برے ہم نشین کے مقابلے میں تنہائی بہتر ہے

انسانی زندگی پر دوست کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جہاں صالح دوست کی بناء پر زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلتی ہے وہیں برے دوست کی دوستی کی وجہ سے انسان تعلیمات اسلامی سے روگر دانی اختیا رکرتا ہے ۔اسی لئے مذہب اسلام نے روزاول ہی سے دوستی کا صحیح تصور ہمیں عطا فرمایا ۔اﷲ رب العزت کا مقدس قرآن ارشاد فرماتا ہے وکونوا مع الصٰدقین (پ۱۱،سورۂ توبہ ، آیت ۱۱۹،کنز الایمان)گویا کہ اسلام نے ہمیں دوستی کا جو ضابطہ واصول فراہم کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے ۔سرور کائنات ﷺسے دریافت کیا گیا کہ بہترین ساتھی کون ہے ؟حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص بہترین دوست ہے کہ اگر تو نیک کا م سے غفلت کرے تو وہ تجھے تنبیہ کرے اور تیرے نیک کا موں میں تیری اعانت کر ے ۔اور برادوست وہ ہے کہ اگر تو نیک کا موں سے غفلت کرے تو وہ تجھے متنبہ نہ کرے اور نیک کاموں میں تیری مدد نہ کرے ۔قارئین کرام !آدمی وہی راستہ اختیا ر کرتا ہے جو اس کے دوست کا ہو تا ہے ۔اس لیے ہمیں صالح دوست کی سنگت اختیا ر کرنی چاہئے کیونکہ صحبت بد کی وجہ سے آخرت میں حسرت وافسوس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اور بد کردار دوست کے متعلق یہ کہیں گے ۔’’وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہو تا ‘‘ (پ ۱۹ ،سورۂ الفرقان ،آیت ۲۷ ) حدیث مبارکہ میں اچھے دوست کی علا متیں بھی بتا دی گئیں ۔جیسا کہ مفہوم حدیث ہے اچھا ہم نشیں وہ ہے جسے دیکھنے سے خدا یا د آئے اور اس کی گفتگو سے عمل میں زیا دتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے ۔نیک اور صالح دوست کی دوستی دنیا میں بھی سود مند ہو تی ہے ،قبر میں بھی نیکو کا ر کی صحبت عذاب میں تخفیف اور درجا ت کی بلندی کا باعث ہو تی ہے۔غرض کہ نیک صالح دوست کی رفاقت جنت کی راہ ہموار کرتی ہے ۔مصطفٰے جا ن رحمت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ صالح آدمی کے پا س بیٹھنے والوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مشک والے کے پا س بیٹھا ہے اگر مشک نہ بھی ملے تب بھی مشک کی خوشبو سے مشام جاں معطر اور دماغ کو فرحت وسرور حاصل ہوگا اور برے دوست کی مثال آگ کی بھٹی جیسی ہے کہ اگر چنگا ری نہ بھی پڑے تو دھواں سے دامن ضرور سیا ہ ہو جا ئے گا ۔فرمان رسول اکرم ﷺہے کہ ’’برے ہم نشین کے مقابلے میں تنہا ئی بہتر ہے اور اچھے آدمیوں کی ہم نشینی تنہائی سے بہتر ہے ۔‘‘ (بیہقی شریف )حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں’’ایسے شخص سے دوستی کروجو نیکی کر کے بھول جائے اور جو حق اس پر ہو وہ ادا کرے ۔امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ کا ارشاد گرامی ہیں’’جو دوست مشکل وقت میں کا م نہ آئے اس سے بچو کیونکہ وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے ۔‘‘شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا قول ہے ’’مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میری بری عادتوں کو اچھا کہے، میرے عیب کو ہنر جا نے اورمیرے کا نٹوں کو گلاب ویا سمین کا نا م دے ۔‘‘قارئین کرام !مقصد تحریریہ ہے کہ ہمیں اپنی دوستی کا جائزہ لینا ہوگا کیا واقعی ہماری دوستی ان اصول وضوابط کا احاطہ کئے ہو ئے ہے جو اسلام نے ہمیں عطا کئے ؟کیا واقعی ہمارے احباب ہمیں نیکیوں کی ترغیب دیتے ہیں ؟کیا واقعی ہمارے ہم نشین ہمیں گنا ہوں پر متنبہ کرتے ہیں ؟لہٰذا اپنے گرد وپیش کا جائز ہ لیجئے اور ان کی دوستی اختیا ر کیجئے جو سچے ،ایمان دار ،صالح ہوں اگر ہمارے دوستوں میں مذکورہ بالا اوصاف حمیدہ نہیں موجود ہیں تب ایسے دوستوں سے کنارہ کشی اختیا ر کرنا ہی ہمارے حق میں بہتر ومفید ہوگا ۔مگر ساتھ ہی بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم اسے نیکی کی دعوت دیں تا کہ وہ را ہِ راست پر آجا ئیں ۔اﷲ پاک ہمیں صالح ،نیک ،سچااور مخلص دوست عطا فرمائے ۔اور ہم میں نیک اوصاف کو پیدا فرما ئے ۔آمین ۔
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 669910 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More