بیزارکن میچ

جسطرح رانا ثناء اﷲ اور خادم اعلیٰ اور دیگر چند بیٹسمینوں نے پچ پر قدم رکھتے ہی شروع کے اوورز میں جارحانہ انداز اپنائی جس سے توقع یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ن لیگ کی ٹیم عمران خان اور طاہر القادری ٹیم کے خلاف پہاڑ جیسا اسکور کرکے مخالف ٹیم کے حوصلے کو پست کرنے میں اہم کردار ادا کریگی۔ لیکن جسطرح کی وکٹ میچ کو منعقد کرانے والوں نے بنا لی تھی اس میں جارحانہ قسم کی بیٹنگ کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ اور ابتدائی چند اوورز کھیلنے کے بعد آدھی ٹیم جب پویلین کو واپس لوٹ گئی۔ جس میں عمران خان اور طاہر القادری کے خطرناک گیندبازی نے ن لیگ کی مضبوط بیٹنگ لائن کو مشکلات میں ڈالا۔ جس میں رانا ثناء اﷲ ، خادم اعلیٰ جیسے اہم کھلاڑی پویلین کو واپس لوٹ گئے تو تب نواز لیگ کے کپتان کو ہوش آیا کہ وکٹ بیٹنگ کے حق میں نہیں البتہ پچ جس طرح کی بھی بنی ہوئی تھی نوا ز ٹیم کو ہر حال میں اس میچ کو کھیلنا اور بچانا مقصود تھا۔ کیونکہ میچ کے ہاتھ جانے سے نواز لیگ لیگ میچ سے ہی آؤٹ ہو نے کا خطرہ موجود تھا ۔ اس میچ کی انتہائی اہم بات یہ ہے کہ میچ کو دیکھنے کے لئے تماشائیوں کی کثیر تعداد نے گراؤنڈ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنایا ہوا تھا۔ اب جبکہ نواز ٹیم کے کپتان کو ہوش آیا تو اس نے دفاعی حکمت عملی اور سست روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بقایا وکٹیں بچانے کی کافی حد تک کوشش کی ہے۔ احسن اقبال ، پرویز رشید اور چند دیگر ٹھنڈے مزاج کے بیٹسمینوں نے بڑی حد تک وکٹیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گو کہ سعد رفیق جیسے تیز بیٹسمین کی جانب سے کبھی کبھار تیز شاٹس دیکھنے کو ملے ہیں۔ لیکن کپتان کی جانب سے دفاعی انداز سے بیٹنگ کرنے کی ہدایت ملنے کے بعد انہوں جارحانہ انداز کو دفاعی انداز میں بدل ڈالا ہے۔کیونکہ کپتان کو پتہ تھا کہ عمران خان اور قادری ٹیم کی بؤلرز کے باؤنسرز کسی بھی وقت اسے ریتائرڈ ہرٹ کرنے پر مجبور نہ کریں۔ اگر میچ کا جائزہ لیں تو شروع شروع میں یہی لگ رہا تھا کہ یہ میچT20کی طرح اپنے اختتام کو پہنچے گا لیکن ون ڈے سے ہوتا ہوا اب ٹیسٹ میچ کا رخ اختیار کر چکا ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن میچ کی دلچسپی کو ختم کرانے میں اپنا کردار اداکر رہا ہے۔ گو کہ باؤلرز دن کے شروع اوورز میں چند اوورز فاسٹ کراکے اسٹیڈیم اور ٹی وی اسکرین پر موجود شائقین کا توجہ میچ کی جانب مبذول کرواتے ہیں لیکن اسکے بعد جس طرح کی بیٹنگ، فیلڈنگ اور باؤلنگ ہوتی ہے اس سے تماشائیوں کی عدم دلچسپی کا مظاہرہ بھی کر جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تماشائی مایوس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے ہوئے تماشائی یا تو ٹی وی بند کر دیتے ہیں یا تو دوسرا پروگرام دیکھنے کی ذحمت کرتے ہیں اﷲ بھلا کرے چینلز مالکان کی جنہوں نے اس میچ کی نشریات کے حقوق حاصل کرکے شروع سے لیکر اب تک میچ کو عوام تک براہ راست پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور میچ کے لئے کمنٹیٹرز (رپورٹرز) بیچارے تو اس میچ کی کمنٹری کرتے کرتے تھک گئے انکے گلے خشک ہو گئے ہیں۔ جسکی وجہ سے چینلز کو کمنٹیٹرز بار بار تبدیل کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس میچ کو نشر کرنے والے چینلز جنکا خیال تھا کہ یہ میچ ایک ہی دن میں ختم ہو جائیگا۔ انہوں نے اس میچ کی نشریات کے حقوق حاصل کر لئے تھے لیکن شاید انہیں اب اس میچ کے لینے کے دینے پڑ رہے ہیں کیونکہ اس میچ کو براہ راست دکھاتے ہوئے بورنگ ماحول کی فضا قائم کر چکے ہیں جس انکے ویورز کی تعداد میں انتہائی کمی آگئی ہے۔ جس سے یقینا اشتہار ساز کمپنیاں بھی اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس میچ کے لئے مزید اشتہارات چینلز کو نہ دیئے جائیں جس سے کمپنیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسری جانب اس میچ کو 14اگست سے براہ راست دیکھنے والے ناظرین بھی کافی تھکاوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ اور گھروں کے اندر تنگ آمد جنگ آمد کی صورتحال سی پیدا ہو گئی ہے۔ دو ہفتے سے زیادہ طول دینے والے اس میچ کو ختم کرانے کے لئے پاکستانی عوام نے اس میچ کو انعقاد کرنے والی انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ برائے کرم اس میچ کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائیں تا کہ یہ قوم مزید بیزارکن صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو ۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش کی ہے کہ آئندہ ایسی میچز کرانے سے گریز کیا جائے جس کے انعقاد سے لیکر اب تک مزدورطبقہ اپنی مزدوری کو پس پشت ڈال کر گھر بیٹھ کر صرف میچ کا نظارہ دیکھنے میں اپنا وقت تباہ کر رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے چینلز مالکان سے گزارش کی ہے کہ آئندہ ایسے میچز کی نشریات نہ دکھائے جائیں جو عوام کے لئے کو تفریح مہیا کرانے کے بجائے بیزار کرے۔

Shabir Rakhshani
About the Author: Shabir Rakhshani Read More Articles by Shabir Rakhshani: 20 Articles with 16667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.