متاع زندگی

میری جان ہے تو
مسکان بھی تو
تومیری دعاؤں کا ہے ثمر
میرے لخت جگر
میرے لخت جگر
یہی وہ الفاظ ہیں جوتمام والدین کے دل کی آوازہیں۔صاحب اولاد ہونے کیلئے انہیں منتیں مرادیں مانگنی پڑھتی ہیں تب کہیں آنگن میں پھول کھلتے ہیں والدین اپنی معاشی حیثیت کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اپنے بچے کی ضرورتوں اور خوشیوں کی خاطر سردھڑ کی بازی لگادیتے ہیں ۔انکی سوچوں کامحور فقط انکی اولاد ہوتی ہے جسکے لیے وہ تمام تانے بانے بنتے ہیں ۔کھلانے پلانے کے علاوہ وہ بچے کو سوسائٹی میں نمایاں رکھنے کیلئے وہ سہولیات بھی کم عمری میں ہی فراہم کردیتے ہیں جوبجائے فائدے کے تباہی بنتی ہیں۔اس دور کی جدید اور ستی ترین سہولت جوکہ ہرطبقہ اور حیثیت کے والدین افورڈ (afford)کررہے ہیں ۔سستے موبائل اور بذریعہ کیبلزقابل مذمت چینلز کی بھرمار ہے۔خودتووہ روپیہ کمانے کیلئے کولہوکا بیل بنے جارہے ہیں۔اس سے بے خبر کہ موت کے سائے انکے بچوں پرپنجے گاڑھے جارہے ہیں۔یہ سستے فون پیکجز ایس ایم ایس کی بھرمار اورwhatsapp نے بڑی پلاننگ سے نسل نو کوگمراہ کردیاہے نادکھائی دینے والا زہر انکی رگوں میں گردش کرنے لگا ہے۔ہردوسرے گھرسے زردرنگت والے عمررسیدہ بچے نکلتے دکھائی دیتے ہیں گھروں میں چھپ کروالدین سے نظربچابچاکے نئی نسل ایسے ایسے کارنامے سرانجام دے رہی ہے کہ خدا کی پناہ الیکٹرانک سہولیات 90فیصد بے راہ روی کی جانب محوسفرہیں۔بڑی دلربائی سے زندگیوں کوتباہ کررہی ہیں والدین کے وارثوں کولقمہ اجل بنارہی ہیں۔اسکی مثالیں اب تو سوسائٹی میں دکھائی دیناشروع ہوگئی ہیں کہیں عشق میں خودکشی کی جارہی ہے کہیں موبائل فرنیڈکے ہاتھوں بچیاں بلیک میل ہورہی ہیں۔کہیں ناپختہ ذہنوں کو بہلاپھسلاکراورپھر وہ کہیں گندگی کے ڈھیریانالے میں بہتی لاشوں کی صورت اختیارکی ہوئی پائی جاتی ہیں۔کہیں شوبزکاجھانسہ دے کرعزت وناموس کوداغدار ہوتی اور ماں باپ کوزندہ درگورکرتی مثالیں عام ہوتی جارہی ہیں۔گراف بڑھتاہی جارہاہے منہ زور سیلاب اپنی وسعت میں اضافہ ہی کرتاجارہا ہے ۔کارٹونز کے ذریعے لغویات کو کھیل ہی کھیل میں بچوں کو ٹریپ کیا جارہاہے۔اس بے راہ روی نے تورشتوں میں بھی حلال و حرام کومکس کرکے ایک قیامت برپاکررکھی ہے۔کیا کبھی کسی نےcomparisonکیاکہ ماضی قریب میں ایسی بے قائدگیاں کیوں نہیں تھیں ؟زمانہ رفتہ میں زندگیاں سادہ تھیں معصوم سوچیں تھیں،والدین کے پاس بچوں کیلئے وقت تھا،فرینڈلی ماحول میں قصے کہانیوں کے ذریعے اخلاقی تربیت بھی کرتے رہتے تھے اب تومعاشی دوڑنے سب کوایسا خودغرض بنارکھاہے کہ اخلاقیات کوبھی پس پشت کرتے ہوئے اندھا دھند دوڑتے ہوئے مذہبی اقدارکوبھی روندتے جارہے ہیں یہی وہ main pointہے جس نے انسان اورحیوان کی تمیزکوختم کردہاہے یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے کہ اگراسے ignoreکردیاگیا تو انسانیت خوداپنے آپ سے شرم محسوس کرے گی۔اس تباہی سے بچنے کیلئے ناصرف والدین کو اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کوبھی اپنامثبت کرداراداکرناہوگاکیونکہ بچے اپنازیادہ وقت سکول میں گزارتے ہیں اور اساتذہ کی باتوں کووالدین پرترجیح دیتے ہیں ۔اسکے لیے انھیں اپنے اداروں میں کریکٹربلڈنگ انجمن بنانی چاہئے ۔جہاں سے ہفتہ وارکلاسزمیں moral valuesپرمقابلہ جات کاانعقاد کیاجائے اور تمام اساتذہ اکرام ڈیلی بیسزپربچوں کواخلاقیات کادرس دیں یہی سوچ کرکہ شاید ایک مزدورکے پاس اتناٹائم نہیں کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ کردارسازی پربات چیت کرسکے۔یہ کام صدقہ جاریہ سمجھ کرکرنا ہوگاتبھی ایک باکردارمضبوط ، توانا اور خوداعتماد نسل کوپروان چڑھایاجاسکتاہے۔قوم کے بچے ہمارے بچے ہیں آج ہم قوم کے بچوں کوسنواریں گے تو خدا عرشوں سے ہمارے درجات بلند کرے گا(انشاء اﷲ)
میری قوم کی پیاری نسل نو
تجھے میری دعائیں لگ جائیں
تومیرے وطن کی عزت ہے
تجھ ہی سے انی عظمت ہے
تووارسہے تان سینہ اپنا
تیرے قدموں میں دشمن جھک جائیں
میری قوم کی پیاری نسل نو
تجھے میری دعائیں لگ جائیں

Alina Malik Sher
About the Author: Alina Malik Sher Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.