے اِسی طرح نفسِ مطمئنہ، راضیہ اور مَرضیہ کی حالت میں بھی خواہش کی آگ بھڑک اٹھتی ہے لیکن اَمّارہ کا رجوع مذموم ہوتا ہے جبکہ نفسِ مطمئنہ کا رجوع قرآن اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :
یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُO ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًO
(الفجر، 89 : 27 - 28)

اے اطمینان پا جانے والے نفس!o تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)o
یہ نہیں کہ نفس مطمئنہ کا رجوع اور میلان نہیں، نفس مطمئنہ کا بھی رجوع اور میلان ہے مگر رجوع مذموم کی بجائے یہ رجوع اور میلان اپنے رب کی طرف ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر جب نفس نفس مطمئنہ کے درجے تک چلا جاتا ہے تو اس کا میلان خالقِ کائنات کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس کا منفی پہلو ختم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب نفس کا رجحان یا میلان اپنے رب کی طرف ہو گا تو مثبت ھوی ہے منفی ھوی نہیں۔ اب اس آیت مقدسہ کا مفہوم کچھ یوں ہو گا قسم ہے محبوب تیرے پاک دل کی اس حالت کی جب اس میں میرے عشق و محبت اور میری ملاقات کی خواہش اور آرزو مندی کی آگ بھڑک اٹھی، جب اِس کے اندر لقائے الٰہی اور دیدارِالٰہی اور وصال الٰہی کے شوق کی اور عشقِ الٰہی کی آگ مشتعل ہو گئی۔
اس کی تائید بھی قرآن کریم فراہم کرتا ہے :
وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَیO
(الضحی، 93 : 7)
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی)
جب عشق کی آگ من میں بھڑک اٹھتی ہے، نفس کا رجحان و میلان اپنے رب کی طرف ہو جاتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ فضائے اعتکاف اس کی روح پر بھی محیط ہو جاتی ہے۔ غاروں میں چالیس چالیس دن تک بن کھائے پیئے مراقبے ہونے لگے، دنیا کی رونقوں سے دل اچاٹ ہوا اور غار حرا کی خلوتوں میں جلوتوں کے چراغ جلنے لگے، غارِحرا کے سناٹے ذکر الٰہی سے گونج اٹھے، تاریکیوں میں عشق کی چاندنی بکھرتی چلی گئی، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ جوں جوں بعثت کا وقت قریب آتا گیا توں توں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوت پسند ہوتے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہفتے یا دو ہفتوں کا کھانا لے کر گھر سے دور پہاڑوں میں چلے جاتے اور مہینہ مہینہ چالیس چالیس دن وہاں قیام فرماتے اور گھر تشریف نہ لاتے۔ آپ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں پریشان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں گھر سے نکل پڑتی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب غار حرا میں آپ کے پاس پہنچتی تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ جو کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے لائے تھے وہ اسی طرح ایک طرف پڑا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراقبے کی حالت میں تشریف فرما ہیں۔

فرمایا رب کائنات نے کہ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہم نے دیکھا کہ تیرے قلب اطہر کے اندر ہمارے عشق و وصال کی آگ اتنی بھڑک اٹھی ہے کہ تجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا حتی کہ تو اپنے آپ کو بھی بھول گیا تو ہم نے تجھے اپنے حسن مطلق کے بے نقاب جلوے کرائے۔ پھر فرمایا اذا ھوی قسم ہے محبوب تیرے دل کی اس حالت کی کہ جب اس میں میری ملاقات اور دیدار کی خواہش و آرزو مندی کی تڑپ شعلہ جوالہ بن گئی۔ جب ہم نے تمہارے دل کی اس حالت کو دیکھا تو تجھ پر انعامات و اکرامات کی بارشیں کر دیں اور تجھے سفر معراج کی عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کیا۔

آگ اتنی بھڑک اٹھی کہ حالت ضال کو جا پہنچی۔ سب کچھ بھول گیا۔ غاروں میں چالیس چالیس دن تک بن کھائے پیئے مراقبے ہونے لگے، دنیا کی رونقوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور تحنث کی حالت کو جا پہنچے۔
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ فرماتی ہیں کہ جوں جوں بعثت کا وقت قریب آتا گیا توں توں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوت پسند ہوتے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہفتہ، دو ہفتے کا کھانا وغیرہ لے کر گھر سے دور پہاڑوں میں چلے جاتے اور مہینہ مہینہ، چالس چالیس دن واپس نہ آتے۔ میں پریشان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنے نکل پڑتی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب غار حرام میں آپ کے پاس پہنچتی تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ جو کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے تھے وہ اسی طرح ایک طرف پڑا ہے اور مراقبے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَیO
(الضحیٰ، 93 : 7)
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی)o
اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہم نے دیکھا کہ تیرے قلب مبارک کے اندر عشق و وصال کی آگ اتنی بھڑک اٹھی ہے کہ کچھ بھی یاد نہیں رہا حتی کہ اپنا آپ بھی بھول گیا تو فھدٰی ہم نے تجھے اپنے حسن مطلق کے بے نقاب جلوے کرائے۔
دوسری طرف فرمایا۔
اِذَا ھَوٰی قسم ہے محبوب! تیرے دل کی اس حالت کی کہ جب اس میں میری ملاقات اور دیدار کی خواہش و آرزو مندی کی تڑپ شعلہ جوالہ بن گئی۔ جب ہم نے آپ کے دل کی اس حالت کو دیکھا تو ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی کی نوازشیں کیں۔
اِنتہائے قربِ الٰہی کی ایمان اَفروز تفسیر
شفق رنگ لمحوں کو تخلیقی سطح پر گرفت میں لیا جائے تو عجب سی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ مشاہدہ قدرت میں قدم قدم پر یہی احساس کار فرما نظر آتا ہے مثلاً

جب آفتاب جہاں تاب مطلع آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو صبح کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ جب سوا نیزہ پر بلند ہوتا ہے تو اس کے روپ کو اشراق کا نام دیتے ہیں۔ کچھ اور بلند ہوتا ہے تو اس حالت کو چاشت کہا جاتا ہے۔ طلوع کے یہ مختلف روپ اور انداز مہر عالم تاب کی ضو فشانیوں کے مختلف مظاہر ہیں۔ جس طرح آفتاب دنیا کا طلوع تین مختلف مطالع پر جلوہ سامانیوں کے نئے انداز کے ساتھ سامنے آتا ہے اسی طرح آفتاب رسالت کی ضیا پاشیاں بھی تین مختلف مطالع پر جلوہ گر ہوئیں۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کی ہر شئے پر محیط ہیں۔ یہی انوار فرد کے باطن اور ظاہر کا منظرنامہ بھی دھنک کے سات رنگوں سے تحریر کرتے ہیں۔ یہی انوار فضائے بسیط میں پرفشاں نظر آتے ہیں۔ دہلیز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا باڑا بٹتا ہے۔ فاران کی چوٹیوں پر چمکنے والے آفتاب رسالت کی ضیا پاشیاں کائنات کے ہر افق کو منور و تاباں رکھتی ہیں کیونکہ انوار محمدی اور رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی پیمانے میں محدود نہیں کیا گیا بلکہ خلا کی بے انتہا وسعتوں میں دامانِ رحمت کی اِسی اُترن کا فیضان دکھائی دیتا ہے۔

کفر و شرک کے گھپ اندھیروں میں آفتاب رسالت کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو ردائے شب کے چاک ہونے کا منظر دیدنی تھا۔ کرہئ ارضی پر بسنے والی اولادِ آدم کو گناہ اور گمراہی کی طویل شب کے خاتمے کا یقین ہی نہیں آتا تھا لیکن روشنی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔
جاری ہے۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 344726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.