8 اکتوبر 2005 سے 8 اکتوبر2010 کی داستان غم

 نیو بالاکوٹ سٹی کی تعمیر کا خواب پورا نہ ہو سکا

یہ زلزلہ نہ تھا بلکہ ایک قیامت تھی جو آئی اور گزر گئی مگر اپنے پیچھے ملبے کے ڈھیروں تلے سسکتی آہ و فغاں کرتی سینکڑوں داستانیں چھوڑ گئی۔ قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ رب کائنات کے کرم اور آزمائش کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ بالاکوٹ خوبصورت شہر تھا نہ رہا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے مزاروں کی برکت سے اس شہر کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے مگر زلزلہ کے بعد بالاکوٹ بالاکوٹ نہ رہا۔ گھروں کے گھر اجڑ ے۔ سکول جانے والے بچے زندہ واپس نہ آ ئے۔ اگر نام لکھوں تو شاید صفحات کم پڑ جائیں۔ ایک نسل ختم ہو گئی۔ آفت کی اس گھڑی کو دس سال گزر گئے۔ 8 اکتوبر 2005 کی صبح اور رحمت کے پہلے عشرے نے لاکھوں زندگیوں کو اندھیرے میں دھکیل دیا تھا ایک قیامت تھی جو گزر گئی مگر جو قیامتیں اس کے بعد ڈھائی جا رہی ہیں ان کو الفاظ کا لباس پہنانے میں وقت لگے گا،سسکتی زندگی اور بے بسی کی بولتی تصویریں آج بھی نوحہ کناں ہیں اگرچہ بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی مگر میرے شہر کے لوگوں میں اضطراب تھا نہ ہے ، میرے شہر کے باسی صبر جمیل کی چادر اوڑھے سردی،گرمی کے سخت موسم میں اسی بالاکوٹ میں اپنے پیاروں کی قبروں کے آس پاس زندگی گزار رہے ہیں۔ موت کی وادی کے یہ باسی پررونق اور خوشحال زندگی کے متمنی تھے کوئی ہے جو پوچھے ان سے جن کے جگر گوشے بچھڑ گئے‘ ٹوٹ پڑی ہیں قیامتیں کیا کیا‘ کیا صورتیں تھیں جو خاک میں دب گئیں ۔ جن کی دنیا کھو گئی۔ کچھ راستہ بھول گئے اور بھٹک رہے ہیں اس نگر اس نگر اس آس پر کہ وادی کاغان کا دروازہ بالاکوٹ شاید کبھی نہ کبھی سیاسی چالوں ، انتقامی حربوں اور سازشوں کے چنگل سے باہر نکل ہی آئے گا ۔ترقی اور خوشحالی کے لیے تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔۔اپنون کا حق مارنے والوں کی بھیانک مثالیں گزرے سالوں میں سامنے آچکی ہیں،کھوکھلے نعرے ، جھوٹے وعدے اور ایرا،پیرا کی تعمیر نو کی داستانیں سن سن کے کان پک گئے مگر نیو سٹی کا خواب پورا نہ ہوسکا ۔متاثرین کے لیے آئی بیرونی امداد سے کئی پیٹ موٹے ہوئے ،متعدد گردنوں میں سریا آیا،لگژری گاڑیاں خریدی گئیں اور اجلاس پر اجلاس کر کے پیسہ دھول کی طرح اڑا دیا گیا ۔۔۔زلزلہ سے متاثرہ آج بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں 8 اکتوبر 2005 کو تھا۔پیپلز پارٹی کے دور کے صوبائی وزیر نے کیوائی سے اوپر کی رسم سادات قائم رکھی اور متاثرین کی دلجوئی انتقامی کارروائیوں سے کرتے رہے،نیوسٹی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ،وقت گزر گیا آج وہ اپنا بویا کاٹ رہے ہیں ۔وقت پھر بھی رکا نہیں ،اہل علاقہ کی سوچ بدل رہی ہے،نظریات فروغ پا رہے ہیں ،احتجاج کی رمک بھی باقی ہے ،پارلیمنٹ کے سامنے ہونے والا احتجاج آج بھی ارباب بست و کشاد بھولے نہیں۔۔۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جنہیں امانت اور اختیار دیتے ہیں انہیں بھولنے کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے ،نیو سٹی بالاکوٹ کامقدمہ سپریم کورٹ لے جانے کا ڈ ھنڈورا پیٹنے والا امریکی شہری اعظم سواتی بھی پہاڑوں میں جا چھپا ہے ۔۔تحریک انصاف کی حکومت کو اللے تللوں سے فرصت نہیں اور بالاکوٹ سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی میاں ضیاالرحمان گھنیلا شریف کے سجادہ نشین ہیں انہیں اس مسئلے سے کیا غرض ۔۔۔وہ خود درویشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔۔اگر کچھ اور لکھا جائے تو بے ادبی تصور ہو گی۔۔شیر کے نشان کے پر عوامی مینڈیٹ پامال کرنے والے بھی متاثرین کی بے بسی کا خوب تماشہ لگائے ہوئے ہیں۔۔۔پہاڑوں والوں نے متاثرین کا مال اسباب بھی لوٹااور اب اقتدار پر براجمان سرداروں کے بغل بچے بھی بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ برادری ازم اور اقربا پروری نے مرکزی شہر بالاکوٹ کو لاوارث بنا دیا ہے ۔۔۔متاثرین زلزلہ کہاں جائیں،کس سے دکھ بیان کریں ۔۔کس عدالت کے دروازہ پر دستک دیں۔۔ ان کے لیے تو سوموٹو بھی نہیں۔۔کہا جاتاہے کہ قدرتی آفتتھی کیا کیا جائے۔۔۔ وفاقی وزیر حج ومذہبی امور سردار محمد یوسف،ایم این اے کیپٹن صفدر الیکشن سے پہلے اپنے اخباری بیانات اور جلسہ عام میں کیے گئے اعلانات کا ری پلے دیکھیں تو انہیں بے بس ومجبور زلزلہ متاثرین کے حال پر رحم آجائے،لمحہ فکریہ دیکھیں زلزلہ نے چھت چھین لی،ارباب اختیار نے تعمیرنو پر پابندی لگادی،زاتی اراضی کے مالک ریڈ زون کے مکین بنادیے گئے،تاریخی شہر کی حیثیت ،ہیت بدلنے کی کوششیں ہوئیں۔۔۔ لیکن قدرت مہرباں رہی،عدالتیں بھی قائم ہیں اور دیگر دفاتر بھی۔۔اپنی مدد آپ کے تحت شہر بس چکا ہے،رونقیں وہ نہ سہی مگر غیرت مندی آج بھی پہلے سے بڑھ کر ہے۔ سالوں گزرگئے سعودی شیلٹروں میں محبوس لوگ سرخ لکیر پیٹ رہے ہیں۔۔۔ مجال ہے کسی کے کان پر جوں رینگے۔آج بھی بالاکوٹ کے باسی وزیر اعظم نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ سالوں سے روا رکھی جانے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہو سکے۔ شاید متاثرین زلزلہ کو ان کا حق مل جائے۔۔سکول تعمیر ہوں۔۔ہسپتال بنیں۔۔رابطہ سڑکوں کی بحالی و تعمیر نو ہو۔۔پینے کا پانی گھر گھر بہم میسر ہو۔۔ امید تو کی جا سکتی ہے کیوں کہ ناامیدی گناہ ہے ۔ یہ زلزلہ نہ تھا بلکہ ایک قیامت تھی جو آئی اور گزر گئی مگر اپنے پیچھے ملبے کے ڈھیروں تلے سسکتی آہ و فغاں کرتی سینکڑوں داستانیں چھوڑ گئی ہے جس کے زمہ داران آج بھی سیاست کے مزے لوٹ رہے ہیں۔تحصیل حکومت اس دیرینہ مسئلے کے پائیدار حل کے لئے لائحہ عمل طے کرے ۔۔انصاف یہ نہیں کہ ایک بستی اجاڑ کر دوسری بسائی جائے۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بالا کوٹ کے باسیوں کو مذیدنئے شہر کا لولی پاپ دینے کی بجائے ان کی موجودہ وقت کی مناسبت سے مالی امداد کر دی جائے تا کہ وہ اس دوہرے عذاب سے نجات پا سکیں۔۔متاثرین زلزلہ کو نئے شہر میں بسانے والوں کے لئے عرض ہے کہ۔۔
تیرے شہر کی چکا چوند سے بڑھ کر ہیں مجھے
چند جگنو جو چمکتے ہیں یہاں گاوں میں
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 62860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.