جمہوریت کے پُجاری حکمران وسیاستدان مگر بے ثمر جمہوریت کے مارے عوام

وزیراعظم نوازشریف کی یہ کیسی جمہوریت ہے جس کو قائم رکھنے کے لئے قومی اداروں کی نجکاری مقدم ہے ۔ وفاقی حکومت پنجاب میں اورنج ٹرین منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے قدیم قومی ثقافتی ورثہ اور برسوں سے آبادغریب رہائشیوں کے مکانات اور غریبوں کی دُکانیں توڑ کر جمہوریت کو بچانے کی پالیسی ترک کرے۔

آج اگر یہ کہاجائے توبیجانہ ہوگاکہ میرے دیس پاکستان میں جمہوراور جمہوریت کے جتنے بھی دریچے جہاں کہیں سے بھی کھلتے ہیں اِن کے تمام ظاہروباطن ثمرات صرف حکمرانو، سیاستدانوں اور اِن کے خاندانوں اور اِن کے اردگرد منڈلاتے چمچہ گیری کرتے اور خوشامدمیں دامن بچھاتے اور اِن کے آگے جھکے رہنے والے سر اور ہردم جھکے رہنے کی وجہ سے اپنی کمر میں خم ڈالنے والے بیورکریٹس افسرشاہی کہلانے والے مکروہ اور دھوکے باز عناصر تک ہی محدود ہیں یا اُوپر سے لے کر نیچے تک سب نے ایک دوسرے کا کاندھاتھپتپاتے ہوئے دیدہ ودانستہ سارے جمہوری فائدے ایک دوسرے کے دامن میں ڈال کر محدود کرلئے ہیں اورآج جو جمہوراور جمہوری فائدے سے چمٹے بیٹھے ہیں یاپھر جمہوریت اِن کی مٹھی سے خود نکلنانہیں چاہ رہی ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ میرے مُلک کے غریب اور معصوم عوام جو کل بھی جمہوراور جمہوریت کے پھلوں سے لدتے اِس درخت کے سائے سے بھی محروم تھے وہ موجودہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت میں بھی جاری جمہوری ثمرات سے یکسر محروم ہے ایسے میں جمہوری ثمرات کے حصول سے محروم اور ترستے عوام کی بے کسی اور لاچارگی کو دیکھتے ہوئے اَب یہی لگتاہے کہ جیسے ن لیگ کی موجودہ حکومت نے تو ماضی کے تمام ریکارڈ توڑڈالے ہیں اور آج اِس حکومت نے اپنی گردن تان کر اور اپنا سینہ چوڑاکرکے کھلم کھلایہ تہیہ کررکھاہے کہ ماضی میں جو تھوڑے بہت جمہوری ثمرات عوام تک کسی نہ کسی طرح سے پہنچا بھی دیئے گئے تھے اور جس کے یہ کبھی اصل حقدار ہواکرتے تھے یا پھر کسی نہ کسی طرح جمہوریت کے حقدارکہلائے جانے لگے تھے کم از کم اپنی اِس حکومت میں تو اتنے بھی عوام الناس تک جمہور اور جمہوری ثمرات اور اِس کے فائدے کسی بھی صورت میں نہیں پہنچائے جائیں کیوں کہ آج اگرہم نے حقیقی معنوں میں عوام الناس تک جمہوری فوائد اور ثمرات پہنچادیئے توپھر 2018میں اگلے ہونے والے انتخابات میں عوام کو اُس طرح استعمال نہیں کیا جاسکے گا ہم نے جس طرح مسائل اور مہنگائی سے پریشان حال عوام کو پچھلے انتخابات میں دباکر، دھمکاکر اور تین ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے سبزباغات دکھاکر ووٹ حاصل کئے اور اقتدار کی مسند پر قابض ہوئے اور ابھی تک عوام کو مسائل اور توانائی بحرانوں میں جکڑ کرپریشان کئے ہوئے ہیں اور سارے جمہوری ثمرات اور فائدے اپنی مٹھی میں رکھ کر اپنے تک ہی محدود کئے ہوئے ہیں ہم کیوں عوام کے مسائل اگلے انتخابات سے قبل حل کردیں؟ ہم تب کیاکریں گے؟؟ ۔

بیشک ..! ! موجودہ حالات میں اِس سے بھی کسی کو انکارنہیں کہ ہمارے یہاں68سالوں سے جس طرح اقتدار کے حصول کی جنگ چندمخصوص سول خاندانوں،بھٹوؤں، شریفوں، چوہدریوں، خانوں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی شکلوں میں سیاسی عناصر اور آمریت کا ڈنڈااُٹھائے افراد کے درمیان جاری رہی ہے اور یقینی طورپر اِس کشمکش میں سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں نے جس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کبھی بھی کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیایعنی یہ کہ جس کا جب اور جہاں داؤ چلااُس نے اقتدار کی جنگ اور کشمکش میں اپناہاتھ صاف کیا اور مسندِ اقتدار پر اپنے قدم رنجافرما ئے اور قانون کی اپنی مرضی سے گردن مڑوری اور اِس کا ہاتھ توڑااور جس نے جتنے بھی عرصے چاہامُلک اور عوام پرحکمرانی کی اور قومی خزانے کوجس طرح چاہااپنے اللے تللے کے لئے دل کھول کر استعمال کیا اور اِس طرح سب اپنا اُلوسیدھاکرکے عوام کو نت نئے مسائل اوربحرانوں اور اپنے پرائے کی اندرونی اور بیرونی جنگوں اور دہشت گردی کی دلدل میں دھنساکر چلتے بنے ایساکل بھی ہوتارہاہے اور آج بھی اِس سے زیادہ ہورہاہے۔

جبکہ یہاں خاص طور پر عوام الناس کے لئے قابل ِ غور اور انتہائی توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اَب اِسے اپنے آنے والے کل اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے یہ ضرورسوچناہوگاکہ آخر اِس کے ساتھ ایساکب تک ہوتارہے گا؟ یہ تومیرے دیس کے اُس عوام کو نہیں پتہ جو ہر الیکشن میں اپنے مسائل کے حل کے لئے اُمیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں اور اِنہیں ایوانوں میں پہنچاکر اِس اُمید پر زندہ رہتے ہیں کہ اِن کا کامیاب کیاگیااُمیدوار اِن کے مسائل حل کرے گامگرافسوس ہے کہ ہر بار عوام کو جلدہی لگ پتہ جاتاہے کہ جس اُمیدوارکو کامیاب کرکے ایوان میں پہنچایاتھاوہ توپارلیمنٹ میں پہنچ کر اِسے ہی بھول گیاہے اُس کے پاس اتنابھی وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے حلقے کے ووٹرزکے مسائل حل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرے وہ تواپنے حلقے کے ووٹرزکونظراندزکرکے محض اپنے مطلب کی جمہوریت اوراپنی پارٹی اور اپنے ذاتی و سیاسی فائدے کے لئے اتنے بڑے بڑے کام کرتاہے کہ جس کا فائدہ صرف اُس کی پارٹی یا پھر اِس کی ذات کوہوتاہے اور عوام کے مسائل جوں کہ توں رہتے ہیں اور عوام کے حصے میں سوائے مایوسیوں اور محرومیوں اور مسائل اور بحرانوں کے کچھ نہیں آتاہے مگر کم بخت یہ بدعقل عوام اور اُمیدواروں کے حلقوں کے ووٹرز ہیں کہ جو پھر ہر بارہر الیکشن میں دھوکہ کھاکر ایسے اُمیدوارکو ووٹ دیتے ہیں جو اِن کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایوانوں کی دہلیز پر قدمرکھتے ہی اپنے حلقے کے ووٹرز کے مسائل بھول جاتاہے اور اپنے ذاتی اور اپنی پارٹی کے فائدے کی باتیں کرتاہے اور اِسی کے متعلق سوچتاہے اور اقدامات کرتاہے۔

آج یہی وجہ ہے کہ میرے دیس کے بیچارے غریب عوام اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول سے محروم ووٹر ز کی حالتِ زندگی بدسے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے اور میرے مُلک کے ہر غریب اور اپنے بنیادی حقوق جیسے پینے کے صاف پانی ، خالص اور اچھی و سستی خوراک ، اچھے اور جدیدعلاج و معالج ، سستی اور یکساں نظامِ تعلیم سے محروم اورمہنگائی سے پریشان حال شخص کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہاہے اور میری قوم کا ہر فرد ایسے بہت سے اپنی بنیادی حقوق سمیت سارے جمہور اور جمہوری ثمرات سے بھی یکسر محروم ہے ۔

اَب یہ کہاں کہ انصاف ہے کہ موجودہ ن لیگ کی حکومت صرف اپنا طُرہ اور سیاسی قداُونچاکرنے کے لئے پنجاب میں اورنج ٹرین کا منصوبہ لارہی ہے اور آج اِس حکومت نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر یہ بھی تہیہ کررکھاہے کہ اِس منصوبے کو ہرصورت میں کامیاب بنایاجائے گا خواہ اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اِس منصوبے کے راستے میں حائل سیکڑوں قدیم قومی ثقافتی ورثہ اوربرسوں سے آباد لاکھوں رہائشیوں کے مکانات اور کاروباری بڑے چھوٹے مراکز اور غریبوں کی دُکانوں کی بھی توڑپھوڑکرنی پڑے تو اِس سے بھی دریغ نہ کیاجائے اور آج ایساوفاق سے وزیراعظم نوازشریف اور پنجاب میں اِن کے بھائی شہبازشریف کی حکومت حقیقی معنوں میں کر ایساکرنے کااپنا پکاارادہ کرچکی ہے اِسی لئے اِن دونوں حکمرانی کے نشے میں مست بڑے چھوٹے بھائیوں کے نزدیک بس جمہور اور جمہوریت ہی سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ آج وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بڑی بڑی سڑکیں ، رنگ برنگین جنگلہ بسیں اور اورنج ٹرین چلانے کا کامیاب منصوبہ ہی اصل معنوں میں عوامی خدمت اور جمہوراور جمہوریت ہے آج اِن دونوں بڑے چھوٹے حکمران بھائیوں کی بس ایک یہی سوچ ہے کہ اِن منصوبوں کی کامیابی میں حائل خواہ قومی ثقافتی ورثہ اور غریبوں کے مکانات اور دکانیں ہی گرائی جائیں تو گرادی جائیں اور اِسی طرح اگر مُلک کو چلانے کے لئے قومی منافع بخش اداروں کی اونے پونے داموں فروخت کرکے نجکاری بھی کرنی پڑجائے توبھی ایسافوراََ کردیاجائے اِس سے بھی مُلک اور قوم کو نقصان نہیں ہوگااور کوئی فرق نہیں پڑے ہے بس اِن کی جمہوریت قائم رہے گی اور مُلک ترقی کرے گا آج اگر قومی اداروں کو فروخت کرکے اِن کی نجکاری کرنے سے ہی مُلک میں جمہور اور جمہوریت پنپ سکتی ہے اور مُلک ترقی کرسکتاہے تو وزیراعظم نوازشریف صاحب کیا آپ اِن دوقومی اداروں کی بھی کبھی نج کاری کرنے کے بارے میں سوچیں گے ؟؟ جس ادارے نے آپ کی دوسری حکومت کو پل بھر میں ختم کیا تھا؟؟اور اُس ادارے کو جہاں سے آ پ سمیت قوم کو انصاف ملتاہے؟؟۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 885971 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.