کابل: امریکی فرارکیلئے تھوڑاانتظار!

تاریخ کی عدالت اب فیصلہ ہی دے گی
کیاامریکی جارحیت کے مقابلے میں جہادکاراستہ اپناکرطالبان نے غلطی کی؟کیایہ اسلام کاتقاضہ نہیں بلکہ ایک جذبا تی فیصلہ تھا؟ کیااس تصادم کوامریکا کے ناجائز مطالبات مانے بغیرٹالاجاسکتا تھا؟کیاباہمی طاقت کافرق دیکھ کرطا لبان حکومت کوبھی دوسرے اسلا می ملکوں کی طرح اپنی خودمختاری سے خودہی دستبردار ہوجاناچاہئے تھا ؟کیاجب تک فتح کایقین نہ ہواس وقت تک جہادکو موقوف کردیناچاہئے؟ کیا امریکا اورطالبان کی جنگ واقعی کفر اوراسلام کی جنگ ہے؟اگریہ سچ مچ جہادہے تواللہ کی نصرت اب تک کیوں نہیں آئی؟........ایسے متعددسوالات ان دنوں بہت سے ذہنوں میں اور زبانوں پرزدعام ہیں اورانہی سوالات کے جوابات کیلئے ایک ایسے پروگرام کا اہتمام کیاگیاتھا جس میں بلامبالغہ دوہزار سےکہیں زیادہ افراد(جن میں اکثریت یونیورسٹی کے طلباءاورطالبات کی تھی)نے شرکت کی۔ مجھے بھی ان سوالات کے کٹہرے میں سے گزرناپڑاجن پرآج بڑی سنجیدگی سے ہماری نوجوان نسل نہ صرف خودبلکہ ہمیں بھی تدبراورغوروفکرکی دعوت دے رہی ہے!

مغربی زعماء ایک مدت سے اپنی تہذیب کیلئے اسلام کوجس طرح واحدخطرہ باورکراتے چلے آرہے ہیں،مغرب کی طرف سے دہشتگردی کے خاتمے کے نام پرشروع کی جانے والی موجودہ عالمگیرمہم کوجس طرح عملاًاسلام کے خلاف تحریک بنادیاگیاہے،مغربی میڈیانے اس مقصدکیلئے جوگمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے، خود قصر سفید کے ایک فرعون سابقہ صدرجارج بش نے ابتداء ہی میں جس طرح صلیبی جنگ کی بات کرکے اس تحریک کا آغازکیاتھا اوراس کے بعد اٹلی کے وزیراعظم نے کھلم کھلا اسلام کے مفتوح بنالئے جانے کی ضرورت کا اظہارکیااورافغانستان کے بعدعراق اوربعد ازاں ''عرب بہار''کے نام پرلیبیا اور تیونس کوتاراج کرنے کے بعدمصرکی منتخب حکومت کادھڑن تختہ کرکے اپنے ایجنٹ کولانے کے باوجود اب جس طرح دوسرے مسلمان ملکوں تک اس جنگ کادائرہ وسیع کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں،ان عوامل کی روشنی میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ یہ جنگ فی الحقیقت مغرب نے اسلام ہی سے نمٹنے کیلئے شروع کی ہے اوراسامہ بن لادن کانام محض ایک بہانہ تھا۔ افغانستان میں بری طرح ہزیمت اٹھانے کے بعداب اپنے اس منصوبے کوکامیاب کرنے کے لئے''عراق اورشام''کی خانہ جنگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے''داعش''کومیدان میں اتارا گیاہے اورپیرس حملے کے بعداس جوازکوسندبھی مل گئی ہے ۔اس کے بعدیہ بات خودبخودصاف ہوجاتی ہے کہ امریکااوراس کے حواریوں کے حملے کامقابلہ کرنے کیلئے طالبان کی طرف سے اسے جہادقراردینا بھی بالکل درست ہے اوریہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں ہے۔

اب رہ گیایہ سوال کہ کیاطالبان اس تصادم کوطاقت کے توازن میں بے پناہ فرق کے سبب امریکا کے ناجائزمطالبات تسلیم کئے اورعملاًاپنی خودمختاری سے دست بردارہوئے بغیرفی الوقت ٹال نہیں سکتے تھے،توحالات کی روشنی میں یہ بالکل عیاں ہے کہ انہوں نے اس امر کی پوری کوشش کی کہ جنگ کی نوبت نہ آئے ۔اسامہ کے معاملے میں ثبوت وشواہد پیش نہ کئے جا نے کے باوجود امریکا کوآخر تک مذاکرات کی پیشکش کرتے رہے ۔ثبوت فراہم کردیئے جا نے کی صورت میں اسامہ پرکسی مسلم ملک میں مقدمہ چلائے جانے پربھی انہوں نے مختلف مواقع پرآمادگی ظاہر کی لیکن خودمختلف مغربی ذرائع کے مطابق امریکا بہادرایسی ہرپیشکش کو مسترد کرتا رہا اوربالآخراس نے افغانستان پرباقاعدہ فوج کشی کردی گویایہ جنگ طالبان نے خودنہیں چھیڑی بلکہ امریکااوراس کے مغربی اتحادیوں نے طالبان پرمسلط کی اورکسی نہ کسی بہانے امریکااوراس کے مغربی اتحادیوں کویہ کرنا ہی تھاکیونکہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کے تحت امریکااوراس کے مغربی ا تحاد ی اسلام سے نمٹنے کافیصلہ بہت پہلے کرچکے تھے کیونکہ اسلامی احیاء کے سب سے نمایاں امکانات اس وقت افغانستان ہی میں تھے جوانہیں قطعاًگوارہ نہیں تھا کہ اسلامی نظام کی برکات سے باقی دنیاآگاہ ہو سکے اوران کاجھوٹاجاری نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے ۔

طالبان دوسرے مسلم حکمرانوں کی طرح مغرب کی خواہشات کے مطابق جھکنے پرتیارتھے نہ بکنے پر لہندامغرب کاپہلاہدف طالبان ہی کوبنناتھا۔اتحادی طاقتوں اورطالبان کی عسکری صلاحیت کے درمیان بے پناہ فرق کے پیش نظر یہ بات پہلے دن سے واضح تھی کہ طالبان کی حکومت ختم ہوجائے گی اور طالبان کو ایک طویل چھاپہ مارجنگ کی حکمت عملی اپنانی ہوگی،اس کااظہار خودمختلف طالبان رہنماؤں نے پہلے ہی کردیاتھایعنی یہ بات یقینی تھی کہ طالبان کواس جہاد کے کم ازکم پہلے مرحلے میں فتح حاصل نہیں ہوگی اوربرسوں طویل چھاپہ مار جنگ کے نتائج کیارہیں گے،اس بارے میں بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی تھی گویایہ جہاددنیاوی فتح کی نسبت دنیاوی شکست کے نمایاں امکانات کے باوجودشروع کیاگیااورایسا اس لئے ہواکہ درپیش حالات میں قرآن کے واضح احکام کی روسے ایک مسلمان حکومت کوئی دوسرافیصلہ کرہی نہیں سکتی تھی
کیونکہ جب اسلامی مملکت پرکفر کی طاقتیں جنگ مسلط کرہی دیں تو پھر طاقت کے توازن کی پرواہ کئے بغیر مقابلہ لازمی ہو جاتاہے۔قران کہتا ہے کہ:
’’اے لوگوجوایمان لائے ہوجب کافرتمہارے مقابلے میں لشکرلیکرآجائیں توپیٹھ نہ پھیروجس نے ایسے موقع پرپیٹھ دکھائی.....وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا، اس کاٹھکانہ جہنم ہوگااوروہ بہت بری جگہ ہے۔''(سورة الانفال۔۱۵۔۱۶) اورایک اورجگہ ارشاد ہے کہ''نکلوخواہ ہلکے ہویابوجھل،اورجہادکرواللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے،یہ تمہا رے لئے بہترہے اگرتم جانو۔''(سورة التوبہ۔۴۱)

ان ہدایات سے واضح ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ جب تک دشمن سے مقابلے کیلئے کسی خاص سطح تک تیاری نہ ہو مقابلہ نہیں کرنا چا ہئے۔تیاری کا حکم استطاعت کے مطابق ہے یعنی جتنا کچھ بس میں ہوجہاد کیلئے مہیارکھنا چاہئے مگرجب مڈبھیڑہوہی جائے توپھریہ نہیں دیکھناچاہئے کہ تیاری کم ہے یازیادہ۔اگرایسا ہوتاتواللہ کے پیارے رسول محمدۖ ستر اونٹ، دوگھوڑوں اورٹوٹی ہوئی تلواروں کے سا تھ تین سوتیرہ مسلما نوں کوکا فروں کے کیل کا نٹے سے لیس ایک ہزارشہسواروں کے مقابلے میں لیکربدرکے میدان میں معرکہ آرانہ ہوتے ۔ میراایک استدلال یہ بھی تھاکہ افغانستان کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے جبکہ قران کہتا ہے کہ''اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے،اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیویاں،اورتمہارے عزیزو اقارب اور تمہارے وہ مال جوتم نے کمائے ہیں،اورتمہارے وہ کاروبار جن کے ماندپڑجانے کاتم کوخوف ہے اورتمہارے وہ گھرجوتم کوپسندہیں تم کواللہ اوراس کے رسول اوراس کی راہ میں جہادسے عزیزترہیں توانتظارکروکہ یہاں تک کہ اللہ اپنافیصلہ تمہارے سا منے لے آئے اوراللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔''(سورة التوبہ۔۲۴)

ان ارشادات سے عیاں ہے کہ طالبان نے دنیاوی نتائج کی پرواہ کئے بغیرجہاد کا فیصلہ اللہ کے واضح احکام کی روشنی میں کیا۔ انہوں نے زمینی حقائق کی نسبت آسمانی حقائق کوترجیح دی کیونکہ وہ اس کا شعوررکھتے ہیں جبکہ مادہ پرست لوگ قرآن کے بقول''دنیاکی زندگی کابس ظاہری پہلوہی جانتے ہیں اورآخرت سے وہ خودہی غافل ہیں۔''(سورة الروم۔۷)

اس لئے با قی مسلم حکومتوں کے فیصلے نام نہادزمینی حقائق تک ہی محدودرہے ۔ان کی بنیادکسی اصول پرنہیں بلکہ محض وقتی مفادات پرہے ۔اب جہاں تک نصرت الٰہی کاتعلق ہے توقرآن ہی بتاتاہے کہ ضروری نہیں کہ اہل ایمان کووہ ہمیشہ دنیاوی کامیابی ہی کی صورت میں حاصل ہو ۔جہادمیں اللہ نے مومنوں کو دوبھلائیوں فتح اورشہادت میں سے ایک کی ضمانت دی ہے ،چنانچہ انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ دشمنان دیں سے کہہ دوکہ تم ہما رے معاملے میں جس چیزکے منتظرہووہ اس کے سوا کیاہے کہ دوبھلائیوں میں سے ایک بھلا ئی ہےاورہم تمہا رے معا ملے میں جس چیزکے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خودتم کوسزا دیتا ہے یاہمارے ہاتھ سے دلواتاہے۔'' ( سورة التوبہ۔۵۲)اس سے معلوم ہواکہ جہاد لازماًدنیاوی فتح ہی کیلئے نہیں ہوتااوریہ فیصلہ کہ کون حق پرہے اورکون باطل پر،ظاہری فتح وشکست سے نہیں،فریقین کے اخلاقی معیارسے ہوتاہے اورآج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کابل سے جولوگ گئے وہ کس درجے کے تھے اورجولائے گئے ہیں،اخلاق وکردارکے لحاظ سے کس معیارکے ہیں۔دیکھنے والے خودفیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون صحیح ہے اورکون غلط۔جہاں تک جہاد کامعاملہ ہے تو صرف اللہ کاحکم بجالانے کیلئے ہوتاہےاورطالبان نے ثابت کردیاہے کہ انہیں فتح وشکست سے بالاتررہتے ہوئے صرف اللہ کی خوشنودی مطلوب ہے ۔

سچی بات یہ ہے کہ طالبان نے اللہ پرایمان اورتوکل کے معاملے میں حجت تمام کردی ہے ۔ان کی حکمت عملی رضائے الٰہی کے سواکچھ نہیں ۔انہوں نے گینداللہ تعالیٰ کی کورٹ میں ڈال دی ہے اور مسلما نوں سے یہ بہرحال اللہ کاوعدہ ہے کہ ''تم ہی غا لب رہوگے اگرتم مومن ہو۔''لیکن عموماً کھرے کھوٹے کوالگ الگ کرنے کیلئے آزمائش کے نہائت کٹھن مراحل کے بعد کا میابی کی یہ منزل اس وقت آتی ہے جب عام لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ اللہ کی مددکے بارے میں جو کچھ ان کوبتایا گیا تھاوہ سب بے حقیقت تھا۔قران کہتاہے''یہاں تک جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اورلوگوں نے بھی یہ سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیاتھاتویکایک ہما ری مددپیغمبروں کوپہنچ گئی ۔''اب دیکھنایہ ہے کہ اس معرکے میں جویقیناابھی ختم نہیں ہوابلکہ چھاپہ مارجنگ کی صورت میں ابھی تک جاری ہے اوراب انہی طالبان کی فتوحات کی خبریں خودمغرب اورامریکاکامیڈیا تواتر سے نشرکررہاہے اورطالبان کے مخالفین کی صفوں میں پہلے سے کہیں زیادہ بے پناہ افراتفری دکھائی دے رہی ہے ۔

ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کاانعقاد، موجودہ افغان حکومت کی حمائت اورطالبان کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان پردباؤ،اسلام آبادمیں چارملکوں کادوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ کرافغانستان میں طالبان کوامن مذاکرات کی میزپردوبارہ لانے کی کوششیں اورمیاں نوازشریف کی سالگرہ پر مبارکباددینے کے بہانے لاہورکا چندگھنٹے کا دورۂ ،گلگت اوربلتستان کوپاکستان کاپانچواں صوبہ بنانے کی بے بنیادافواہیں،یہ سب بے سبب اوراچانک نہیں۔بہرحال وقت نے توفیصلہ صادر کردیاہے اورکھلی آنکھیں اس کانظارہ بھی کررہی ہیں کہ میرے رب کی نصرت کس کے ساتھ ہے .....بس تھوڑاانتظار.....کہ استعمارکاسورج غروب ہونے کوہے!
! سجنو!دیکھیں اللہ کاآخری فیصلہ کب آتاہے!
انصاف کی یہ آنکھ، یہ سورج کی روشنی
یارب یہی ہے دن تو مجھے رات چا ہئے
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.