سچ پر جھوٹ کا گمان!

 ریحام خان کو بہت کم لوگ جانتے تھے، اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے میں پورے پاکستان کی نگاہیں کینٹینر پر مرکوز تھیں، جہاں شام کو عمران خان نمودار ہوتے تھے، بہت سے دیگر حضرات کے بعد وہ بھی خطاب کرتے اور دیر گئے تک لوگ اپنے بندوبست کے ساتھ شب بسری کرنے چلے جاتے۔ کچھ سادہ اور سیدھے لوگ دھرنے والے مقام پر ہی قیام کرتے۔ اس گہما گہمی میں عمران خان نے حکومت سے دھاندلی وغیرہ کے مطالبات منوانے کے ساتھ ایک عوامی دلچسپی کی بات یہ کی کہ میں نے دھرنے کا یہ سٹیج اس لئے سجایا ہے کہ میری شادی ہوجائے۔ قوم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک خاتون ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئی ، اس کے سر پر پی ٹی آئی کے پرچم کی پٹی بندھی تھی، اس نے ببانگِ دہل اعلان کیا کہ وہ ’فلاں‘ ہے اور عمران خان کے ساتھ شادی کی خواہاں ہے۔ وہ خاتون تو عمران خان کے حرم میں داخل نہ ہوسکی تاہم چند روز بعد ریحام خان کے بارے میں خبریں آنے لگیں اور قوم نے ان افواہوں میں رنگ بھرتے ہوئے دیکھا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر عملی جامے میں دکھائی دینے لگی۔

دونوں کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے، مگر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ دونوں میں علیحدگی ہوگئی ، وجوہات جو بھی ہوں، بُرا ہوا، ایسا نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ عمران خان سے شادی کے بعد ریحام خان کے جاننے والوں کی تعداد میں یکدم لاکھوں لوگوں کا اضافہ ہوگیا، گویا ان کی مقبولیت کا ستارہ شہرت کے آسمانوں تک پہنچ گیا۔ اب پاکستان کیا دنیا میں پاکستان کے معاملات میں دلچسپی لینے والے افراد میں ریحام خان کا تعارف پھیل گیا۔ اب ریحام خان مضمون لکھیں یا بیان دیں، ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، انہوں نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’’سیاستدان سچ بھی بولے تو جھوٹ لگتا ہے، چند سیاستدانوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاست بدنام ہے، سیاسی جماعتیں نظریات سے ہٹ کر کام کر رہی ہیں، جس کی بنا پر عوام میں مایوسی کی لہر اٹھ گئی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وراثتی سیاستدان ملک میں تبدیلی نہیں لاسکتے‘‘۔ ملک کی ایک اہم خاتون ہونے کے ناطے ریحام کی بات سنی اور پڑھی جاتی ہے۔

یہ تو اندازہ نہیں لگایا جاسکا کہ ریحام خان نے یہ بیان کس پس منظر میں دیا ہے، آیا ان کے پاس سیاستدانو ں کی کمزوریاں ہیں، یا سیاستدانوں کے دہرے معیار ان کے سامنے ہیں، کیونکہ پون سال انہیں بہت سے سیاستدانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، یقینا تجربے کی روشنی میں ہی بیان دیا گیا ہوگا۔ سیاستدان سچ بھی بولے تو جھوٹ کیوں لگتا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ تو سیاستدان ہی ہیں، کہ انہوں نے اپنے کردار اور اقوال کو یکجا نہیں کیا، ان کے قول وفعل میں تضاد ہے، وہ کبھی دل کی بات زباں پر نہیں لاتے، عوام سے کئے ہوئے وعدے نہیں نبھاتے، یہی وجہ ہے کہ لوگ سیاست کو جھوٹ کا دوسرا نام دیتے ہیں۔ کسی کو جھوٹا یا عیار قرار دینا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’بڑے سیاستدان بن گئے ہو‘‘۔ کوئی فرد کسی سوال کا گول مٹول جواب دے دے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں نے سیاسی بیان دیا ہے‘‘۔ گویا جس بات کے ساتھ سیاست منسوب ہوجائے، اسے جھوٹ قرار دینے میں کسی کو مشکل پیش نہیں آتی۔

سیاست دان اگر اپوزیشن میں ہیں تو ان کے اقوال مختلف ہوتے ہیں، ان کا سب سے اہم کام حکومت پر ہر صورت میں تنقید کرنا ہوتا ہے، وہ کسی حالت میں بھی حکومت کی تعریف نہیں کرسکتے، اگر تعریف کریں گے تو سیاست کیسے کریں گے، کیونکر اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑا ماریں؟ حکومت کوئی بھی کام کرے ، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس پر تنقید کردی جاتی ہے، حکومت کی ہر پالیسی کی مخالفت اپوزیشن کا سیاسی فرض ہوتاہے۔ حکومت کے خلاف جلوس نکالے جاتے ہیں، ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں، ہنگامے اور دھرنے دیئے جاتے ہیں۔ اور اس وقت تضاد کھل کر سامنے آتا ہے جب حکومت والے لوگ اپوزیشن میں آتے ہیں اور اپوزیشن والے حکومت میں چلے جاتے ہیں، ایسے میں وہ دونوں فریق وہی کام کرتے ہیں تو ان کے مخالفین نے کئے ہوتے ہیں۔ پھر عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کی پاسداری کا کوئی رواج نہیں، یہ وعدے فقط الیکشن جیتنے کے لئے کئے جاتے ہیں، اور الیکشن میں کامرانی حاصل کرلینے کے بعد ان وعدوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے، بس اگلے الیکشن کی مہم میں ان سے دوبارہ گرد جھاڑ کر انہیں عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے، یوں جھوٹ بولا اور مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے، واضح جھوٹ پر کوئی ایکشن نہیں لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی سیاستدان سچ بھی بولے تو سچ نہیں لگتا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.