راز داری اور احتیاط : دارِ ارقم کا سبق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسانی زندگی میں بسا اوقات احتیاط اور راز داری کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے ، اسے انسانی دانشمندی اور فکری بلندی کی علامت سمجھا جاتا ہے ، خصوصاً جن کاموں کو پائیدار اور مستحکم بنانا ہو اور جن کے وسیع تر اثرات مرتب کرنے کی منصوبہ بندی ہو ، ان میں ایک ایک قدم سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے ، آبگینہ کی طرح جس کو ایک ہلکی سی ٹھیس بھی عیب دار بناسکتی ہے ، کسی بڑے کام کی ابتدا بڑے نازک مرحلہ سے ہوتی ہے ، اس میں جوش سے زیادہ ہوش اور ہنگامہ سے زیادہ سوج بوجھ کی روش کارگر ہوتی ہے ، شریعت میں جہاں بہت سے مقامات پر اعلان اور اظہار کو پسند کیا گیا ہے ، وہیں اخفاءاور راز داری کی بھی ہدایت دی گئی ہے ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اس کے بہت سارے نمونے ملتے ہیں ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے راز داری کی تعلیم بھی دی اور عملی طور سے اسے برت کر بھی دکھایا ، ہجرت کے سفر میں اور بہت سی جنگوں کے درمیان آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بعض چیزوں کو راز رکھا ، نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کُھل کر دعوت دینے کے بجائے راز داری کا طریقہ اختیارکیا ، اور اس کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرتِ ارقم بن ابی ارقم کے گھر کا انتخاب فرمایا ، حضرت ارقم بن ابی ارقم قریشی مخزومی نوجوان صحابی تھے ، سولہ سال ان کی عمر تھی ، بالکل ابتدا میں اسلام قبول کیا ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی عمر کے صحابہ کے گھروں کو چھوڑ کر اس نو عمر صحابی کے گھر کا انتخاب کیوں فرمایا ؟ اس مضمون میں ہم اس پر کئی پہلوؤں سے غور کرتے ہیں ۔

حضرتِ ارقم بن ابی الارقم کے گھر کا انتخاب اس وقت ہوا جب تیس سے زیادہ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضروری خیال فرمایا کہ مسلمانوں کی اس مختصر سی جماعت کے ساتھ دشمنوں کی نگاہوں سے دور ملاقاتیں ہوتی رہیں ؛ تاکہ گرد وپیش کے حالات سے پوری آگاہی رہے اور اسلام کے سایہ میں آنے والے نفوسِ قدسیہ کو دین کی باتیں بھی سکھائی جائیں ، حضرتِ ارقم کا یہ گھر کوہِ صفا کے بالکل آخری کنارے پر تھا ، دشمنوں کی مجلسوں سے بالکل الگ تھلگ ، بازار کے شور ہنگامے سے بہت دور ، قریش کے تعاقب سے دور دراز ایک اطمینان بخش اور نشاط افزا مقام ، یہاں مسلمانوں کا پہنچنا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا ، قریش کی مجلسوں سے اور بطور خاص دار الندوہ سے دور رہنے کا فائدہ یہ تھا کہ دشمنوں سے اپنی باتوں کو چھپانے کے لئے الگ سے کسی اہتمام کی ضرروت نہیں تھی ، دوسرے یہ کہ یہ گھر صفا پہاڑی کے دامن میں تھا ، اگر یہ پہاڑ کی بلندی پر ہوتا تو اس میں راز داری مشکل تھی ، اور قریش کے لئے اس کا پتہ پالینا آسان ہوتا ، اس گھر میں مسلمان آپس میں کیا مشورہ کرتے تھے ، اسلام کے دشمنوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ تھی ؛ چوںکہ یہاں قریب میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں لوگوں کو آنا جانا پڑتا ہو ، تیسرے یہ کہ ارقم ابھی کوئی مشہور مسلمان نہ تھے ، قریش کو یہ شک بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مسلمانوں کی میٹنگ سولہ سترہ سال کے نوجوان کے گھر ہوتی ہوگی ، کبھی قریش کو مسلمانوں کی تلاش بھی ہوئی تو اِن نو عمر صحابہ کے گھروں کی طرف ان کا دھیان بھی نہیں گیا ، ان کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ گھر مسلمانوں کے لئے مشورہ گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ، مزید براں ارقم کا تعلق بنی مخزوم سے تھا ، جس کی بنی ہاشم سے ہمیشہ لڑائی جاری رہتی تھی ، دشمنوں کا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ مسلمانوں کا اجتماع ان کے دشمنوں کے یہاں ہوتا ہوگا، اگر ارقم کا اسلام مشہور ہوتا تو ان کے گھر میں مسلمانوں کا اجتماع ہرگز نہ ہوتا ، چوںکہ گویا یہ دشمنوں کے علاقہ میں ان کے خلاف مشورہ کرنے کے مترادف تھا،اور دشمن کو اپنی راہ دکھاناکوئی دانشمندی نہیں ۔

اس گھر کے انتخاب میں آخری درجہ راز داری کا اہتمام کیا گیا تھا ، قریش کو زیادہ سے زیادہ شک تھا کہ مسلمانوں کا اجتماع صفا کے قریب کسی گھر میں ہوتا ہے ، اس خیال کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ص جیسے دور رس قائد نے جب اپنے اسلام کا اعلان کرنا چاہا تو ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس وقت حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں ، اگر انہیں معلوم ہوتا تو ان کے بارے میں پوچھنا نہ پڑتا ؛ بلکہ سیدھے وہاں پہونچ جاتے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سوا اس گھر کے بارے میں کسی کوکوئی خبر نہ تھی ، صحابہ نے بھی اس مقام کو راز میں رکھنے کا آخری درجہ اہتمام کیا تھا ، یہاں تک کہ وہاں چھپ کر آتے تھے اور چھپ کر جاتے تھے ، یہ احتیاط کی ایسی اعلیٰ مثال ہے جو عظیم قائد کی نگرانی کے بغیر اتنے منظم طور پر روبہ عمل نہیں لائی جاسکتی تھی ، اس کی دو مثالیں ہمیں سیرت میں ملتی ہیں : ایک تو اس وقت جب حضرتِ ابو ذر غفاری ص اسلام لانے کے ارادے سے آئے تھے اور اس موقع سے حضرت علی ص سے ان کی ملاقات ہوئی تھی ، حضرت علی ص جب ان کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے لئے دارِ ارقم لے جانے لگے تو راستہ میں ان سے کہا کہ دیکھو میں اگر تم پر کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو میں دیوار کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوجاؤں گا ، گویا میں اپنے جوتے درست کررہا ہوں اور بعض روایتوں میں ہے گویا میں پانی بہا رہاہو، یعنی ضرورت پوری کررہا ہوں ، اور تم آگے بڑھتے رہنا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دارِ ارقم آنے جانے کا سلسلہ حد درجہ احتیاط کے ساتھ تھا ، دوسرا نمونہ سیدنا ابو بکر ص کا ہے کہ جب ام جمیل اور ام الخیر ان کو دارِ ارقم لے جانے لگیں تو ابن کثیر کے مطابق ان دونوں خواتین نے ذرا توقف سے کام لیا ، جب قدموں کی آہٹ نہ رہی اور فضا پر سکون ہوگئی تو ان دونوں نے حضرت ابو بکر ص کو دارِ ارقم لے جاکر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملایا ۔ (البدایة والنہایة : ۳۰۳)

دارِ ارقم کی تعمیر میں بھی ایک عجیب و غریب احتیاط کا تذکرہ ملتا ہے ، اس کے دروازہ میں ایسے چھوٹے سوراخ بنائے گئے تھے کہ باہر آنے والے کو دیکھا جاسکے اور باہر والا شخص اندر کی چیزوں کو نہ دیکھ سکے ، حضرت عمر ص کا قصہ یاد ہوگا کہ جب انہوں نے دستک دی تھی تو دروازہ کھولنے سے پہلے ایک صحابی نے اس ” جادوئی آنکھ “ سے دیکھ لیا تھا کہ یہ عمر ہیں جو تلوار حمائل کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے حضور اکرم ا کو اس کی اطلاع دے دی ، حیرت ہے کہ اس زمانہ میں وہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی جو آج عمدہ مکانوں میں کی جاتی ہے ، احتیاط کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہنگامی حالات میں حسب حال طریقہ اختیار کیا جائے ؛ چنانچہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر ص کی طرف بڑھے تھے تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تلوار کے دستہ اور ان کے دست وبازو کو خوب اچھی طرح پکڑ لیا ؛ چوں کہ اس وقت معلوم نہیں تھا کہ عمر کس ارادے سے آئے ہیں / جب حضور اکرم ا کو چوتھے سال یا پانچویں سال ” فاصدع بما تومر “ (الحجر :94)کے ذریعہ کھل کر دعوت کا حکم دیا گیا ، اس سے پہلے تک آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسی گھر میں پوری راز داری کے ساتھ دعوت کے ضروری امور انجام دیتے رہے ، دارِ ارقم میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا ۔

دارِ ارقم کو ”دارالسلام“ کانام دیا گیا تھا(طبقات ابن سعد2433)حضرت ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گھر اپنے بچوں کو دیدیا تھا، بعد میں ” دار الخیزران “ کے نام سے مشہور ہوا ؛ چوں کہ خلیفہ منصور نے اسے سترہ ہزار درہم میں خرید لیا تھا ، اوربعد میں اپنے بیٹے مہدی کو دے دیا تھا ، اور مہدی نے اپنی اس باندی کو یہ گھر دے دیا جس کا نام خیزران تھا ، اور اس کے بطن سے اس کے دوبیٹے موسی الہادی اور ہارون رشید نے جنم لیا تھا ،افسوس کہ بہت سے اسلامی آثار کی طرح 1399ھ میں اس گھر کو بھی منہدم کردیا گیا ، خیزران نے اس گھر میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی ، دس سے زیادہ صحابہ یہاں اسلام لائے تھے ، حضرت حمزہ ص بھی وہیں اسلام لائے جن میں سب سے آخر میں حضرت عمر ص ایمان لائے تھے اور اب مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوگئی تھی ، اب جاکر کھل کر اسلام کی دعوت کا آغاز ہوا ۔

حضرتِ ارقم بن ارقم کا نام عبدِ مناف بن اسد تھا ، انہوں نے ہجرت بھی کی ، بدر واحد میں شریک بھی ہوئے ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اور عبد اللہ بن انیس کے درمیان مواخاة کرادی تھی ، حضرت ارقم کی وفات حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ حکومت (53 یا ۵۵ ہجری )میں پچاسی سال کی عمر میں ہوئی،حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی،اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔

آج ضرورت ہے ارقم کے گھر سے ملنے والے اسی احتیاط اور دانش مندی کے سبق کو دوہرانے کی
نظام میکدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے-
Muhammad Azam Nidvi
About the Author: Muhammad Azam Nidvi Read More Articles by Muhammad Azam Nidvi: 4 Articles with 7144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.