حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ اور ہم

حریم کعبہ میں سناٹا تھا۔ دیکھا کہ ایک شخص تنہا محوِ عبادت ہے اور اونچی آواز سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ محمد رسول اﷲ صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ موقعہ اچھا ہے، دیکھوں یہ شخص تنہائی میں کیا کرتا اور کیا کہتا ہے۔ دبے پاؤں آگے بڑھا۔ محتاط تھا کہ وہ مجھے دیکھ نہ لیں، اس لئے میں غلافِ کعبہ میں چھپ گیا اور سرکتا سرکتا ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں مجھ میں اور ان میں غلافِ کعبہ کے سوا کچھ اور حائل نہ تھا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نہایت جذب و کیف کے عالم میں کھڑے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھ رہے تھے کہ’’قسم کھاتا ہوں میں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے‘‘۔ ان الفاظ میں کچھ ایسا بلا کا اثر تھا کہ میں نے کہا کہ قریش جو کہتے ہیں کہ یہ شخص نہایت بلند پایہ شاعر ہے تو وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں، کہ اتنے میں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اگلی آیت پڑھی کہ ’’بے شک قرآن اﷲ کے عالی مقام رسول کا قول ہے، یہ کسی شاعر کا قول نہیں، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو‘‘۔ میں نے کہا کہ یہ تو اپنے شاعر ہونے سے بھی انکار کرتا ہے تو پھر جیسا قریش کہتے ہیں یہ کاہن ہو گا، کہ اتنے میں میرے کان میں یہ الفاظ پڑے کہ’’ اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو‘‘۔ قرآن کے اسلوب نے مجھے حیرت میں ڈال دیا میں نے کہا کہ اگر یہ نہ کسی شاعر کا کلام ہے نہ کاہن کا تو پھر یہ ہے کیا؟ میرے دل کی اس بات کا جواب مجھے ان الفاظ میں ملا کہ’’یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اگر نبی نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے، پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا‘‘۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم یہ پڑھتے جا رہے تھے اور مجھ پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری تھی۔ میں بے اختیار روتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے نماز ختم کر لی اور گھر جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ میں بھی دبے پاؤں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے ہو لیا۔ گھر کے نزدیک پہنچے تو میں قریب ہو گیا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے آہٹ پا کر مڑ کر دیکھا تو مجھے پہچان لیا اور ڈانٹ کر کہا ’ابنِ خطاب! تم ایسے وقت میں یہاں کیسے‘؟ اور میں نے کہا کہ یہ گواہی دینے کے لئے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم الله کے سچے رسول ہیں۔ یہ ہے ابنِ اسحاق و مسند امام احمد بن حنبل کے مطابق ( بحوالہ ہیکل) حضرت عمر رضی الله تعالٰی کے اپنے بقول انکے اسلام قبول کرنے کا واقعہ جو نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس خواہش کے تین دن بعد پیش آیا کہ’’اے رب العالمین ! اسلام کو ابو جہل یا عمر ابنِ خطاب کے ذریعے تقویت بخش۔

ان دونوں میں سے تجھے جو بھی محبوب ہو اسے مشرف بہ اسلام فرما‘‘۔ اس دعا سے اس بات کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ ، نبی اکرم صلٰی الله علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ اور عرب معاشرے میں کیا مقام و حیثیت رکھتے تھے۔ خاندانی لخاظ سے آپ رضی الله تعالٰی کا تعلق قبیلہ عدی سے تھا جو قریش کے معزز ترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔ پیشے کے اعتبار سے آپ رضی الله تعالٰی ایک بڑے ہی کامیاب تاجر تھے اور آپ رضی الله تعالٰی عنہ کا شمار قریش کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ رضی الله تعالٰی عنہ علم الانساب کے بھی ماہر تھے جسے عربوں کے یہاں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس فن میں آپ رضی الله تعالٰی ایسا مقام رکھتے تھے کہ جب کوئی شخص قریش کے سامنے نسبی تفاخر کے لئے آتا تو اس کے مقابلے میں آپ رضی الله تعالٰی کو پیش کیا جاتا۔ آپ رضی الله تعالٰی عنہ کشتی لڑنے میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے اور یہ بھی عربوں کے یہاں بڑا فن سمجھا جاتا تھا۔

آپ رضی الله تعالٰی عنہ قریش کے سفیر بھی تھے اور جنگوں وغیرہ کے معاہدوں میں ان کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔ شعرو سخن کی محفلیں بھی آپ رضی الله تعالٰی عنہ کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھیں۔ مکّہ میں صرف 17 لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور ان میں ایک رضی الله تعالٰی عنہ بھی تھے۔ یہی وہ خصوصیات تھیں جن کے حسین امتزاج نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت رضی الله تعالٰی عنہ سے ایسی اصطلاحات کروائیں کہ جن کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ آپ رضی الله تعالٰی عنہ آداب حکومت کو کس خوش اسلوبی سے سمجھتے تھے اس کا اندازہ آپ رضی الله تعالٰی عنہ کے ان اقوال سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ طاقتور خائن اور کمزور دیانت دار، دونوں حکومت کے لئے نقصان رساں ہوتے ہیں۔ وہی حکومت درست رہ سکتی ہے جس میں نرمی ہو لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اور سختی ہو لیکن استبداد کی وجہ سے نہیں۔ حکومت کے منصب کے لئے ایسا شخص سب سے زیادہ موزوں ہے کہ جب وہ اس منصب پر فائز نہ ہو تو قوم کا سردار نظر آئے اور جب اس پر فائز ہو جائے تو انہی میں سے ایک فرد معلوم ہو۔ جس شخص میں تکبر دیکھو، سمجھ لو کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ جو شخص مسلمانوں کا امیر بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے غلاموں کی طرح مخلص اور امین ہو۔ ایک حاکم کو اپنی رعایا کے لئے ایسا بننا چاہیے جیسا وہ خود رعایا ہو کر اپنے حاکم کو بنانا چاہے۔ جب تک سربراہ مملکت پر وہی نہ گزرے جو رعایا پر گزرتی ہے، اسے ان کی تکلیف کا احساس کیسے ہو سکتا ہے؟ اچھا حکمران وہ ہوتا ہے جس سے امن پسند لوگ بے خوف اور بد قماش خوفزدہ ہوں۔ جو شر پیدا کر کے غالب آیا وہ غالب نہیں، مغلوب ہے اور جو ناجائز طریقے سے کامیاب ہوا وہ کامیاب نہیں، ناکام ہے۔ حاکم کو انہیں باتوں کا حکم دینا چاہیے جن کا حکم خدا نے دیا ہے اور انہیں سے روکنا چاہیے جن سے اﷲ نے روکا ہے۔ جب حاکم بگڑ جاتا ہے تو رعایا بھی بگڑ جاتی ہے اور سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب رعایا بگڑ جائے۔ جس حاکم کے محل کے دروازے عوام کے لئے بند ہو جائیں وہ قصر سعد نہیں قصرِ فساد ہے۔ حکومت کی اصلاح تین چیزوں سے ہو سکتی ہے، ذمہ داریوں کی ادائیگی، قوت کے ساتھ گرفت اور قرآن کے مطابق فیصلے۔ دولت کے اصلاح دو چیزوں سے ہو سکتی ہے، حق کے ساتھ لیا جائے اور باطل میں خرچ ہونے سے بچایا جائے۔ لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دو، مٹھی مٹھی دینے سے ان کے اخلاق درست نہیں رہ سکتے۔ بھوک سے مجبور ہو کر چوری کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی، سزا اسے دی جائے گی جس نے اسے اس حالت تک پہنچایا۔

رعایا پر حکومت کے واجبات کی ادائیگی اس وقت لازم آتی ہے جب وہ حکومت کے رفاع عامہ سے مستفید ہوتی ہے۔ امیرالمومنین اس وقت گیہوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ رعایا میں سے ہر ایک کو گیہوں کی روٹی مل رہی ہے۔ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے تو عمر رضی الله تعالٰی عنہ سے اس کی باز پرس ہو گی۔ حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت کی بات چلتی ہے تو اس بڑھیا کا واقعہ یاد آ جاتا ہے جو بڑی کسمپرسی کے عالم میں ایک خیمے میں رہتی تھی۔ ایک سفر کے دوران حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ کا گزر وہاں سے ہوا۔

اس کی حالت دیکھ کر آپ رضی الله تعالٰی عنہ نے اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی حالت کی اطلاع خلیفہ تک کیوں نہیں پہنچائی؟ اس نے جواب دیا کہ یہ میرا کام نہیں خلیفہ کا کام تھا۔ حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ خلیفہ کو اتنی دور کا حال کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ اور بڑھیا نے وہ جواب دیا جسے یاد کر کے حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ کی آنکھوں میں ہمیشہ آنسو آ جایا کرتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ خلافت کا مفہوم کیا ہے مجھے شام کی اس بڑھیا نے سکھایا۔ بڑھیا نے کہا تھا کہ اگر خلیفہ اپنی رعایا کے ہر فرد کے حالات کی خبر خود نہیں رکھ سکتا تو اسے چاہیے کہ وہ حکومت چھوڑ دے۔ کاش ہمارے کسی حکمران کو بھی حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق ہو۔ اور کچھ نہیں تو کاش کوئی حکمران حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ کا یہی ایک قول یاد رکھ سکے کہ حکومت کے زور کا مطلب تلوار نہیں، اس کا مطلب حق کے ساتھ فیصلہ اور انصاف کے ساتھ مواخذہ کرنا ہے۔ کاش ہم محرم الحرام میں حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ کے یوم شہادت پر قرآن خوانیوں کے ذریعے ثواب کمانے کے بجائے ان کی کہی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہونے کا عہد کر سکتے۔
Haris Khalid
About the Author: Haris Khalid Read More Articles by Haris Khalid: 30 Articles with 60365 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.