حج:روحانی ،قومی،سیاسی عالمی بین الملی کانفرنس

حج محض ایک یاترانہیں، بلکہ عالم اسلام کے درمیان ثقافتی،سیاسی،معاشی،تجارتی،تعلیمی اور سائنسی روابط کاذریعہ ہے

موسم حج:مسلمانوں کے سیاسی وتنظیمی ادارہ کا سب سے بڑاعنصر

اسلامی سیاست کے تصور و نظریہ کو ختم کرنے والی سعودی حکمراں آج بڑے ہی کبرونخوت کے ساتھ کہتے ہیں کہ دنیاکے کونے کونے سے آئے ہوئے لاکھوں حجاج صرف حج کرکے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں۔اس کے علاوہ انھیں کسی بھی دوسرے موضوع پر گفتگوکرنے کی اجازت نہیں۔خواہ وہ اسلام کے لیے کتناہی اہم وضروری ہواور اس کی طرف توجہ دلانے کااندازکتنابھی معقول ومہذب اور سنجیدہ وتعمیری کیوں نہ ہو۔حکمرانوں کے اس قول سے ان کی سوچ وفکر کی غلامی اور دین سے دوری کا اندازہ لگانا اہل دانش کے لیے مشکل نہیں ہے۔ ہاں!اگر کوئی ایام حج میں فتنہ وفساد وشرانگیزی پھیلائے تو مناسک حج کی ادائیگی کے فوراًبعد اسے مقدس سرزمین سے باہر کردیاجاناچاہئے مگر عالم اسلام کے جملہ مسائل سے آنکھیں موند لیناکسی بھی طرح درست نہیں۔اس لیے کہ ایسا کرنا فلسفۂ حج سے انحراف کرنے کے مترادف ہے۔حج کو سیاسی وتنظیمی عنصرقراردیتے ہوئے علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب نقوش فکرصفحہ 184؍پر رقمطراز ہیں:’’یہ ایک ایسی عالمی بین الملی کانفرنس ہے جو بیک وقت روحانی بھی ہے اور قومی وسیاسی بھی۔یہ محض ایک ثواب کا کام اور یاترانہیں ہے بلکہ اقطار عالم کے تمام مسلمانوں کے درمیان ثقافتی،سیاسی،معاشی،تجارتی،تعلیمی اور سائنسی روابط کاذریعہ بھی ہے۔

خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبراسلامﷺنے ایک لاکھ سے زائد حجاج کرام کوجوتعلیمات دی ہیں اور جن امورومعاملات میں آپ نے ہدایات جاری کی ہیں،وہ سب کی سب اصطلاحی ارکان و مناسکِ حج کے علاوہ وہ مسائلِ حیات ہیں جن کا انسان کی عام زندگی سے تعلق ہے۔جو اس بات کی واضح وبین دلیل ہے کہ ایام حج میں ان سارے معاملاتِ زندگی کاذکرسنّت رسولﷺہے جو مسلمانان عالم کی زندگی اور ان کی صلاح وفلاح سے متعلق ہوں اور صالح نیت واسلامی تہذیب وشرافت کے ساتھ عالم اسلام کے دینی وعلمی اجتماعی وسیاسی وتجارتی وصنعتی امورپرغوروخوض اور ان کی دعوت وتبلیغ ،ارکان ومناسک حج کے عین مطابق ہے جس پر قدغن لگانے کا کسی فردوحکومت کوکوئی حق نہیں۔سہ روزہ دعوت دہلی کے حج نمبر شمارے میں ہے کہ حضورﷺنے ’’تقریباًایک لاکھ مجمع کو بیک وقت خطاب کیا اور سب نے سمعاًو طاعۃًکہا۔آپ کے بعد خلفائے راشدین اور دوسرے خلفاء زمانہ ،صحابۂ کرام وائمہ اعلام نے اسی طرح سال بہ سال جمع ہوکراحکام اسلام کی تیلقین وتبلیغ کی خدمت اداکی۔اسی کا نتیجہ تھاکہ نت نئے واقعات ومسائل کے متعلق دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے احکام وفتاویٰ پہنچتے رہے ۔(نقوش فکر)ایام حج کے سیاسی پہلوکواجاگر کرتے ہوئے مزیدلکھاکہ’’مسلمان ڈیڑھ سوبرس تک ایک نظم حکومت یاخلافت کے ماتحت رہے۔یہ حج کاموسم ان کے سیاسی وتنظیمی ادارہ کا سب سے بڑاعنصر رہا۔جس میں امور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوں کے حکام اور والی جمع ہوتے تھے اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریقِ عمل طے کرتے تھے اور مختلف ملکوں کی رعایاآکر اپنے والیوں اور حاکموں سے جوکچھ شکایتیں ہوتی تھیں ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھی اور انصاف پاتی تھی۔(نقوش فکر)اور فرماتے ہیں کہ حج کی مرکزیت ہی کا’’اثرتھاتھااور ہے کہ معمولی سے معمولی مسلمان بھی جو اپنے ملک سے باہر کی دنیادیکھ رہاہے۔زمانہ کے رنگ کوپہچاننے اور سیاست کی پیچیدگیوں کوسمجھنے لگتاہے۔بین الاقوامی معاملات میں دل چسپی لیتاہے اور دنیا کے ہر اس گوشہ کے حالات سے جس کے منارہ سے ’اﷲ اکبر‘ بلند ہواس کو خاص ذوق ہوتاہے اور اسی کا اثرہے کہ ہر مسلمان دنیائے اسلام اور اسلامی ملکوں کے حالات واقعات کے لیے بے چین نظرآتاہے۔(نقوش فکر)

مگر افسوس کا مقام ہے۔عالم اسلام کے روحانی مرکزکی برسراقتدار اور نام نہاد اسلامی حکومت اسلامی تعلیمات سے کوسوں دورہے۔اس حکومت کے پاس نت نئی عمارتیں بنانے کے لیے تو لاکھوں ریال ودینار تو موجود ہے مگر حبشہ میں بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں اور شامیانے کی تلاش کرتے ہوئے مسلمانوں کی امدادکے لیے ایک پائی نہیں ہے۔ان کے حکمرانوں کے منہ میں ایسی زبان ہے جو کسی زوپارک کے بند ہونے کی خبر پر بول پڑتی ہے مگرغزہ میں ایڑیارگڑتے ہوئے مسلمانوں کے حق میں گونگی ہوجاتی ہے۔اگر ہالی ووڈ میں عرب شہزادی کی آوارگی پر کوئی فلم بنے تو عرب یورپین ممالک سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیتاہے مگر ان ہی کے ملک کا کوئی باشندہ مزاررسول ﷺکو منہدم کرنے کامنصوبہ پیش کرکے اپنی فکری آوارگی کاثبوت پیش کرتاہے تو حکّام کے تمام اصول وضوابط پر من بھر وزنی تالے لگ جاتے ہے۔اس طرح کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے۔شایداپنے گھناؤنے اور کالے کرتوتوں کی پردہ پوشی کی خاطر ہی سعودی گورنمنٹ نے ایام حج میں عالمی مسائل سے آگاہی پر پابندی عائد کی ہو؟جو کہ اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔نام نہاد امام وقت بالکل آزاد اور نام نہاد اسلامی حکومت خاموش ہے۔نتیجتاًان کے جرموں کی سزادنیابھر کے مقتدیوں کودی جارہی ہے۔عقل ودیانت کایہ کون سا ضابطہ اور دین یادنیاکایہ کون سااصول ہے؟
یہ راز اہلِ سیاست ہمیں بھی سمجھائیں
امام جرم کرے مقتدی سزاپائیں
٭٭٭

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 671817 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More