ہس بینڈ کی آنکھ مچولیاں

میں تو اپنے ہس بینڈ کی آنکھ مچولیوں سے تنگ آگئی ہوں

بیوی غصے میں چیخی کہ یہ کیوں اور کیا !

ہمیشہ سے بیویوں کو شکایت رہی ہے کہ اُنکے خاوند چاہے کتنے ہی اُن سے محبت کے دعوے کرتے رہیں جونہی کسی دوسری خاتون پر نظر پڑتی ہے ہمیں بھول جاتے ہیں۔چاہے وہ اپنے دوست و احباب میں کتنے ہی شریف ہوں لیکن اپنے اُنہی دوستوں میں سے کسی ایک سے تبادلہِ خیال کر کے بعض خاوند کسی دوسری ؂خاتون کا خیال رکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔گو کہ خاوند اپنی صفائی میں اسکو دفتری و کاروباری تعلقات سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے لیکن یہ وباء شہروں میں ہی نہیں قصبوں و دیہاتوں تک پھیلی ہو ئی ہوتی ہے اور اُنہی میں سے ایک قصبے کا آصف نامی شخص بھی اس گرداب میں پھنس گیا تھا۔

آصف ملازمت تو ایک بڑے شہر کے ادارے میں کرتا تھا لیکن اُسکے بیوی بچے آبائی قصبے میں رہتے تھے۔بیوی ایک سرکاری سکول کی ٹیچر تھی لہذا وہاں قریب کے بچے شام کو اُسکے پاس پڑھنے کیلئے آجاتے ۔جسکی وجہ سے اُنکے گھرانے کی وہاں بہت عزت تھی اور بچوں کے والدین اُنکے گھر کا خصوصی خیال رکھتے ۔ کچھ سودا سلف لا دیتے اور کچھ کی مائیں اُنکے گھر کا کام کر جاتیں۔اُنہی میں سے ایک جوان خاتون جسکے دو بچے بھی وہاں پڑھتے تھے ٹیچر گھر پر نہ بھی ہوتی تووہ وہاں آکر ٹیچر کے آنے سے پہلے ہانڈی روٹی کر جاتی ۔

قصبہ شہر سے چند میل کے فاصلے پر تھا لہذا آصف ہفتے والے دن دفتر سے چُھٹی کر کے اپنے قصبے آجاتا اور اتوار کی چُھٹی گزار کر اگلے روز صبح سویرے اپنی ملازمت پر پہنچ جاتا تھا۔لیکن ایک روز طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے جب اگلے روز وہ اپنے گھر پر ہی آرام کر رہا تھا تو وہی جوان خاتون گھر میں کام کاج کیلئے آگئی۔وہ تو کام کاج کر کے واپس چلی گئی لیکن آصف کی شرافت کو ایک ایسا دھکا دے گئی کہ اب وہ اس کوشش میں رہنے لگا کہ اُس خاتون کا جتنا بھی خیال رکھا جائے وہ کم ہی ہو گا۔

بس پھر جب بھی وہ گھر آتا اپنی بیوی سے چُھپا کر اُس خاتون کیلئے کچھ نہ کچھ لیکر آتا۔ بلکہ وہاں پر رہتا تو اُسکے لیئے خصوصی طور پر گڑروی میں دُودھ لیکر رکھ چھوڑتا ۔جب وہ آتی تو وہ بڑے خلوص سے اُسکو پیش کرتا ۔ایک دن وہ دونوں" دُودھ پتی" بنا کر پی رہے تھے کہ اچانک اُسکی بیوی اپنی تین ٹیچر سہیلیوں کے ساتھ وہاں اُس وقت پہنچ گئی جس وقت آصف کو تواقع بھی نہ تھی۔یہ تو ٹیچر کی سمجھ بُوجھ تھی کہ اُس نے اپنے خاوند کی حرکت پر پردہ ڈالتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ ادا کیئے کہ معاملہ خفیہ ہی رہ گیا اور سہیلیوں کو ذرا بھی شک نہ ہوا۔لیکن ٹیچرنے اپنے خاوند کی یہ حرکت دل پر لگا لی اور بعدازاں تلخ کلامی کے دوران صاف کہہ دیا کہ آئندہ آپکی عزت آپ کے ہاتھ میں ہو گی۔

آصف نے اُس دن کی شرمندگی کا ذکر اپنے سب سے قریبی دوست سے کیاتو اُس دوست نے کہا کہ تجھے شرم کرنی چاہئیے۔لیکن پھر ایک دن جب اُس ہی دوست نے مربوں سے بھرا میٹھا زردہ پکا وا کر اُسکو اپنے گھر کیلئے دیا تو مذاق میں اُس کو یہ بھی کہہ دیا کہ اس میں "اُس" کا حصہ بھی ہے تو وہ بھولا اُسکو حقیقت سمجھ بیٹھا اور گھر پہنچتے ہی اپنی بیوی سے نظر بچا کر کچھ حصہ الگ کر لیا اور "مربے" کی خاصی مقدار بھی اُسکے لیئے رکھ لی۔ساتھ میں اُسکو دینے کیلئے پھول پتیاں بھی رکھ دیں۔

آصف کی بدقسمتی کہ اُس خاتون کے آنے سے پہلے ہی اُسکی بیوی ملازمت سے واپس آگئی اور پھر جب کچھ دیر بعد اُس نے برتنوں والی الماری کھولی تو اُس میں ایک کپڑے کے نیچے زردہ اور پھول پتیاں پڑی تھیں۔وہ سمجھ گئی اور جب غصے میں چیخی کہ یہ کیوں اور کیا !ہاں بتاؤ کس کیلئے یہ سب کچھ ؟آصف نے گھبرا کر سب کچھ بتا دیا اور الگ رکھنے کی اہم وجہ دوست کی خواہش ظاہر کی۔

ٹیچر صاحبہ چونکہ دوست کے گھر والوں سے واقف تھی لہذا آصف سے موبائل نمبر لیکر دوست کی بیوی سے براہِ راست بات کرتے ہوئے کہا کہ آپکی طرف سے جو زردہ آیا ہے آصف کہتے ہیں کہ آپکے خاوند نے کہا تھا کہ اُس میں اُس خاتون کا بھی حصہ جو ہمارے گھر کام کرتی ہے۔اس پر دوست کی بیوی نے کہا کہ میرے خاوند کو تو اپنی گھر کی ملازمہ کا معلوم نہیں تو آپ لوگوں کی ملازمہ سے کیا لینا دینا ۔
اس پر ٹیچر صاحبہ جذباتی انداز میں بولیں ! باجی جی !
"میں تو اپنے ہس بینڈ کی آنکھ مچولیوں سے تنگ آگئی ہوں دیکھنے میں شریف اور سادہ طبعیت کے اور ملازمہ کیلئے کبھی دودھ پتی ، کبھی پھول پتی اور اب رہ گئی اگر بتی جو معلوم نہیں کس پر پہلے جلے گی"۔
ؔ ؔ کرگئی وہ جاتے جاتے بھی کچھ ایسا اثر
کہ شرمندگی کی انتہاء بھی دکھاوا بن گئی

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 308329 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More