لہو لہو ارض کشمیر

سانحوں ،المیوں ، اور سازشوں کی سرزمین کشمیر میں قتل و غارت کوئی نئی بات نہیں ۔ وقت وقت پر یہاں قانون کے محافظ ہونے کا دعوہ رکھنے والوں کے ہاتھوں قانون کی عزت ریزہ ریزہ ہوتی آئی ہے۔ جن وردی پوشوں کو ـسیکورٹی فورسز کہا جاتا ہے وہ افسپا کے قانون کی آڑ میں اہلیان کشمیر کے جان و مال سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ نوے کی دہائی میں حول کدل کے قتل عام سے لیکر کنن پوش پورہ کی شرمناک داستان تک ، سوپور اور بجبہاڑہ سے لیکر ہندواڑہ کے خون تک یہی ایک کہانی بنتی رہی ہے ۔ نہتے لوگوں پر بندوق کے دہانے کھولے بغیر خون کے پیاسے انڈین ٓرمی کے اہلکاروں کو بھلا سکون میسر کیوں آئے جب تک کسی بیگناہ اور معصوم کے سینے کو چھلنی کرکے وہ اپنی بربریت کی دھاک نہ بیٹھا لیں۔ 21 اپریل کو سمالی کشمیر کے قصبے ہندواڑہ میں معمولات زندگی کے کام میں لوگ مصروف تھے کسی کو زرا سا معمولہ سا خیال بھی نہیں ہوگا کہ اس قصبے پر ایک ناگہانی مصیبت انے والی ہے ۔یہ بستی ایک دم اس وقت ابل پڑی جب ایک طالبہ کے ساتھ ایک فوجی اہلکار کی مبینہ دست درازی کے خلاف لوگ احتجاج کرنے لگے۔احتجاجی لوگ پولیس اسٹیشن کے سامنے اس اہلکار کی اخلاق سوز اور گری ہوئی حرکت پرغیرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر مطالبہکر رہے تھے کہ ملوث اہلکار کو فورا گرفتار کرلیا جائے ایسا مطالبہ کرنا عوام کا حق تھا ۔ مظاہرین پولیس اور گورنمنٹ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ معاملے کے ضمن میں قانونی کاروائی کی جائے۔مظاہرین نے قانون کو کسی صورت ہاتھ میں نہ لیا بجائے اسکے کہ انتظامیہ اور پولیس سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کرتے فوج اور پولیس نے اپنی بندوقوں کے دہانے کھول مطاہرین اور راہ گیروں پر اندھا دھند گولیاں برسانی شروع کر دیں ۔ جس سے موقعہ پر ہی درجنوں لوگ زخمی ہوگئے ان میں سے دو نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گئے۔شام ہونے تک ایک عمر رسیدہ خاتون بھی دم توڑ گئی۔ہلاکتوں پر لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑگئی انہوں نے اس ظلم جبر کی داستان کے خلاف مظاہرے کرنے شروع کر دیے۔مشتعل مظاہرین نے ایک چیک پوسٹ پر انڈین پرچم اتار کر پاکستانی پرچم لہر دیا۔لوگوں کا احتجاج بالکل جائز تھا لیکن پولیس نے ایک بار پھر مظاہرین پر ٹیئر گیس کی شیلنگ کی جس سے مزید افراد زخمی یو ئے۔اگلے روز جب شہید ہونے والے نوجوان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو جنازہ میں شامل لوگوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے ایک بار پھر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے ایک اور مصعوم شہید ہو گیا ۔یہ گویا جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ایک جانب پولیس اور فورسز کو صبر و تحمل کرنے کے جھوٹے بیان دیے جا رہے تھے تو دوسری طرف یہی وردی پوشن نہتے لوگوں پر اسی انداز میں حملے کر رہے تھے جیسے گویا کسی منظم فوج سے انکا مقابلہ ہو رہا ہے۔ چار معصوموں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کرنے کے بعد اس واقعے کی جھوٹی کہانیاں رچی گئیں سانحے کے پہلے ہی دن مبینہ زیادتی کی شکار لڑکی اور اسکے والد کو گرفتار کرکے ان سے زبردستی وڈیو بنوائی جس میں لڑکی پولیس اور آرمی کو بری الزمہ قرار دیتی نظر آئی اور سارا ملبہ شہید ہوئے نوجوانوں پر ڈال دیا ۔اس وڈیو کو انڈین آرمی اور کٹھ پتلی گورنمنٹ نے اپنی بیگناہی کے لیے استعمال کیا لیکن کشمیری ایسی جھوٹی کہانیوں اور شاطرانہ چالوں سے بخوبی آگاہ تھے اگر اس وڈیو کو کسی عام شخص نے بنایا ہوتا تو اس پر سائبر کرائم کی دفعہ لگا کر کب کا جیل میں بند کر دیا جاتا مگر حکومت یہ کام کرے تو قانون پتا نہیں کیوں خاموش ہو جاتا ہے ؟اسکی شاید وضاحت کی ضرورت نہیں ۔اس سلسلے میں کئی سوالات نے جنم لیا مثلا اگر لڑکی نے پولیس یا مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تو یہ کس قانون سے جائز ہے کہ اس لڑکی کی شناخت اور بیان کو پوری دنیا میں اچھالا جائے ۔ دلی میں عصمت دری معاملے میں جو مظلوم لڑکی عالمی میڈیا میں موضوع بنی رہی اس کی موت کے بعد نھی دنیا اسکا نام اور شناخت نہیں جانتی مگر اس طرح کے قانون کے کشمیر میں معنی ہی کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں ؟ مگر کشمیر کی پولیس اور مجسٹریٹ نہ صرف لڑکی شناخت ظاہر کرتے ہیں بلکہ اسکی وڈیو کو بھی گھر گھر پہنچانے کے مجرمانہ عمل کا ارتکاب بھی بڑے شوق سے کرتی ہے ۔یہ غیر قانونی ایکشن بتاتا ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے جس کو دنیا سے چھپایا گیا اور دیکھنے کو ملا کہ کس طرح اس حساس معاملے میں جلد بازی کرکے پولیس نے آرمی کو کلین چٹ دی شاید جموں کشمیر پولیس این آئی ٹی کے پس منظر میں دلی میں بیٹھے آقاوں کے سامنے اپنی مجروح ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے زیادہ وفاداری دکھا رہی ہے حد تو یہ ہے کی تادم تحریر لڑکی اور اسکا باپ پولیس حراست میں ہے جبکہ لڑکی کی ماں نے میڈیا کو بیان دے کر کشمیر کی کٹھ پتلی گورنمنٹ کے کالے کرتوت کا پول کھول دیا کہ لڑکی کو گن پوانئنٹ پر بیان دینے پر مجبور کیا گیا ۔یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ انڈین آرمی کے بدمعاشوں نے افسپا کے تحت نہتے کشمیریوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے بلکہ گزشتہ پونے دو دہائیوں سے کشمیر میں یہ خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے سات لاکھ سے زائد فوج اس چھوٹے سے خطے میں مسلط کی گئی انکو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے تاکہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ غلاموں والا اپنی مرضی کا سلوک کریں۔دنیا کا سب سے بڑا غاصب ملک امریکہ ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے بیشتر مسلم ملکوں پر قبضہ کرکے وہاں اپنی فوجیں مسلط کیں ۔افغانستان کا ایک چھوٹا سا صوبہ بھی کشمیر سے کئی گنا بڑا ہے لیکن افغانستان جیسے بڑے ملک میں بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی صرف تین لاکھ فوج رہی ہے جب کی اسکے برعکس جموں کشمیر جیسے چھوٹے سے علاقے میں فوج نیم فوجی دستے اور پولیس کو ملا کر یہ تعداددس لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے ۔انڈیا کا میڈیا منفی پرپراپیگنڈا کرکے فوج اور نیم فوجی دستوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتا ہے کہ کشمیر میں انکی لڑائی صرف کشمیری عوام سے ہے اس لیے وقت وقت پر کشمیر میں یہ غاصب فوج ہر وقت قتل و غارت کے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے ۔ بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں کے جنازے اٹھا رہے ہیں نئی نسل کو شہید کرکے کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی پتھر اٹھا کر غاصب آرمی پر مارتا ہے۔ان حالات میں پاکستانی عوام خصوصا گورنمنٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کشمیریوں کی مدد کرکے انکو غلامی کے ان اندھیروں سے نکالیں کیونکہ بانی پاکستان نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے نئی حکومت اور آرمی چیف صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں بانی پاکستان کی اس بات کو دہرایا لیکن ضرورت اس ضمن میں عملی قدم اٹھانے کی ہے ۔ کشمیری اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان زندہ باد ،تیری جان میری جان پاکستان پاکستان کے نعرے لگا رہے ہیں پاکستانیوں کو بھی آگے بھر کر انکی حمایت کرنی چاہیے ۔
Saad Salaar
About the Author: Saad Salaar Read More Articles by Saad Salaar: 4 Articles with 2546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.