استاد کی عظمت

حکمرانوں سے کہیں زیادہ اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے پیشے کے ساتھ اخلاص ترقی کاباعث ہے ۔ذخیرہ معلومات کوبڑھانے اور احیاء(update) کے لیے مسلسل جدیدقدروں اورمعاشرتی تقاضوں سے آگاہی کے لیےلائبریوں، کانفرنسز اورسیمینارزمیں شرکت کرے ۔استادکے مطالعےکے شوق کابراہِ راست اثرطلباء پرپڑتاہے ۔کمرہ جماعت میں جانے قبل سبقی خاکے کی تیاری (lesson planning)، اورکمرہ جماعت میں جمہوری رویہ ،مساوات اوراختلافِ رائے کی صورت میں وسیع النظری،یہ وہ عوامل ہیں جن کی بدولت طلباء اساتذہ کے گرویدہ بنتے ہیں ۔ ہمیں یہ یادرکھنا ہوگا کہ عدم ِ مساوات ، غیرمنصفانہ سلوک اورجارحانہ رویہ ہمارے پیشہ ورانہ مقام کومجروح کرتے ہیں ۔آج یومِ اساتذہ کے دن ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے پیشے کے ساتھ مخلص رہیں گے دائیں بائیں کے حالات سے متاثرنہیں ہوں گے ۔ساری ذمہ داری حکومت کے کندھے پرڈال کہ بری الذمہ بھی نہیں ہوسکتے۔
( 5 اکتوبر یومِ اساتذہ کے حوالے سے ایک تحریر)

قوموں کی ترقی میں اُستادکاکردارانتہائی اہم ہوتاہے ماں جنم دیتی ہے استادجیون دیتاہے ۔ فلسفی جون آدم کاکہناہے: معلم آدم کی تخلیق کرتا ہے ۔کسی بھی مہذب معاشرے میں استادکی اہمیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔اُستاداپنی خدادادقدرتی صلاحیتوں کے ذریعے تدریس میں جان ڈال کر دلچسپ بناتاہے وہ بچے کی ذہنی استعداداوردلچسپیوں کوملحوظِ نظررکھتے ہوئے مختلف تدریسی مہارتوں کوبروئے کارلاتاہے اوراس کاتعلق کتاب اوردرس گاہ سے جوڑتاہے معلم کے بغیر نصاب ایک بے جان اورجامد شئی ہے۔

تدریس صرف پیشہ نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے سب سے پہلے معلم خوداللہ پاک ہیں : وعلم اٰدم الاسماء کلھااللہ رب العزت نے خودتمام اشیاء کے نام حضرت آدم کوسکھلائے اس اعتبارسے سب سے پہلے طالب علم حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ۔ آپ ﷺ کاارشاد ہے : انمابعثت معلماًمیں معلم بناکر بھیجاگیاہوں ۔یہ پیغمبری پیشہ ہے اس لیے استادکے ضروری ہے کہ اپنے اوپرعائدذمہ داریوں کابھی لحاظ رکھے ۔معاشرتی قدروں سے آگاہی ، معاشرے اورانجمنوں ،تعلیمی، ادبی اورمتعلقہ کانفرنسزوسیمنارزمیں شرکت اوراپنی معلومات میں روزبروزاضافہ ایک استادکو کامیابی وکامرانی سے ہم کنارکرنے میں نمایاں کرداراداکرتا ہے ۔اس میں ہرگزدورائے نہیں کہ معاشرے سے جہالت کے خاتمے میں استادکابنیادی کردارہوتاہے ۔شرح خواندگی میں اضافے کے لیے بنیادی تعاون استادہی فراہم کرسکتاہے۔اربابِ اختیاراساتذہ کوکامل یکسوئی کے مواقع فراہم کرے توکوئی وجہ نہیں ہماراملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بہت جلداپنامقام حاصل کرلے ۔آگےمطالعے سے قبل شرح خواندگی کاکچھ جائزہ لیاجاتاہے :

شرح خواندگی :
ملک میں خواندگی کی شرح کے بارے میں اول روزسے متضاددعوے کیے جاتے رہے ہیں ۔گوگل پردستیاب یونیسیکو کے 14-2013 کے تعلیمی جائزے کے مطابق گذشتہ سالوں کی بنسبت خواندگی میں تین سے چار فی صد اضافہ ہواہے۔ جائزے کے مطابق خواندگی کی شرح 60 فی صدہے جو گذشتہ چارسالوں سے کچھ زیادہ ہے ۔ مختلف شہروں کی شرح کاجائزہ لیاجائے توواہ کینٹ (ٹیکسلا) نوے فی صد شرح کے ساتھ پہلے اسلام آبادستاسی کے ساتھ دوسرے جبکہ چوراسی فیصد شرح خواندگی کے ساتھ لاہور کا تیسرا نمبر ہے۔ سب سے کم شرح بلوچستان کے ضلع کوہلومیں اڑتیس فی صد ہے ۔ اس جائزےکادوسراپہلویہ ہے کہ پانچ سے نو سال کے 67 لاکھ بچے ابھی بھی اسکول نہیں جاتے ۔ پرائمری پاس کرنے والے 75 فی صد بچے جامعات تک پہنچنے سے پہلے تعلیم کوخیربادکہہ دیتے ہیں ۔ رپورٹ میں مزیدکہاگیاہے کہ سب سے زیادہ 72 فی صدناخواندہ افراد کاتعلق 15 سے 24 برس کےعمرکے درمیان ہے ۔ اس اعتبارسے بنگلہ دیش ہم سے آگے ہیں جہاں نوجوانوں میں تعلیم کارُجحان پاکستان سے زیادہ ہے ۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ایک ایساملک جس میں نوجوانوں کی اکثریت ہو ملک اورملک سے باہرحصول ِ روزگارکے مسائل کی وجہ سے تعلیم سے دور ہے اس کی طرف ہنگامی بنیادوں پرتوجہ کی ضرورت ہے ۔عالمی خواندگی کے اعتبارسے اگرتجزیہ کیاجائے توپاکستان کانمبر180واں ہیں ۔سب سے زیادہ خواندگی کی شرح یورپی ممالک میں ہے جہاں کم ازکم 90اورزیادہ سے زیادہ 100 فی صد شرح ہے ۔پڑوسی ملک بھارت میں 74 ، سری لنکا اور چائنامیں 95 فی صد ہے ۔ ایشیاکے صرف دوملکوں بھوٹان اوربنگلہ دیش سے خواندگی میں ہم آگے ہیں ۔

پاکستان اپنے جی ڈی پی کاصرف دوفی صدحصہ سالانہ میزانیے میں تعلیم کے منصوبوں پرخرچ کے لیے تجویزکرتاہےاختتام ِ میزانیے پہ منصوبوں کے اکثرحصوں پرعمل بھی نہیں ہوپاتا۔18 ویں ترمیم میں تعلیم کوصوبوں کے حوالے کرنے کے بعداس پرتوجہ اورکم ہوگئی ہے اس " غیرنفع بخش" وزارت کولینے کے لیے کوئی صوبائی رُکنِ اسمبلی اول توتیارہی نہیں ہوتااگرہوجائے توکسی اوروزارت کے ضمن میں اس کی حامی بھری جاتی ہے ۔ سندھ صوبے میں گذشتہ تین سالوں سے اختیارات کی جنگ کی وجہ سے تعلیم کاشعبہ مزیدتنزلی کی طرف جارہاہے ۔ فیصلے متعلقہ وزیرکے بجائے اعلیٰ شخصیت کےعزیزجوکہ انتظامی شعبے میں ہیں کے ہاتھ میں ہیں ۔اپریل 2011 کے نوٹیفیکشن کے مطابق کراچی کے علاوہ پورے دیہی سندھ مںم ٹیچنگ الاؤنس دیاجارہاہے لیکن کراچی کے اساتذہ اس سے محروم ہیں ۔2012 میں سندھی اورعربی اساتذہ کی اسامیوں کے لیے کراچی سمیت دیہی سندھ کے کچھ ضلعوں میں ٹیسٹ اورانٹرویوز ہوئے ، مکمل محکمانہ کاروائی ہوئی آفراوراپائمنٹ لیٹرزدیے گئے ۔ حیرت انگیز امریہ ہے کہ دیہی سندھ میں توتنخواہیں جاری کردی گئیں ہیں لیکن کراچی کہ یہ اساتذہ تاحال تنخواہوں سے محروم اورعدالتوں کے چکرکاٹ رہے ہیں ۔محکمے کی طرف سے عدالت میں کہاگیاہے کہ یہ تقرریاں خلاف ِ ضابطہ اورقواعدکے برخلاف کی گئیں ہیں ۔1000 اسامیوں پر 9000 بھرتیاں ہوئی ہیں ۔اکثرکے ڈومیسائل آفرلیٹرکے بعدکے ہیں اورپیشہ ورانہ ڈگریوں میں بھی سقم ہے ۔یہ بات اگردرست بھی تسلیم کرلی جائے تویہ جانچ پڑتال تو اپائمنٹ لیٹرسے قبل کی جانی چاہیے تھی اگرسیاسی بنیادوں پہ نہیں کی گئی توجن کے ڈاکومنٹ اورڈومیسائل تصدیق شدہ ہیں ان کو تنخواہیں جاری کرنے میں کیاحرج ہیں ؟ صوبائی سروس ٹریبونل بورڈ نے 15 شرائط کے ساتھ اپنے فیصلے میں ان اساتذہ کوتنخواہیں جاری کرنے کے احکامات دیے ہیں اورسندھ ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقراررکھاہے ۔محکمہ تعلیم سندھ اس پرعمل درآمدسے معلوم نہیں کیوں کترارہاہے ؟ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ اساتذہ اپنے حقوق کے لیے اگر سڑکوں پرنکلیں گے توتعلیمی عمل کیسے جاری رہ پائے گا ؟

ہماری ذمہ داریاں:
آئینِ پاکستان کی شق اے 25 کے مطابق: ریاست 5 سے 16 سال کی عمرکے بچوں کومفت اورلازمی معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پابندہے ۔ایک طرف حکم رانوں کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذکرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پراس کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔سرکاری اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں , فرنیچرکی کمی ہے ، 80 فی صداسکولزمیں بنیادی ضرورت بیت الخلااورپانی کاانتظام نہیں۔ اس کاانتظام کرنااہل ِاقتدارکی اولین ذمہ داری ہے ۔تدریسی اورمعاون تدریسی عملے کی کمی پوراکیے بغیربھی خاطرخوا ہ فوائدحاصل نہیں کیے جاسکتے ۔ جس طرح گذشتہ دوڈھائی سالوں سےوفاقی اورصوبائی حکومتوں کی پوری توجہ آپریشن ضرب ِ عضب کی طرف ہے اگراس کی آدھی توجہ بھی اسکولوں کی طرف ہو توکوئی وجہ نہیں کہ شرح خواندگی 80 سے 90 فی صد تک پہنچ جائے ۔ اساتذہ کی بنیادی ضرورتوں کی طرف بھی کچھ خیال کرلیاجائے تویہ اساتذہ کامل یکسوئی کے ساتھ تعلیمی عمل جاری رکھ سکیں گے ۔صرف محکمہ تعلیم ہی تھاجواساتذہ کومزیدتعلیم جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کیاکرتاتھااورپیشہ ورانہ کورسزکے حصول پراعزازیے (increment) سے نوازتاتھاشوکت عزیزصاحب کے دورسے اس کابھی خاتمہ کردیاگیاہے ۔اربابِ اختیارکواس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

دوسری طرف حکمرانوں سے کہیں زیادہ اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے پیشے کے ساتھ اخلاص ترقی کاباعث ہے ۔ذخیرہ معلومات کوبڑھانے اور احیاء(update) کے لیے مسلسل جدیدقدروں اورمعاشرتی تقاضوں سے آگاہی کے لیےلائبریوں، کانفرنسز اورسیمینارزمیں شرکت کرے ۔استادکے مطالعےکے شوق کابراہِ راست اثرطلباء پرپڑتاہے ۔کمرہ جماعت میں جانے قبل سبقی خاکے کی تیاری (lesson planning)، اورکمرہ جماعت میں جمہوری رویہ ،مساوات اوراختلافِ رائے کی صورت میں وسیع النظری،یہ وہ عوامل ہیں جن کی بدولت طلباء اساتذہ کے گرویدہ بنتے ہیں ۔ ہمیں یہ یادرکھناہوگاکہ عدم ِ مساوات ، غیرمنصفانہ سلوک اورجارحانہ رویہ ہمارے پیشہ ورانہ مقام کومجروح کرتے ہیں ۔آج یومِ اساتذہ کے دن ہمیں عہدکرناہوگاکہ ہم اپنے پیشے کے ساتھ مخلص رہیں گے دائیں بائیں کے حالات سے متاثرنہیں ہوں گے ۔ساری ذمہ داری حکومت کے کندھے پرڈال کہ بری الذمہ بھی نہیں ہوسکتے۔

مجوزہ عنوانات :سلام اُستاد،عظمت ِ اُستاد،پیشہ پیغمبری ؐ ، تدریس جذبے کانام ہے ،
Muhammad imran
About the Author: Muhammad imran Read More Articles by Muhammad imran: 2 Articles with 5523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.