انتقام!

 وہ بہاول پور کی ایک دور دراز تحصیل حاصل پور کے ایک گاؤں کا چھوٹا زمیندار ہے، اسی گاؤں کی ایک دوشیزہ نے اس کے ساتھ دل کا لین دین کرلیا۔ وہ دور لَد گیا جب دیہات میں کوئی لڑکا کسی لڑکی کی طرف دیکھتا تھا، یا دیکھتے ہوئے ’’رنگے ہاتھوں‘‘ پکڑا جاتا تھا، تو پورے گاؤں میں شور مچ جاتاتھا، اس عمل کو صرف لڑکی کے لئے ہی نہیں بلکہ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے لئے بھی بدنامی کا سبب جانا جاتا تھا۔ رابطہ کرنے اور پیغام رسانی کے قصے بھی عجیب ، نہایت ہی مشکل اور پر خطر تھے۔ اپنے ایک سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے بھی اپنے ایسے ہی معاشقوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ نانی کی جیب میں خط ڈال دیا کرتے تھے اور وہ مطلوبہ پارٹی جیب سے نکال لیا کرتی تھی۔ یہی کام یار لوگ خواتین سے بھی لیتے تھے، اور بچوں سے بھی۔ مگر اب زمانہ بدل چکا ہے، اب ہر ہاتھ میں موبائل ہے، اب اس قسم کے رابطے کے لئے ہر کوئی خود کفیل ہوچکا ہے۔ حاصل پور کی جوڑی کے بھی ایک دوسرے سے عہدوپیماں چلتے رہے۔ پھر اک روز یہ ہوا کہ لڑکی کو معلوم ہوا کہ یار موصوف کی حاصل پور شہر میں بات پکی ہوگئی ہے۔ یہ خبر لڑکی پر تِیر بن کر گری اور اس کے دل میں پیوست ہوگئی، اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی، موقع پا کر اس نے اپنے (سابق) محبوب پر اس وقت تیزاب پھینک دیا جب وہ رات آرام میں تھا، اس سے وہ بری طرح جھلس گیا، لڑکی کو گرفتار کرلیا گیا ، مقدمہ بھی درج ہوگیا۔ یہاں واردات ذرا مختلف ہے، کہ تیزاب لڑکی نے پھینکا، جبکہ عموماً اس معاملے میں مرد حضرات زیادہ بدنام ہیں۔

دیہات ہوں یا شہر تیزاب گردی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، معاملہ تیزاب سے آگے بھی چلا جاتا ہے۔ محبت کے پروان نہ چڑھنے پر یہ دیوانے عجیب گُل کھلاتے ہیں، یہ اسی کو جان سے بھی مار دیتے ہیں، جس پر زندگی وارنے کے وعدے کر رہے ہوتے ہیں، اسے بھیانک تضاد کہیے یا انتقام کی آگ میں بھسم ہوجانے کے بعد حواس باختہ ہونے کی بات کیجئے، کہ دل جس کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہے، کہ اُسے کانٹابھی نہ چُبھنے پائے، اسے گرم ہوا نہ لگے، اسے کوئی غم نہ ملے، اسے کوئی تکلیف نہ ہو، وہ پریشانیوں سے محفوظ رہے اور اس کی ذات کے لئے جتنی احتیاط اور اپنائیت ہوسکتی ہے، وہ دعاؤں، تمناؤں اور خوابوں کی صورت ہمہ وقت ساتھ رہتی ہے۔ مگر جب خوابوں کا بُت ٹوٹتا ہے، تو اس کے ٹکڑے تلاشِ بسیار کے باوجود نہیں ملتے، بلکہ وہ کرچیوں کی صورت میں چُننے والوں کی انگلیوں کو پوروں کو لہو لہو کردیتی ہیں۔ جب ایسا خواب ٹوٹتا ہے، تو وہ خواب ہی نہیں بلکہ دل ٹوٹ جاتا ہے، کہتے ہیں کہ دل کے آئینے میں بال آجائے تو کبھی صاف نہیں ہوتا اور جب دل ٹوٹ ہی جائے تو وہ کیسے جڑے گا؟

اپنے محبوب ترین فرد کو قتل کرنا، یا اس پر تیزاب پھینکنا انتقامی کاروائی کی انتہا ہے، جو لوگ یہ دونوں کام نہیں کرسکتے تو انتقام وہ بھی لیتے ہیں، مگر وہ مخالف فریق سے نہیں بلکہ خود سے۔ جب انہیں کسی سنگدل یا بے حس محبوب کی بے وفائی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خود سے انتقام لے لیتے ہیں، یعنی وہ دوسروں کو تکلیف دینے کی بجائے خود کشی کرکے انتقام کی آگ بجھا دیتے ہیں۔ یا پھر عمر بھر شادی نہیں کرتے، تاہم یہ کام مزید مشکل ہے، کیونکہ مرمر کے زندہ رہنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ایسی محبت اور اس کے لئے انتقامی کاروائی کے واقعات تو روزمرہ کا حصہ ہیں، وہ تو آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں، مگر ہمیں ایسے انجامِ بد والے واقعات کو کم کرنے کے لئے بھی کوئی منصوبہ بندی تیار کرنی چاہیے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے، اسے فطرت کا تقاضا تصور کرکے آنکھیں بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، فطرت کے تقاضوں کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ انسان مادر پدر آزاد ہے، جس کا لڑکا جس کی لڑکی سے چاہے معاشقے کرتا پھرے، جہاں چاہے مرضی سے آئے اور جائے، اور گھر والوں کے سر پر خاک ڈال کر اپنی زندگی کا فیصلہ خود ہی کرتا پھرے، والدین کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت ان سے مشاورت کریں، مگر آزاد خیالی کی کسی قیمت میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔اگر ایک فریق کی اس کے والدین زبردستی شادی کرتے ہیں تو بہت سے ہیرو ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد معاشقے فرماتے اور زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تب بے وفائی کا کس کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا؟ اب کیا زندگی اُس لڑکی سے زندگی بھر انتقام نہیں لے گی؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427954 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.