رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -11

یثرب کے لوگوں کی دین اسلام سے واقفیت
جس وقت بنی ہاشم اور بنی مطلب شعب ابو طالب میں محصور تھے اس وقت یثرب سے ”اسعد ابن زرارہ اور ذکوان ابن عبدالقیس“ قبیلہ خزرج کا نمائندہ بن کر مکہ میں اپنے حلیف ”عقبہ ابن ربیعہ“ کے پاس آئے اور قبیلہ اوس سے جنگ کے سلسلے میں مدد چاہی۔

عقبہ نے مدد کرنے سے عذر ظاہر کیا اور کہا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان طویل فاصلہ ہونے کے علاوہ ہم یہاں ایسی مصیبت میں گرفتار ہیں کہ جس سے نجات پانے کے لئے ہمارا کوئی بس نہیں چل رہا ہے۔ اس نے ”نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم‘ و اور آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے واقعات قبیلہ ”خزرج“ کے نمائندگان کو بتائے اور تاکید سے کہا کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہرگز ملاقات نہ کریں کیونکہ وہ شخص ساحر و جادوگر ہے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو رام کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ”اسعد“ کو حکم دیا کہ جس وقت کعبہ کا طواف کرے تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لے تاکہ پیغمبر کی آواز اس کے کانوں میں نہ پہنچے۔

”اسعد“ طواف کعبہ کے ارادے سے ”مسجد الحرام“ میں داخل ہوا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ”حجر اسماعیل“ پر تشریف فرما ہیں۔ اس نے خود سے کہا کہ میں بھی کیسا نادان ہوں بھلا ایسی خبر مکہ میں گرم ہو اور میں اس سے بے خبر رہوں۔ میں بھی تو سنوں کہ یہ شخص کیا کہتا ہے تاکہ واپس اپنے وطن جا کر لوگوں کو اس کے بارے میں بتاؤں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سننے کی خاطر اس نے روئی اپنے کانوں سے نکال دی اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا اور ایمان لے آئے۔ ا س کے بعد ”ذکوان“ نے بھی دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا۔ (الصحیح من السیرة النبی ج۲، ص ۱۹۰، ۱۹۱)

اہل یثرب میں یہ پہلے دو افراد تھے جو ایمان لائے اور دین اسلام سے مشرف ہو کر واپس اپنی قوم میں پہنچے۔

دوسرے مرحلے پر اہل یثرب میں وہ 6 اشخاص جن کا تعلق ”خزرج‘ سے تھا۔ بعثت کے گیارہویں سال دوران حج پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سے مشرف ہوئے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دین اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کا شرف حاصل کر کے اور آپ کی زبان مبارک سے بیان حق سن کر ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ خدا کی قسم یہ وہی پیغمبر ہے جس کے ظہور کی خبر دے کر یہودی ہمیں خوف دلایا کرتے تھے۔ آؤ پہلے ہم ہی دین اسلام قبول کرلیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس کار خیر میں وہ ہم پر سبقت لے جائیں۔ یہ کہہ کر ان سب نے دین اسلام اختیار کرلیا۔ جب وہ واپس یثرب گئے تو انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو بتایا کہ انہوں نے کیسے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور انہیں بھی دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

تیسرے مرحلے پر اہل یثرب میں سے 12 اشخاص جن میں سے دس کا تعلق قبیلہ ”خزج“ سے تھا اور دوسرے کا قبیلہ ”اوس“ سے بعثت کے بارہویں سال ”عقبہ منا“ میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔ ان12 اشخاص میں سے جابر ابن عبداللہ کے علاوہ 5 افراد وہ تھے جو کہ ایک سال قبل بھی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرچکے تھے۔

ان اشخاص نے دین اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ”بیعت نساء“ کے طریقے پر بیعت کی اور عہد کیا کہ خدا کےساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ،چوری سے باز رہیں گے، زنا کے مرتکب نہ ہوں گے، اپنی لڑکیوں کے قتل کو ممنوع قرار دیں گے، ایک دوسرے پر الزام و بہتان نہ لگائیں گے نیز کار خیر میں رسول اللہ کا ہر حکم بجا لائیں گے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مصعب ابن عمیر کو ان کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں پہنچ کر وہ دین اسلام کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں، اس کے ساتھ ہی وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو شہر کی حالت کے بارے میں اطلاع دیں نیز یہ بتائیں کہ وہاں کے لوگ دین اسلام کو کس سطح پر قبول کر رہے ہیں۔ ”مصعب “پہلے مسلمان مہاجر تھے جنہیں یثرب پہنچنے اور روزانہ باجماعت نماز کا انتظام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

عقبہ میں دوسری مرتبہ بیعت
یثرب میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے کی موجودگی اور خزرجی اور اوسی قبائل کے افراد کی بے دریغ و سرگرمی اس امر کا باعث ہوئی کہ ان قبائل کے بہت سے لوگ دین اسلام کے والہ و شیفتہ ہوگئے۔ چنانچہ چوتھے مرحلے پر اور بعثت کے بارہویں سال تقریباً 500 عورتوں اور مردوں نے خود کو حج کے لئے آمادہ کیا۔ جن میں73 افراد مسلمان مرد اور2 مسلمان خواتین شامل تھیں۔ قبل اس کے کہ اہل یثرب سفر پر روانہ ہوں ”مصعب“ مکہ کی جانب روانہ ہوئے اور اپنے سفر کی پوری کیفیت پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ یثرب کے مسلمانوں نے مناسک حج انجام دینے کے بعد12 ذی الحجہ بوقت نصف شب عقبہ منا میں رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کیا۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس مرتبہ ملاقات کے دوران قرآن مجید کی چند آیات حاضرین کے سامنے تلاوت فرمائیں اور انہیں دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حاضرین سے فرمایا جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو اگر میری بھی حمایت کرو تو میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بات سے اتفاق کیا اور یہ عہد کیا کہ وہ آپ کی حمایت اور پاسبانی کریں گے۔ آخر میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان میں سے 12 افراد ”نقیب“ مقرر کیے گئے تاکہ وہ لوگ اپنی قوم کے حالات کی نگہبانی اور پاسداری کرسکیں۔

”خزرج“ اور ”اوس“ جیسے طاقتور قبائل کے ساتھ عہد و پیمان کرنے نیز دین اسلام کےلئے جدید اساس گاہ قائم ہو جانے کے باعث اب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے لئے جدید سازگار صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔

اس عہد و پیمان کے بعد پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ چاہیں تو یثرب کا سفر اختیار کرسکتے ہیں۔

اس ضمن میں آپ نے فرمایا”خداوند تعالیٰ نے تمہارے لیے بھائی پیدا کر دیئے ہیں۔ نیز تمہارے لیے گھروں کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد سے تم وہاں امن و امان سے رہو گے“۔رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت ملنے کے بعد مسلمان گروہ در گروہ یثرب جانے لگے اور اب پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود بھی حکم خداوندی کے منتظر تھے۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۱۱۱)

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔

نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراءباعث عزت و رہنمائی ہوگی۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 110767 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More