’بجیا ‘بھی چل بسیں

ادب اور سماجی خدمات کی دنیا کی معروف شخصیت ، ہر دلعزیز اور ہر ایک سے محبت سے ملنے والی، ہر ایک کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرنے والی فاطمہ ثریا بجیا بدھ کی شام 10فروری 2016کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں۔ بجیا کے نام سے کون واقف نہیں۔

ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور سماجی خدمات کے حوالے سے بجیا ایک معتبر حوالہ تھیں۔ یہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہیں لوگ تعظیم و تکریم، احترام اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بجیا ایک ہمدرد دل ، نیکی کرنے کی عملی خواہش رکھنے والی ایسی خاتون تھیں جن میں ہمت، عظمت اور استقامت نمایاں طور پرپائی جاتی تھی۔ بجیا کے تخلیق کردہ معرکتہ الآرا ڈراموں کے سلسلے شمع، آگئی، بابر، عروسہ، آساوری کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ سب پر عیاں ہے۔ بجیا ان تخلیق کاروں میں سے تھیں جنہوں نے جاپانی کہانیوں کو اسٹیج پر روشناس کرایا۔ بجیا صرف ایک شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ وہ ایک انجمن، ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ وہ شہر کراچی میں ایک سماجی کارکن بھی تھیں۔ شہر کی کوئی بھی سماجی، ثقافتی یا ادبی تقریب بجیا کے
بغیر ادھوری ہوا کرتی تھی۔ ان کی شخصیت اور ڈرامہ نویسی کے حوالے سے ان پر بہت کچھ لکھا گیا اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔
 

image


بجیا کے آبا ء کا وطن ہندوستان کا تاریخی شہر بدایوں ہے، یہاں ہندوستان کے بادشاہ شمس الدین التمش گورنر رہے ، یہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کا شہر ہے ، حضرت امیر خسرو ؒ بھی اسی شہر کے فرزند ارجمند تھے۔بجیا کے آباؤ اجداد اسی شہر کے باسی رہے۔ بجیا جن کا پورا نام فاطمہ ثریا بجیا تھا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن کے ضلع رئچور میں پیدا ہوئیں۔یہ ضلع کر ناٹک میں واقع ہے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی ذوق کا حامل تھا انہیں علم و ادب سے محبت ورثے میں ملی۔ فاطمہ کے والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویٹ تھے۔ بجیا کی تعلیم گھر پر ہوئی انہوں نے باقاعدہ کسی مدرسہ، اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کے گھر کے علمی اور ادبی ماحول کا بجیا نے اس قدر اثر قبول کیا کہ انہیں اردو کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی اور ہندی زبان پرمہارت حاصل ہوگئی۔ بجیا نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس گھر میں ایک قیمتی و نایاب لائبریری موجود تھی جس میں کتابوں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ جس گھر میں علم کا ایسا ذخیرہ ہوگا وہاں کے مکین یقیناً علم و ادب کے دلدادہ ہی تو ہوں گے۔ یہی وہ اثرات تھے جنہیں بجیا نے قبول کیا اور وہ لکھنے کی جانب مائل ہوئیں ابھی وہ تیرہ سال کی تھیں انہوں نے پہلا ناول ’مسلم سماج‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ پھر کیا تھا اس دور کے معروف ادیبوں نے بجیا کی پذیرائی کی ، حوصلہ افزائی کرنے والوں میں پروفیسر رشید احمد صدیقی، جگر مراد آبادی اور عبدالماجد دریا آبادی جیسے اہل علم شامل تھے۔

بجیا نے1948 میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تو ان کی عمر 18برس تھی۔ وہ اور ان کا خاندان حیدر آباد دکن سے کراچی میں آباد ہوا اور پھر وہ کراچی کی ہی ہورہیں۔ پاکستان میں انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسکول میں استاد کی حیثیت سے کیا۔ حالانکہ بجیا نے از خود اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن ان کے گھر کے ماحول نے انہیں علم و ہنر سے خوب آراستہ کردیا تھا۔ انہوں نے اسکول ہی میں تدریس کے فرائض انجام نہیں دیے بلکہ کالج میں بھی آرٹ کی استاد کے فرائض انجام دیے۔ لکھنے کا عمل ساتھ ساتھ جاری رہا ، بجیا لکھتی رہیں اور چھپتی رہیں۔ ناول سے ڈرامہ نویسی کی جانب آئیں ان کے لکھی ہوئے ڈرامے بے انتہا مقبول ہوئے۔

بجیا کے تمام ہی بھائی بہن اپنے اپنے طور پر ، اپنے اپنے پیشے میں معروف ہیں، ان کی بہن سارہ نقوی بی بی سی میں نیوز کاسٹر رہیں، زہرہ نگاہ معروف شاعرہ ہیں، احمد مقصود سی ایس پی آفیسر کی حیثیت سے معروف ہوئے، انور مقصود سے کون واقف نہیں، زبیدہ طارق کھانا پکانے کی ماہر ہیں، شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ اس طرح فاطمہ ثریا بجیا کے تمام بہن بھائی اپنی اپنی جگہ پہچان رکھتے ہیں اور ہر سطح پر فنونِ لطیفہ ، ادب اور ثقافت سے گہرا تعلق رہا ہے ان کی والدہ محترمہ پاشی صاحبہ بھی ادب کے حوالے سے کمال کی خاتون تھیں۔ بقول پروفیسر سحر انصاری ’ان کے تہذیبی اور ادبی ذوق اور ہنر مندی کی وارث صرف ثریا بجیا نظر آتی ہیں‘۔ بجیا کی سوانح حیات ’بجیا: برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس․․ فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی ‘ لکھنے والی مصنفہ سیدہ عفت حسین رضوی کا کہنا ہے کہ فاطمہ ثریا بجیا کی زندگی کی کہانی لکھنا میرے لیے اعزاز ہے۔ میں جیسے جیسے بجیا سے ملتی رہی بجیا کی زندگی کے اوراق میرے سامنے کھلتے گئے اور حیرت انگیز شخصیت ، درویش صفت اور وقت کی ولی بجیا کی کہانی مرتب ہوگئی۔بجیا کے بارے میں مختلف احباب کی یہ رائے میں نے اس وقت سنی تھی جب بجیا پر لکھی گئی سوانح حیات کی تعارفی تقریب 2012 میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کتاب کی تعارفی تقریب میں بجیا کے بھائی انور مقصود نے اپنے خاندان کے مابین محبت کی وجہ بتاتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ ہم دس بہن بھائیوں میں بہت محبت کی وجہ شاید یہ بھی رہی کہ ہمارے والدین ہمارے لیے کچھ چھوڑ کر نہیں گئے۔ اگر وہ جائیداد وغیرہ چھوڑ جاتے تو شاید ہم ایک دوسرے سے اتنی محبت نہ کرتے انہوں نے بتا ا کہ ان کا چھوڑا ہوا سرمایہ دس ہزار کتابیں تھیں۔ زبیدہ طارق نے کہا کہ میں نے اپنی ماں اور بجیا کو مختلف نہیں پایا۔ بجیا نے جس کام میں ہاتھ ڈال دیا وہ نکھر گیا۔ معروف اداکار قاضی واجد کا بجیا کے بارے میں کہنا تھا کہ میرے پاس جو شہرت ہے اس میں بجیا کا بہت دخل ہے۔ قدسیہ اکبر نے کہا تھا کہ بجیا نے ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ انہوں نے جاپان لوک ورثہ کو بھی متعارف کرایا، جاپان کے شہنشاہ نے انہیں سب سے بڑا سول اعزاز عطا کیا۔ اقبال لطیف کا کہنا تھا کہ دنیا کی ساری ممتا ، دنیا کی ساری بہنوں کی محبت ، دنیا کے تمام لوگوں کی محبت کو جمع کردیا جائے تو بنتا ہے ’بجیا‘۔ وہ بے لوث محبت کرنے والوں میں سے ہیں۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کے دوران بجیا کا کردار ایک استاد، ماں، بڑی بہن کی طرح کا ہوا کرتا تھا ۔ ہم نے دوران کام ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
 

image


بجیا کی معروف شاعرہ بہن زہرہ نگاہ کا کہنا تھا کہ ہم دس بہن بھائی ہیں اور ہمارے درمیان ’’تو اور میں‘‘کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں، انہوں نے کہا کہ بجیا ہماری ہی بڑی بہن نہیں یہ تمام پاکستانیوں کی بڑی بہن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجیا کا گھر ایک سماجی مساوات کی ایک مثال ہے ان کے ہاں نا امیدی نہیں وہ تو ابدی امید پرست ہیں ۔معروف شاعر پروفیسر سحر انصاری نے کا کہنا تھا کہ بجیا کی شخصیت میں انسان سے محبت اور اس کی فلاح کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ بجیا ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ان کے نانا نواب نثار یار جنگ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ انہوں نے بجیا کی ایک عادت کا بطور خاص ذکر کیا کہ وہ ہر ایک کو خواہ وہ ان سے بڑا ہو یا چھوٹاـ’بیٹا‘ کہتی ہیں جب وہ خود چالیس (۴۰)سال کی تھیں تو اسی (۸۰) سال کے شخص کو بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ انور مقصود نے بتایا تھا کہ بجیا سے ملنے کے لیے کسی کو بھی پیشگی وقت لینے کی ضرورت نہیں ۔ بجیا کا گھر چوبیس گھنٹے ہر ایک کے لیے کھلا رہتا ہے۔ ان کا کوئی مہمان کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جاتا۔ بجیا کسی کو بھی ’’نہیں ‘‘ نہیں کہہ سکتیں، وہ ہمہ وقت ہر ایک لیے حاضر رہتی ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ڈائریکٹرو براڈ کاسٹر آغا ناصر نے بتایا تھا کہ بجیا پاکستان ٹیلی ویژن سے کیسے منسلک ہوئیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اپنے سفر کا آغاز ایک ڈرامے میں ساس کا کردار ادا کر کے کیا تھا جس کے پروڈیوسر وہ خود تھے۔انہوں نے کہا کہ جب ضیاء الحق کے دور میں ٹیلی ویژن پر خواتین کے لیے دوپٹہ پالیسی پر سختی سے عمل کرنے کے احکامات جاری ہوئے تو بجیا نے بغداد اور غرناطہ کے حوالے سے منفرد کردار تخلیق کیے۔انہوں نے بتایا کہ بجیا کو جاپان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نواز جاچکا ہے لیکن بجیا جیسی شخصیت کے لیے یہ اعزاز انتہائی نا کافی ہیں انہیں اس سے بڑے اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔

بجیا کی ایک عادت بہت مقبول تھی وہ یہ کہ وہ ہر ایک کو بلا شرکت غیرے بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ بس انہوں نے اپنی یہ عادت بنا لی تھی۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہ ہوتی تھی، مرد ہے تو بیٹا، عورت یا لڑکی ہے تو بیٹی، منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ’’فاطمہ ثریا بجیا ہر کسی کو ’بیٹاُ کہتی ہیں اور ان کے بیٹوں کے لیے عمر کی کوئی تشخیص یا لحاظ نہیں ہے، یہاں تک کہ میں بھی ان کے ہزاروں بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہوں مگر دلچسپ بات یہ ہوئی کہ انہوں نے زہرہ نگاہ کے خدشے کے عین مطابق سفید ریش ڈاکٹر ارشاد علی بیگ کو بھی بیٹا کہہ کر مخاطب کر دیا جس پر وہ جھینپ کر رہ گئے اور اپنی اس کیفیت کو مسکراہٹ میں چھپا لیا‘۔ بجیا مہمان نوازی کے حوالے سے اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ گھر میں تنہا رہتی تھیں لیکن ان کے گھر سے کوئی بغیر کھانا کھائے نہیں جاسکتا تھا۔ کس قدر خوبیوں اور صلاحیتوں کی مالک تھیں۔

فاطمہ ثریا بجیا کی زندگی کا سفر جو ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن سے یکم ستمبر 1930ء کو شروع ہوا تھا، 85سال 5ماہ اور نو دن بعد پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام پذیر ہوا۔ علم و ادب کا یہ سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا اور اپنے پیچھے ایک طویل داستان چھوڑ گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجیا پر لکھا جائے، تحقیق کی جائے ان کے کام کو ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ اﷲ تعالیٰ فاطمہ ثریا بجیا کی مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Renowned Urdu writer Fatima Surayya Bajia has died aged 85 in the Pakistani city of Karachi, after suffering what Pakistani media called a long illness. She received awards at home and abroad for her work, which include popular radio and TV dramas.