تعمیر وترقی میں رکاوٹ غداری ہے ؟

ہر ایک کا اپنا سچ اور جھوٹ ہے۔ اگر آپ ایسی بات کریں جو حکومت کے خلاف ہو تو کہا جاتا ہے کہ یہ اپوزیشن کابندہ ہے۔ اگر آپ کی گفتگو سے حکومت کو فائدہ ہونے کا احتمال ہو تو کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت کا ایجنٹ ہے۔ یہی یہاں کی ریت بن رہی ہے۔یہاں سیاستدان باہمی دست و گریباں کیوں رہتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ اقتدار اور کرسی ہے۔کسی کو کرسی پر بیٹھنے کی فکر ہے۔ کسی کو کرسی پر بیٹھ کر اس کو نہ چھوڑنے کا غم۔ کسی میں کرسی پر بیٹھے کو گرا کر خود بیٹھنے کی امنگ۔ اس لئے لوگ ایشوز کی سیاست سے گریز کرتے ہیں۔ خدمت کی سیاست سے پہلو بچاکر نکل جاتے ہیں۔ اگر ہر کسی کا اپنا من پسند گارڈ فادر ہو تو وہ دوسرے کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔

یہ ایک ڈرامہ ہے۔ یہ پتہ نہیں کہ پاناما لیکس سی آئی اے اور موساد کی مشترکہ کارروائی تھی یا کچھ اور۔ اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر امریکہ کا بال بھی بھیگا نہ ہوا۔ کرپشن، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، غیر قانونی اورگھوسٹ کمپنیاں امریکیوں کی بھی ہوں گی۔ تا ہم پانامہ لیکس کسی کی بھی کارستانی ہو، اگر پاکستان کے وزیراعظم یا کوئی بھی اگر کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہے تو اسے اس جرم کی سزا ضرور ملے۔ مگر یہاں پی پی پی اور پی ٹی آئی کا ٹارگٹ وزیراعظم نواز شریف ہیں۔ عمران خان صاحب کا بس چلے تو وہ اسی وقت وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ جائیں ۔ وہ لگتا ہے بہت جلدی میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماہرین فلکیات نے پیشن گوئی کی ہے کہ اگر عمران خان 2016تک وزیراعظم نہ بنے تو ان کا خواب کبھی پورا نہ ہوسکے گا۔ آصف زرداری صاحب کے پیر خاص اعجاز شاہ نے یوں ہی عمران خان کے کان میں معنی خیز سرگوشی نہیں کی، یوں ہی ان کا بوسہ نہیں لیا۔ یہ زرداری صاحب کا عمران خان کے نام صاف پیغام بھی ہے کہ آپ جلد وزیراعظم بننے والے ہیں۔ تحریک جاری رکھیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پارٹی نہیں بلکہ تحریک ہے۔ جوں ہی عمران خان وزیراعظم بنے ، یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔ مگر یہ سچ ہے کہ نوجوان اور خواتین خاص طور پر عمران خان کو متبادل کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ تا ہم وہ ابھی تک موجودہ نظام کے نعم البدل کے طور پر سامنے نہیں آ سکے ہیں۔

اپوزیشن بھی انہیں چکما دے رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں خورشید شاہ کو ان کی خاطر اپنے خطاب مختصر کرنے کی ہدایت ملی تھی۔ جس پر انھوں نے عمل کیا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سات سوالوں کے جواب نہ ملنے پر اپوزیشن پہلے سے واک آؤٹ کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اس فیصلے سے عمران کیوں بے خبر تھے۔ جب ارکان ہاؤس سے نکلنے لگے تو وہ کیں تذبذب کا شکار ہوئے۔ کیا شاہ محمود قریشی کو پی پی پی میں واپسی کی دعوت دی گئی ہے۔ کون ہے جو عمران خان کی سیاست ختم کرنے کے درپے ہے۔ اگر ان کی سیاست ختم ہو گئی تو یہ ان کے چاہنے والوں کے لئے اپ سیٹ ہو گا۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

یہاں سب کو آزما کر دیکھا گیا۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ انہیں بھی موقع دیا جائے، آزمایاجائے۔ کے پی کے کی صوبائی حکومت ان کی ہے۔ تعلیم، صحت کا نظام درست ہو رہا ہے۔ تھانہ کلچر ، پٹواری مافیا کی سر کوبی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان پختون ہونے کی وجہ سے ان کی اس صوبے میں پذیرائی ہو رہی ہے۔آزاد کشمیر میں برادری ازم، علاقہ پرستی کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اب وہ تنہا نہیں۔جس نے میرٹ اور گڈ گورننس کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔

نیب، ایف آئی اے کے ہوتے ہوئے انسداد بد عنوانی یا انٹی کرپشن محکمہ کی بھی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ کسی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن کی ضرورت ہے۔ جس کا مقصد سیاسی انتقام گیری نہ ہو۔ یہ آزاد محکمہ ہو ۔جو ملک کے چیف ایگزیکٹو کے بجائے پارلیمنٹ یاکل جماعتی پارلیمانی کمیٹی کو جوابدہ ہو۔ جو کسی کومعاف کرے نہ ا چھوٹ دے۔ اس کا نظام صاف و شفاف ہو۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو ، جو آگے آئے ، دھر لیا جائے۔ یہ خوش گمانی ہے۔

بعض لوگ عمران خان کو ن لیگ کے منڈیٹ کا احترام کرنے اور آئیندہ انتخابات تک انتظار کی صلاح دے رہے ہیں۔ اگر وہ کسی نئی ایجی ٹیشن کا آغاز کرتے ہیں یا اس کا حصہ بنتے ہیں تو شاید اس کا انہیں زیادہ فائدہ نہ پہنچے۔ کیوں کہ ان کے مد مقابل وزارت عظمیٰ کے کئی امیدوار میدان میں آ گئے ہیں۔ پانامہ لیکس سی آئی اے یا موساد کا ایکشن ہو یا نہ ہو، مگر اس سے پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کا یہاں کوئی خیر مقدم نہیں کر سکتا۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ انتہائی اہم ہے۔ اس میں اپوزیشن اپنا کیا حصہ طلب کر رہی ہے۔ کمیشن کون مانگ رہا ہے۔ اب سارا کمیشن یہاں کے عوام کو منتقل ہونا چاہیئے۔ اگر گوادر بندرگاہ کی تعمیر روک دی گئی تو اس کے مقابلے میں دیگر بندرگاہیں بھی بن رہی ہیں۔ جنھیں پاکستان کے دشمن تعمیر کر رہے ہیں۔

یہ شاہرائیں، گزرگاہیں، بندرگاہیں ، توانائی کے منصوبے ،پائپ لائنز، اقتصادی راہداریاں ملک کی ٹرانزٹ ٹریڈ کو چار چاند لگا سکتی ہیں۔ پاکستان دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں دہشت گردی کا عروج ہو،دھرنے دیئے جائیں،لوگ تعمیر سے ہٹ کر تخریب اور تباہی کی طرف چلے جائیں، افراتفری بڑھے، سیاسی کشیدگی کی فضا بنے، سر مایہ کار بھاگ جائیں جس طرح اپوزیشن قومی اسمبلی سے بھاگ گئی۔ یہ راہ فرارافہام و تفہیم کے بجائے کشیدگی میں اضافہ کرتا ہے۔ کرپشن ایک لعنت ہے۔ یہ ختم ہونی چاہیئے۔ کیا یہ دھرنوں اور جلاؤ گھیراؤ سے ختم ہو گی۔ جوڈیشل کمیشن، پارلیمانی کمیشن یاآزادانٹی کرپشن ادارہ ہی کرپٹ لوگوں کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ میڈیا ٹرائل سے کیا ہو سکتا ہے۔ پارلیمنٹ ملک کا نمائیندہ ادارہ ہے۔ اس کی بالا دستی اس سے فرار ہو کر قائم نہیں کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو آئیندہ الیکشن تک انتظار کریں۔ اپنی جدو جہد بے شک ترک نہ کریں، مگر ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش ملک سے غداری کے مترادف ہو سکتی ہے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485184 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More