مسجد نبوی

مسجد نبوی
مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔

[ترمیم] تعمیر

مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی۔ مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔ مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لئے مخصوص تھے ۔

مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کا پلاٹ تھا۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر آمادہ تھے اور اس بات کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کیلئے استعمال ہوجائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بلا معاوضہ وہ پلاٹ قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کیلئے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔ مسجد سے متصل ایک چبوترہ بنایا گیا جو ایسے افراد کے لئے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک ہیں۔ یہ مقام دراصل ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک تھا۔ ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لئے معبد، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔

مسجد کے قلب میں عمارت کا اہم ترین حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روضہ مبارک واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ یہاں مانگی جانے والی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ خصوصاً حج کے موقع پر رش کے باعث روضہ مبارک کے حصے میں داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے ۔ سنگ مرمر حالیہ منبر عثمانی سلاطین کاتیار کردہ ہے جبکہ اصل منبر رسول کھجور کے درخت سے بنا ہوا تھا۔

سعودی عرب کے قیام کے بعد مسجد نبوی میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی لیکن مرحوم شاہ فہد بن عبد العزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کاعظیم ترین منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس عظیم توسیعی منصوبے کے نتیجے میں مسجد تعمیرات کا عظیم شاہکار بن گئی۔

دور نبوی میں اہمیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی مسجد کے سنگریزوں پر ﺑﻴﭨﮭ کر معاشرہ کے تمام مسائل کو قرآن کریم کی روشنی میں حل فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام اصلاحی اور تعمیری سرگرمیاں یہیں سے انجام پاتی تھیں۔ سینکڑوں مہاجرین کی اس چھوٹی سی بستی میں منتقل ہونے کے نتیجہ میں آبادی کے مسائل تھے اور ان نووارد افراد کو معاشرے میں ضم کرنے کے مسائل تھے۔ اس مسئلہ کو مسجد نبوی کے صحن میں ﺑﻴﭨﮭ کر مواخات کی شکل میں حل کیا گیا۔ نئی مملکت کے تمام سیاسی مسائل کے حل اور قانون سازی کیلئے اس مسجد نے پارلیمنٹ ہاؤس کا کردار ادا کیا۔ عدالتی فیصلوں کے لئے اسی مسجد نے سپریم کورٹ کا کردار ادا کیا۔ ہر قسم کی تعلیمی کاروائیاں اسی مسجد سے سرانجام پانے لگیں۔ تمام رفاہی کاموں کا مرکز یہی مسجد قرار پائی۔ تجارت و زراعت کے مسائل کے لئے یہی کامرس چیمبر اور یہی ایگریکلچر ہاؤس قرار دیا گیا۔ دفاعی اقدامات اور جنگی حکمت عملی کے لئے بھی یہی مسجد بطور مرکز استعمال ہونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب کسی علاقے میں جہاد کیلئے لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسی مسجد سے اس کی تشکیل کی جاتی اور ایک موقع پر مجاہدین نے جہاد کی تربیت کا مرحلہ بھی اس مسجد کے صحن میں مکمل کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حبشہ کے ﻜﭽﮭ لوگ آئے ہوئے تھے اور عید کے روز مسجد نبوی کے صحن میں وہ نیزہ بازی کی مشق کررہے تھے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اوٹ میں کھڑے ہوکر دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد ومدرسہ کو مسلم معاشرہ کا محور بنا دیا تھا اور مسجد ومدرسہ کا کردار زندگی کے ہر شعبہ پر محیط تھا، جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کے الجھے ہوئے تمام مسائل حل ہوگئے اور مدینہ منورہ کا معاشرہ دنیا کے لئے ایک عظیم الشان مثال بن گیا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد نبوی کو صرف عبادت کی جگہ قرار نہیں دیا بلکہ اس سے لوگوں کی سماجی، سیاسی، علمی اور زندگی کے دیگر امور سے متعلق مسائل کے حل کے لئے بھی استفادہ کرتے تھے اسی لئے یہ مسجد مسلمانوں کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ برسوں سے لاکھوں مسلمان مسجد نبوی اوراس کے احاطے میں واقع روضہ نبوی کی زیارت کے لئے نہایت عقیدت و احترام اور ذوق و شوق کے ساتھ مدینے جاتے ہیں۔

نیا میگا پروجیکٹ

سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ نے مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کے لئے 4ارب 70کروڑ ریال کے میگا پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کے مطابق مسجد نبوی کے مشرقی حصے کی توسیع کی جائے گی جس کے بعد اس حصہ میں مزید 70 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہوجائے گی۔ میگا پروجیکٹ میں مسجد نبوی میں 182 بڑی خودکار چھتریاں بھی نصب کی جائیں گی تاکہ زائرین کرام سورج کی گرمی اور بارش سے محفوظ رہ سکیں۔
Haris Khalid
About the Author: Haris Khalid Read More Articles by Haris Khalid: 30 Articles with 60364 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.