زمین کی پیداوار میں زکاۃ یعنی عُشْر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

خالق کائنات کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زمین کی تخلیق ہے جس میں اﷲ جل شانہ کے حکم سے بے شمار اناج، پھل پھول، سبزیاں اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہوتی ہیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ محض اﷲ تعالیٰ کا فضل وکرم واحسان ہے کہ اس نے زمین کو انسان کے تابع بنا دیااور اس میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی روزی کا عظیم ذخیرہ جمع کردیا۔

اﷲ تعالیٰ نے مٹی کو پیداوار کے قابل بنایا اور پیداوار کے اگنے اور اس کے نشوونما کے لئے بادلوں سے پانی برساکر، پہاڑوں سے چشمے بہاکراور زمین کے اندر پانی کے ذخیرے رکھ کر وافر مقدار میں پانی پیدا کردیا، نیز ہوا کے انتظام کے ساتھ روشنی وگرمی کا خاص نظم کیا تاکہ تمام انس وجن اور جاندار زمین کی پیداوار سے بھرپور فائدہ اٹھاکر زندگی کے ایام گزارتے رہیں۔

یقینا زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ہی نے زمین سے پیداواری کا یہ سارا انتظام کیا ہے ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَفَرَاَیْتُمْ مَا تَحْرُثُوْنَ اَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہُ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ (سورۃ الواقعہ آیت نمبر۶۳) اچھا یہ بتاؤکہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو، کیا اسے تم اگاتے ہو ، یا اگانے والے ہم ہیں۔ یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی تو ہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو۔ اس بیچ کو پروان چڑھاکر کونپل کی شکل دینا، اور اسے درخت یا پودا بنا دینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرناکیا تمہارے اپنے بس میں تھا؟ اﷲ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچادیتا ہے۔

یقینی طور پر زمین کی پیداوار کا ہر ہردانہ اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اور حقیقی پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان تو اﷲ کی عظیم نعمتوں (مٹی کو پیداوار کے قابل بنانا، پانی، ہوا، گرمی وسردی اور روشنی کا انتظام وغیرہ) سے فائدہ اٹھائے بغیر ایک تنکا بھی زمین سے نہیں اگاسکتا ۔ اس عظیم نعمت پر ہر شخص کو اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زمین سے ہمارے لئے عمدہ عمدہ غذاؤوں کا انتظام کیا۔ شریعت اسلامیہ نے اظہار تشکر کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ زمین کی ہر پیداوار پر عشر یا نصف عشر (دسواں یا بیسواں حصہ) یعنی دس یا پانچ فیصد زکاۃ نکالیں تاکہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے۔

پیداوار کی زکاۃ کے متعلق اﷲ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرتا ہے: وَہُوَ الَّذِیْ اَنْشَاَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوْشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوْشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفاً اُکُلُہُ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَغَیْرَ مُتَشَابِہٍ، کُلُوْ مِنْ ثَمَرِہِ اِذَا اَثْمَرَ وَآتُوْا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلَا تُسْرِفُوا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن۔(سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۴۱) اﷲ وہ ہے جس نے باغات پیدا کئے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں ، اور نخلستان اور کھیتیاں پیدا کیں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اﷲ کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔

اسی طرح اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ، وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیْہِ اِلَّا ٓاَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ، وَاعْلَمُوآ اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۶۷) اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہواور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اﷲ کے راستے میں ) خرچ کیا کرو۔ اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اﷲ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اﷲ بے نیاز ہے اور قابل تعریف ہے۔

قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فِیْمَا سَقَتِ الْاَنْہَارُ وَالْغِیَمُ الْعُشُوْرُ وَفِیْمَا سُقِیَ بِالسَّانِیَۃِ نِصْفُ العُشْر (صحیح مسلم، مسند احمد، نسائی، ابوداود) جو زمین دریا اور بادل سے سینچی جائے، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ اور جو ززمین کنویں سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ( زکاۃ کے طور پر نکالا جائے)۔

قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فِےْمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُوْنُ اَوْ کَانَ عَثَرَیاً الْعُشْرُ وَفِیْمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْر (صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، ابوداود، ابن ماجہ) جو زمین آسمان، چشمہ اور تالاب کے پانی سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا دسواں حصہ، اور جو زمین ڈول یا رہٹ کے ذریعہ سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ( زکاۃ کے طور پر نکالا جائے)۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زمین کی پیداوار پر دسواں یا بیسواں حصہ (دس یا پانچ فیصد) زکاۃ میں دینا ضروری ہے، اگرچہ اس کی تفصیلات میں کچھ اختلافات ہیں۔ (بدائع الصنائع) شیخ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب "المغنی" میں تحریر کیا ہے کہ زمین کی پیداوار میں زکاۃ کے وجوب کے سلسلہ میں امت کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔

عُشْر کے معنی:
عشر کے اصل معنی دسویں حصہ کے ہیں، لیکن حضور اکرم ﷺ نے پیداوار کی زکاۃ کے متعلق جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اس میں زمین کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔

۱) اگر زمین بارانی ہو یعنی بارش یا ندی ونہر کے مفت پانی سے سیراب ہوتی ہے تو پیدوار میں عشر یعنی دسواں حصہ زکاۃ میں دینا فرض ہے۔ ۲) اگر زمین کو ٹیوب ویل وغیرہ سے خود سیرا ب کیا جاتا ہے تو نصف عشر (پانچ فیصد) یعنی بیسواں حصہ زکاۃ میں دینا فرض ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر مفت پانی سے سیراب ہوکر پیداوار ہوئی ہے تو دسواں حصہ (دس فیصد)ورنہ بیسواں حصہ (پانچ فیصد) ۔

اگر زمین دونوں پانی (یعنی بارش وغیرہ اور ٹیوب ویل) سے سیراب ہوئی ہے تو اکثریت کا اعتبار ہوگا۔
فقہاء کی اصطلاح میں دونوں قسم پر عائد ہونے والی زکاۃ کو عشر ہی کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نصاب عُشر :
قرآن وحدیث کے عموم کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک عشر کے لئے کوئی نصاب ضروری نہیں ہے بلکہ ہر پیداوار پر زکاۃ واجب ہے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ۔ یعنی عشر میں زکاۃ کی طرح کوئی نصاب ضروری نہیں کہ جس سے کم ہونے پر عشر ساقط ہوجائے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی رائے میں پھلوں، سبزیوں اور ترکاریوں پر بھی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب ہے۔ دیگر ائمہ اور امام محمد ؒ وامام یوسف ؒ کے نزدیک حدیث (لیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقہ) کی روشنی میں پانچ وسق (چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلو)سے اگر کم پیداوار ہو تو ایسے لوگوں پر عشر واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلوسے کم گندم پیدا ہوا ہے تو اس پر عشر واجب نہیں ہے۔

عُشْر اور زکاۃ میں فرق:
پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ہر پیداوار پر دی جائے گی، خواہ سال میں ایک سے زیادہ پیداوار ہوئی ہو، یعنی اگر ایک سے زیادہ مرتبہ پیداوار ہوئی ہے تو ہر مرتبہ عشر یا نصف عشردیاجائے گا۔ مال یا سونے وچاندی کی زکاۃ کے وجوب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ضروریات سے بچا ہواہو، نصاب کو پہنچا ہوا ہو اور اس پر ایک سال گزرگیا ہو لیکن پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ غرضیکہ مال یا سونے وچاندی پر سال میں ایک ہی بار زکاۃ واجب ہوتی ہے، جبکہ سال میں دو پیداوار ہونے پر دو مرتبہ زکاۃ ادا کی جائے گی۔

پیداوار پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) کی ادائیگی کے بعد اگر غلہ کئی سال تک بھی رکھا رہے تو اس پر دوبارہ زکاۃ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر غلہ بیچ دیا گیا تو اس سے حاصل شدہ مال پر ایک سال گزرنے اور نصاب کو پہنچنے پر زکاۃ واجب ہوگی۔

کھیت کی زمین پر کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوتی ہے چاہے جتنی قیمت کی ہو۔

بٹائی کی زمین کا عشر:
جس کے حصہ میں جتنی پیداوار آئے گی اس کے مطابق اس کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زمین مالک اور کھیتی کرنے والے کے درمیان آدھی آدھی پیداوار تقسیم ہوئی تو دونوں پر حاصل شدہ پیداوار پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔

کٹائی کا خرچ اور عشر:
پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) تمام پیداوار سے نکالی جائے گی، اس میں کٹائی وغیرہ کے مصارف شامل نہیں کئے جاتے ہیں، مثلاً سو کوئنٹل گندم پیدا ہوئے، پانچ کوئنٹل گندم کٹائی میں اور دس کوئنٹل گاہنی(تھریشر) میں دے دیا گیا تو ۸۵ کوئنٹل پر نہیں بلکہ پوری پیداوار یعنی سو کوئنٹل پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنی ہوگی۔

متفرق مسائل:
٭ پیداوار کی زکاۃ میں جو حصہ ادا کرنا واجب ہے مثلاً ایک کوئنٹل گندم تو گندم کے بجائے اگر اس کی قیمت دے دی جائے تو بھی جائز ہے۔ (شامی)
٭ اگر رہائشی مکان کے ارد گرد یا اس کے صحن میں کسی پھل مثلاً امرود کا پیڑ لگالیا یا معمولی سی کھیتی کرلی تو اس پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب نہیں ہے۔ (شامی)
٭ ہندوستان کی آراضی عام طور پر عشری ہیں، یعنی پیدوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکاۃ کو ادا کرنا چاہئے ۔ مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستانی آراضی کی کل تیرہ صورتیں ہیں، جن میں سے دس میں اصولاً عشر یا نصف عشر واجب ہوتا ہے اور تین میں احتیاطاً عشر یا نصف عشرادا کرنا چاہئے۔ (جدید فقہی مسائل ۔ مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب)
٭ ہندوستان کی آراضی میں پیداوار پر زکاۃ کے سلسلہ میں بعض علماء کا اختلاف بھی ہے مگر قرآن کریم کی آیات واحادیث کے عموم کی وجہ سے احتیاط اسی میں ہے کہ ہر پیدوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکاۃ کو ادا کیا جائے۔

کھیتی کی زکاۃ کے مستحقین بھی مستحقینِ زکوٰۃ کی طرح ۸ ہیں:
اﷲ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ آیت نمبر ۶۰ میں ۸ مستحقین زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے :
(۱) فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔
(۲) مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
(۳) جو کارکن زکاۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔
(۴) جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔
(۵) وہ غلام جسکی آزادی مطلوب ہو۔
(۶) قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔
(۷) اﷲ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
(۸) مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ ہماری جانی ومالی تمام عبادتوں کو قبول فرمائے، آمین۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 153976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.