جملہ فرائض میں سب سے اہم فریضہ

اللہ ورسول پر ایمان،رسول اللہﷺکی تعظیم اور اللہ کی عبادت کی تعلیم دینا مقصودِقرآن ہیں

جملہ فرائض میں سب سے اہم فریضہ حضو ر رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیرہے

ہم اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کے بعدجملہ فرائض میں سب سے اہم فریضہ حضو ر رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیرہے اور یہ جانِ ایمان اورروحِ ایمان ہے جس کی تعلیم اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں جا بجا دی اور آپ کی بارگاہ کی ادنیٰ سی گستاخی کو بربادیِ اعمال اور جہنم میں جانے کا ذریعہ بتایا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام ،تابعین عظام اورسلف صالحین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے زندگی بھرآپ کی بارگاہ کا ادب اورآپ کی تعظیم وتوقیر کرتے رہے اور اسی کی تعلیم بھی دیتے رہے اور و ہی شخص کامیاب و بامراد ہے جس نے رسول اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں اپنی زندگی گزاری اور اپنا ہر عمل ان کی خوشی اور رضا کے لیے کرتا رہا۔ ہم اس کے متعلق چندآیات اورا حادیث اور ان کی تشریح جو ہمارے اکابرین خصوصاً اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی ہے اسے ہدیۂ قارئین کرتے ہیں۔قرآن پاک میںاللہ تعالی اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے سلسلے میں یوں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اے نبی! بے شک ہم نے تمہیں بھیجا گواہ اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بولو۔(پ ۲۶،الفتح،۸،۹) تمہید ایمان میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقدس سرہ ان آیات کی تشریح میںفرماتے ہیں:مسلمانو! دیکھو دینِ اسلام بھیجنے، قرآن مجید اتارنے کا مقصود ہی تمہارا مولیٰ تبارک وتعالیٰ تین باتیں بتاتا ہے :٭ اول یہ کہ لوگ اللہ ورسول پر ایمان لائیں٭ دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم کریں٭ سوم یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں رہیں۔ مسلمانو! ان تینوں جلیل باتوں کی جمیل ترتیب تو دیکھو، سب میں سے پہلے ایمان کو فرمایا اور سب میں پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کو اس لیے کہ بغیر ایمان تعظیم کار آمد نہیں بہتیرے نصاریٰ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم اور حضور پر سے دفع اعتراضاتِ کا فرمانِ لئیم میں تصنیفیں کرچکے، لکچر دے چکے مگر جب کہ ایمان نہ لائے کچھ مفید نہیں کہ یہ ظاہری تعظیم ہوئی۔ دل میں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی عظمت ہوتی تو ضرور ایمان لاتے، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تعظیم نہ ہو، عمر بھر عبادتِ الٰہی میں گزارے، سب بے کار ومردود ہے۔ بہتیرے جوگی اور راہب ترک دنیا کر کے ،اپنے طور پر ذکر وعبادت الٰہی میں عمر کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیںکہ لا الہٰ الا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں مگر از آنجا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم نہیں کیا فائدہ؟اصلاًقابل قبول بارگاہ الٰہی نہیں۔ ـــ(تمہید ایمان،ص:۳) اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالی کو یہ بھی پسند نہیں کہ کوئی اس کے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بلند آواز سے گفتگو کرے یا آپ کو آپ کا نام لے کر پکارے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ:اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ ۲۶، الحجرات،آیت :۲)اس آیت کی تفصیل میں صدر الافاضل علامہ سیدنعیم الدین مرادآبادی تحریر فرماتے ہیں:اس آیت میں حضور کا اجلال واکرام وادب واحترام تعلیم فرمایا گیا اور حکم دیاگیا کہ ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھیں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہیں اس طرح نہ پکاریں بلکہ کلمات ادب وتعظیم وتوصیف وتکریم والقاب عظمت کے ساتھ عرض کرو جو عرض کرنا ہو کہ ترک ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔ (خزائن العرفان)امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روضۂ انور کے پاس کسی کو اونچی آواز سے بولتے دیکھا فرمایا:کیا اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند کرتا ہے اور یہی آیت تلاوت کی۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ۱۵ ۱۶۹)قارئین! غور کریں کہ امیر المؤمنین نے وصال ظاہری کے بعد بھی تعظیمِ رسول کو لازم جانا اور اس کا حکم دیا معلوم ہوا کہ نبی کی تعظیم ہر زمانے میں لازم ہے اور جان ایمان ہے اور شائبہ توہین سے بھی بچنا ایمان کامل کی نشانی ہے۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں کا بھی ادب کرنے کا حکم دیا کہ یہ عام گھروں کی طرح نہیں ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:ترجمہ:اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اِذن نہ پاؤ۔ اے مسلمانو! ذرا اندازہ لگاؤ کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو بھی صرف حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ہی نہیں بلکہ آپ سے متعلق جتنی چیزیں ہیںان کے بھی ادب و احترام کا حکم دیا حتی کہ ایک حدیث پاک میںہے کہ جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب فرماتے ۔ سبحان اللہ ! حضور کے گھروں کی یہ شان ہے ۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 669856 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More