ایک خبر ایک ووٹ اور ایک انجام

 1990سے 1997تک روزنامہ پاکستان ملک بھر کا سب سے بڑا اخبار تھا تو اکبر علی بھٹی کا شمار پاکستان کے چند بڑے اور زور آور صحافیوں میں ہوتا تھا،یہ اکبر علی بھٹی اور ان کااخبار تھا جس نے ملک کے دو بڑے اور مظبوط اخباری گروپ اور ان کے مالکان کو اپنے ورکرز کو ریگولائز کرنے انہیں تنخواہ دینے اور باضابطہ اپنا ملازم تسلیم کرنے پر مجبور کیا،یوں اکبر علی بھٹی آج کل کے تمام صحافیوں کے اس لحاظ سے محسن ہیں کہ ان کی وجہ سے صحافیوں کو عزت اور اعزازیہ ملنا شروع ہوا،اکبر علی بھٹی کبھی پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل تھے بعد ازاں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور وہ شخص جو کسی وقت اربوں روپے کا ملک تھا نے آخری وقت کرائے کے مکان میں گذاراکیوں ایسی کیا آفت آن پڑی تھی اکبر بھٹی پہ کہ وہ آن واحد میں عرش سے فرش پر آ گرے یہی آج کے کالم کا موضوع اور بیانیہ ہے نوے کی دھائی میں پاکستان اخبار کا ملک بھر میں طوطی بولتا تھا آج کے تقریباًتمام ہی مشہور و معروف صحافی و دانشور کسی نہ کسی طرح پاکستان اخبار سے منسلک رہے،اس اخبار کا اپنا پریس اور اپنی بلڈنگ تھی،اکبر بھٹی دو دفعہ ایم این اے بھی رہے کسی اور جماعت کے نہیں بلکہ پی ایم ایل ن کے،ان کا کاروبار ہسپتالوں کو دوائیں سپلائی کرنا تھا بعد ازاں یہ دوائیوں کے ساتھ ساتھ دیگر اس طرح کے آلات جو ہسپتال میں استعمال ہوتے ہیں بھی فراہم کرنے لگے،کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا اور ساتھ اخبار بھی اس لیول پر ا ٓ گیا کہ ملک کے دو بڑے اخباروں کا مقابلہ کرنے لگا،اکبر بھٹی نے کسی وقت بعد میں ن لیگ کو چھوڑا اور پیپلز پارٹی کو جائن کر لیا،نوے کی دہائی سیاستدانوں کی لڑائی اور طعن و تشنیع کے حوالے سے خصوصی طو ر پر جانی جاتی ہے،اکبر بھٹی بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونیکے بعد اس "جہاد"میں شامل ہو گئے ،پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 1993آ گیا اور میاں نواز شریف اور صدر اسحٰق کے درمیان معاملات خراب ہونا شروع ہو گئے،اکبر بھٹی اور ان کا اخبار صدر اسحٰق کے کیمپ میں شامل ہوگیا کیوں کہ 58/2Bکی وجہ سے اس وقت صدر پاکستان کے پاس سپر پاور ہوتی تھی اور وہ جس وقت چاہتا عوام کے منتخب نمائندوں کو بیک جنبش قلم گھر بھیج سکتا تھا،صدر وزیر اعظم کی لڑائی جب حد سے بڑھی تو صدر نے اپنا 58/2bکا کلہاڑا اسمبلی کی گردن پر چلا دیا اور تمام اسمبلیاں توڑ دیں،ادھر جس دن میاں صاحب کی حکومت ختم ہوئی پاکستان اخبار میں اکبر بھٹی نے سرخی جمائی" بدمعاش حکومت فارغ"میاں نواز شریف نے صدر کے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور سپریم کورٹ چلے گئے طرف سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی حکومت بحال کر دی سا تھ ہی میاں صاحبان نے پاکستان اخبار اور اکبر بھٹی کو بھی نظرو ں میں رکھ لیا پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ اکبر بھٹی اور اس کا اخبار جو کبھی حکومتوں کی گردن پر سوار تھا،رلتے رلتے لوکل اخبار سے بھی کم سطح پر آ گیا،اکبر بھٹی کا احتساب شروع کیا گیا اور چن چن کر ایسے افسران کو اس کام پر لگایا گیا جن کے خلاف کبھی نہ کبھی پاکستان اخبار میں خبریں شائع ہوئی تھیں،ان لوگو ں نے وہ کام بھی اکبر بھٹی کے حصے میں ڈالے جس سے اسکا دور پرے کا بھی واسطہ نہیں تھااور دیکھتے دیکھتے پاکستان اخبار کا پریس اس کی بلڈنگ سمیت اکبر بھٹی کی تمام جائیداد اور اثاثے روئی کی طرح اڑ گئے اور اکبر بھٹی کو آخری وقت کرائے کے مکان میں گذارنا پڑا،یہ ایک خبر کا ایک انتقام تھا،سمجھ دار لوگ تب ہی سمجھ گئے اور آج تک سمجھے ہوئے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے شہنشاہوں کے ساتھ پنگا نہیں لینا اور خصو صاً رائے ونڈ والی سرکار سے تو بالکل بھی نہیں یہ ایک خبر اور اس کے خالق کا انجام تھا اب ذرا ماضی بعید سے ماضی قریب میں آئیے،پیپلز پارٹی کا دور ختم ہوا میاں صاحب اپنی الیکشن مہم کے سلسے میں تلہ گنگ پہنچے اہلیان تلہ گنگ نے گندم کی کٹائی کے شدید ترین مصروفیت کے دنوں میں میاں صاحب کے جلسے میں یوں شرکت کی کہ دیکھنے والوں نے اپنے منہ میں انگلیاں دبا لیں کہ اب مقابلہ مقابلہ بھی نہیں رہا بلکہ ن لیگ کے لیے فضا یکطرفہ طور پر ساز گار ہو گئی ہے،میاں صاحب اسٹیج پر آئے لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ تمام سیکورٹی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور لوگ بڑھتے بڑھتے اسٹیج کے اتنا نزدیک پہنچ گئے کہ میاں صاحب کو مجبوراً کہنا پڑا کہ بس بھائی اب کیا مجھے اسٹیج سے گراؤ گے،اس وقت ملک خالد ٹہی جو از خود ہی اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے ،میاں صاحب کے نزدیک ہوئے اور سرگوشی کے انداز میں بولے صاحب ضلع تلہ گنگ دا اعلان کر و تے باقی ساڈے تے چھوڑ دیو،ہم دو تین صحافی ایک جاننے والے ڈی ایس پی سیکورٹی کی وجہ سے اسٹیج پر ہی مو جود تھے،تلہ گنگ کے متوقع امیدواروں نے بھی خالد ملک کی بات کی تائید کی اور میاں صاحب نے گھاگ سیاستدانوں کی طرح فوراً ہی سمجھ لیا کہ تلہ گنگ کے لوگوں کی دکھتی رگ یہی ہے اور اس ایشو پر انہیں بلیک میل یا بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور آتے ہی فوراً گویا ہوئے کہ بھائی مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ تلہ گنگ میں اتنے لوگ ہیں اس کو تو ضلع ہونا چاہیے بس یہ کہنا تھا اورپنڈال کے علاوہ جو لوگ آ س پاس کھڑے تھے انہوں نے بھی ناچنا شروع کر دیا اور سارا معاملہ ہی بدل گیا باقی تقریر کی ضرورت ہی نہ پڑی اور میں یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ تلہ گنگ ضلع (جو شاید کبھی نہی بنے گا کم از کم اس صدی میں) اہلیان تحصیل تلہ گنگ کا وہ کمزور پہلو ہے کہ جس کا جھانسہ دے کر آپ جو دل چاہے ان سے منوا اور لکھوا لیں جس حد تک اہلیان چکوال ریلوے کی بحالی کے معاملے پر حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں تلہ گنگ والے ضلع کے معاملے میں اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں،یہ الگ بات کہ نہ ریلوے بحال ہوئی نہ ضلع ،ایک دوسرے کو طعنے کوسنے ضرور دیے جاتے ہیں کہ تمھارا ضلع کبھی نہیں بنے گا ادھر سے جواب آتا ہے اپنی ریلوے کا پتہ کرو پٹڑی تک بیچ کے کھا گئے لوگ تمھاری،اب اس کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ تلہ گنگ ضلع ضرور بنے گا مگر نوٹیفیکشن چکوال آنیوالی ٹرین لیکر آئے گی،بات ہو رہی تھی میاں صاحب کے اعلان کی انہوں نے اعلان کیا اور چلتے بنے الیکشن ہوئے لوگوں نے ایک بار پھر پرویز الٰہی جیسے مظبوط امیدوار کے مقابلے میں ممتاز ٹمن کو ووٹ دے کر کامیاب کرا دیا ساتھ ہی مسلم لیگ ن نے تلہ گنگ سے دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی جیت لیں حکومتوں کی تکمیل کے بعد لوگوں نے اپنے ایم این اے و ایم پی ایز سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ جا کے میاں صاحب کو انکا وعدہ یاد دلائیں،مگر ہمارے ایم پی اے ایم این اے بے چارے نہ کل اتنے جوگے تھے نہ آج ،ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو آج تک اسمبلی میں علیک سلیک کے لیے ہی کچھ بولا ہو،میاں صاحبان کے سامنے بولنا تو کیا مجال،تلہ گنگ ضلع بنا نہ ہی کسی بھی قسم کا کوئی ترقیاتی کام ہوا،لوگوں میں غصہ اور مایوسی دن بدن بڑھتی گئی لوگ کسی موقعے کا انتظار کرنے لگے،پھر لوکل باڈیز الیکشنز کی ہاہا کار مچی حکمرانوں نے ان سے جان چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر سپریم کورٹ آڑے آ گئی اور الیکشن کرانا پڑ گئے نتیجہ پنجاب میں ن لیگ کے حق میں رہا سوائے تلہ گنگ اور گجرات کے،رزلٹ کے اگلے دن چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور میں ایک بھرپور پریس کانفرنس میں جہاں الیکشن کی خامیوں کوتاہیوں کا ذکر کیا وہیں یہ کہنا بھی نہ بھولے کہ تلہ گنگ اور گجرات میں ہم جیتے ہیں ،یہ پریس کانفرنس آن ائیر ہوتے ہی اعلیٰ ایوانوں میں اہلیان تلہ گنگ خصوساًشہریوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا گیا،بھرپور سوچ بچار شروع ہوئی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو تجاوزات کی آڑ لی گئی،محکمہ ہائی وے کے اعلیٰ افسران کو طلب کر کے رپورٹ مانگی گئی رپورٹ میں کسی بھی قسم کا تجاوز سوائے ایک آدھ جگہ کے وہ بھی چند فٹ ثابت نہ ہوا،محکمہ ہائی وے کو دوبارہ پیمائش کا حکم دیا گیا دوبارہ وہی رپورٹ سامنے آ گئی،پھر محکمہ ما ل کے ریکارڈ کا کھنگا لا گیا ،پاکستان کی پیدائش کے وقت کا نقشہ دیکھا گیا پھر بھی بات نہ بنی تو حکم ہوا تھوڑا اور پیچھے چلو 1930پھر 1924 اور پھر 1901کے نقشے نکلوا کے ن لیگی کوے کو سفید کر لیا گیا اب اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس نام نہاد کاروائی پر عوامی سطح پر شدید ترین احتجاج ہو گا یہ فیصلہ عام لوگ کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے،اب کون سے ایسا افسر ڈھو نڈا جائے جو کسی عام فرد کی بات سنے نہ کسی ایم این اے ایم پی کو خاطر میں لائے ،اس کے لیے قرعہ ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت کے داماد جن کا تعلق مانسہرہ سے کے قریبی دوست کے نام نکلامانسہر ہ سے ہی ایک صاحب کو چکوال تلہ گنگ بھیج دیا گیا،موصوف نے آتے ہی ہوٹلز بیکریز اور میڈیکل اسٹورز چیک کرنا شروع کیے ،ایک پرائیویٹ ہسپتال کو بند کرنے کی کوشش کی عدالت اور محکمہ صحت کا حکم نامہ دکھانے پر سیخ پا ہو گئے اور ہسپتال کے مالک کے خلاف کار سر کار میں مداخلت کاپرچہ درج کرا دیا،جنہوں نے عبوری ضمانت کروائی مقررہ تاریخ پر مدعی صاحب پیش ہی نہ ہوئے اور عدالت نے فیصلہ چوہدری غلا م ربانی کے حق میں دے کے ضمانت کنفرم کر دی،اگلے روز شہر بھر کی دو سو کے لگ بھگ دکانوں پر تجاوز کے نشان لگا دیے گئے کہ آپ لوگ غلط جگہ پر بیٹھے ہیں لوگوں نے دہائی دی کہ جناب ہم تین تین نسلوں سے یہاں بیٹھے ہیں اور کچھ نے عذر پیش کیا کہ ہم نے ابھی چند ماہ یا سال پہلے دکان خریدی ہے آپ ہی کے لوگوں نے رجسٹری پہ دستخط کیے ہیں مالکان نے کہا کہ آپ کی ٹی ایم نے ہمارے نقشے پاس کیے ہیں اگر غلط تھے تو یہ سب کیوں ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے مگر آگے سے ایک ہی جواب ملا کہ ہم کچھ نہیں جانتے،آپ فی الفور دکانیں اور پلازے نہ صرف خالی کریں بلکہ انہیں گرا دیں،لوگ نوٹسز کا انتظار کرتے رہے نوٹس تو نہ آئے اگلے روز ایکسویٹر ز پہنچ گئے اور آتے ہی الکرم پلازہ گرانا شروع کردیا،موقع پر موجود چند منچلوں جو ٹاؤٹس مافیا آس پاس کے گاؤں دیہاتوں سے گاڑیوں بھر کے لایا ہوا تھا نے نعرے لگائے اور یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ فقط الکرم پلازہ گرانے تک ہی محدود ہے مگر پتہ تب چلا جب ایکسویٹر نے مست سانڈ کی طرح منہ اٹھا کر ادھر ادھر دنددنانا شروع کردیا،ہر کسی کو سمجھ آ گئی کہ اب خیر نہیں ،اس سے پہلے کہ ایکسیویٹر پوری بلڈنگ گرا دے تلہ گنگ کے اعوانوں نے خود ہی اپنی دکانیں گرانا شروع کر دیں اور ایک دن بعد یوں لگ رہا تھا کہ تلہ گنگ میں اتحادی فوج نے شدید بمباری کی ہو تلہ گنگ شہرعراق اور شام کا منظر پیش کر رہا تھا لگتا تھا کسی ہلاکویا چنگیز کی کوئی فوج یہاں سے گذری ہے،لوگوں کی کروڑوں روپے کی املاک نہ صرف تباہ و برباد کر دی گئیں بلکہ انہیں کاروباری لحاظ سے بھی زیرو پوائنٹ پر لا کھڑاکیا گیا ،اب شنید یہ ہے کہ تلہ گنگ اسلام آبد بنے گا مگر ابھی دو ہفتے گذر جانے کے بعد تک ملبہ بھی نہیں اٹھا یا جا سکا اﷲ کرے یہ شہر پیرس بنے مگر کل کلاں اگر پھر ن لیگ کو ووٹ نہ ملے تو کیا پتہ کوئی اور افسر پہلی جنگ عظیم سے قبل یا 1770کا نقشہ نکال کے لے آئے کہ اس وقت تو یہاں شہر ہی نہیں تھا یہاں پر توکیا تلہ گنگ کے ملک سامان اٹھا کے چل پڑیں گے،ہر کام کا کوئی وقت اور طریقہ کار ہوتا ہے کوئی بھی ذی شعور شخص کسی بھی صورت میں ناجائز قبضے کو جائز قرار نہیں دے سکتا مگر طریقہ کار بہتربھی اپنا یا جا سکتا ہے،کیا ہی بہتر ہوتا کہ پورے شہر کو مو ہنجو دڑو بنانے کی بجائے ترتیب سے پہلے سو گز کا ایریا کلیئر کروایا جاتا،نہ ٹریفک کے معمولات متائثر ہوتے نہ پانی و بجلی کا نظام درہم برہم ہوتا لوگوں کو نو ٹسز دیے جاتے ،نقصان کا تخمینہ لگایا جاتا جنھوں نے خریدی ہے ان کو مطمئن کیا جاتا اور جن لوگوں نے بیچی جنھوں نے رجسٹریزپاس کیں ان سے بھی باز پرس ہوتی مگر جب معاملہ انتقام اور انا کا ہو تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو یہاں دیکھنے میں آ یا ہے،ایک خبر ایک ووٹ اور ایک کالم آپ کو اس ملک میں کس انجام سے دوچار کر سکتا ہے اکبر بھٹی کے حالات پڑھ لیں یا تلہ گنگ شہر کا ایک چکر لگا لیں اب نہ جانے میرے ساتھ اس کالم کے بعد کیا ہوگا کچھ معلوم نہیں مگر ٹینشن اس بات کی اس لیے نہیں کہ اپنے پاس گنوانے کوکچھ نہیں پیسے اتنے ہیں کہ کفن خریدا جا سکتا ہے اور زمین بھی اتنی ہے کہ قبر کی جگہ مل جائے گی باقی رہے نام اﷲ کا۔۔