12 لاکھ کسان

زرخیز زمینوں پر رہائشی بستیاں تعمیر ہو رہی ہیں۔ جہاں لہلہاتے کھیت نظر آئیں ، وہاں بلند و بالا عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ سلسلہ تیز ہو رہا ہے۔ زرعی زمین پر تعمیرات کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہم مسقبل میں دانہ دانہ کو محتاج ہو جائیں گے۔ غلہ باہر سے منگوانا پڑے گا۔ اناج ، سبزیاں، پھل میوے بھی باہر سے آئیں گے۔ جبکہ اناج پیدا کرنے میں خود کفالت انتہائی ضروری ہے۔

آج کسان سڑکوں پر آ کر احتجاج کر رہا ہے۔ ملک میں شدید گرمی میں ہمارے حکام یخ بستہ گھروں اور دفاتر میں مزے کرتے ہیں۔ اے سی گاڑیوں میں سفر ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں اس بے چارے کسان کی کیسے پرواہ ہو گی۔ ہم صرف سیاست کے پیچھے پڑے ہیں۔ ہر کوئی اسی پر مغز ماری کر رہا ہے۔ دیگر اہم ترین سماجی ایشوز نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسلہ قومی پیداوار میں ہونے والی کمی ہے۔ پیداوار میں کمی قوم کی اجتماعی خود کشی ہے۔ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ زراعت کے فروغ پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔

وزیراعظم نواز شریف نے 341ارب روپے کا کسان پیکیج کا علان کیا ہے۔ اس کی کافی تشہیر بھی کی گئی۔ مگر معلوم نہیں کہ اس کا کسانوں کو کیا فائدہ ہوا۔ وزیراعظم نے گزشتہ سال لوک گورنمنٹ انتخابات کے دوران اس پیکج کا اعلان کیا تھا۔یہ پیکج وہیں رہا اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی ایک کھرب روپے کے کسان پیکج کا اعلان کر دیا۔ رواں سال مارچ میں اس کا علان ہوا۔ ان دو بڑے پیکجز کے باوجود کسان آج لاہور کی سڑکوں پر آ گیا ہے۔ مان لیا کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز سے وابستہ کسانوں کے مسائل مختلف ہیں۔ ان پر سیاست ہو رہی ہے۔ فوج کو بدنام کرنے کی بھی کوشش ہوتی رہتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے بھی اسے اجاگر کیا گیا ہے۔ تا ہم ملک کے عام کسان کا مسلہ ابھی تک کیوں حل نہیں ہو سکا ہے۔ سب سے پہلے تیزی سے کم ہو رہی زرعی اراضی کا مسلہ ہے۔ زرعی زمین پر تعمیر کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ این او سی جاری کرنے سے قبل یہ بھی دیکھا جانا چاہیئے کہ یہ زمین زرعی درجہ میں شامل نہ ہو۔ تعمیرات کا نقشہ اور این او سی اس سلسلے میں مشروط ہو۔ زمین کم ہونے کے ساتھ اسے ہموار کرنے کے لئے ٹریکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیئے۔ تا کہ یہ کسانوں کی پہنچ میں آ جائیں۔ اس کے بعد بڑا مسلہ معیاری بیج کی عدم دستیابی کا ہے۔ زرعی یونیورسٹیاں پتہ نہیں کسانوں کے لئے راہنمائی میں کیوں خاموش ہیں۔ ہمارے ہاں زرعی ریسرچ کا کیا معیار ہے۔ ہمارے پی ایچ ڈی سکالرز کیا کر رہے ہیں۔ ہماری تحقیق کا مرکز اور ہدف کیا ہے۔ اس سلسلے میں انتہائیپروفیشنل ریسرچ پر ہی انحصار کیا جا سکتا ہے ۔

ہمیں کسانوں کا شکر گزار ہونا چاہیئے جو ہمارے لئے غلہ پیدا کرتے ہیں۔ لیکن یہ گونا گوں مسائل میں پھنس رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں کسان کا بنیادی کردار رہا ہے۔ یہ کھیتوں کھلیانوں میں تپتی دھوپ اور موسلا دھار بارش میں کام کرتا ہے۔ دن رات کھیتی باڑی میں مصروف رہتا ہے۔ زمین کی تیاری سے لے کر فصل کٹائی تک ہی نہیں بلکہ اسے کئی مشکل مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی فصل کی مارکٹنگ ہی بڑا مسلہ نہیں بلکہ اس کی محنت کا صلہ ملنا بھی کافی اہم ہے۔

آج معیاری کھادیں بھی دستاب نہیں۔ کھاد اور بیج سبسڈی پر دیئے جائیں ۔ معیار کا خاص خیال رکھا جائے تو یہ مثبت قدم ہو سکتا ہے۔ پھر کھیت کو سیراب کرنے کے لئے نہروں کی عدم دستیابی کا مسلہ ہے۔ ہم بارش کے پانی کو ذخیرہ کرسکتے ہیں۔ ندی نالوں اور دریاؤں سے کھیتوں تک نہریں نکال سکتے ہیں۔ مگر ہمارا نہری نظام انتہائی ناقص ہے۔ اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کم از کم بارش کے پانی کا درست استعمال ہی کیا جائے تو بھی ہماری پیداوار میں اضافہ وہ سکتا ہے۔ اس کے لئے اس پانی اک ذخیرہ کرنا ، کنوؤں کی کھودائی، ٹیوب ویلز کے بجلی کی بلا خلل فراہمی یقینی بنانا بھی کافی اہم ہو گا۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہے۔ بارانی زمین کا پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ آبپاشی کے مسائل اپنی جگہ جوں کے توں موجود ہیں۔ اس لئے پانی اور بجلی پر ہماری زرعی ترقی کا ایسا انحصار ہے جسے کوئی رد نہیں کر سکتا۔ نہری نظام، ٹیوب ویل، چھوٹے ڈیم، تالاب ، بجلی کنکشن، لوڈ شیڈنگ جیسے معاملات پر غور ہونا چاہیئے۔ وفاق اور صوبوں میں ایگریکلچر وزارتیں کیا کرتی ہیں۔ ان کے سیکٹریز، ڈی جیز کیا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پالیسی سازی کا کیا حال ہے۔ کسان کو ان کے مسائل کا فوری حل چاہیئے۔ انہیں ان سوالات میں الجھانے کا کیا فائدہ۔

کسانوں کے مسائل حل کرنا ان پر احسان نہیں، اپنے آپ پر رحم ہو گا۔ غلہ ، اناج کی کمی یا قلت تباہ کن ہوتا ہے۔ قومیں قحط کا شکار کیسے ہوتی ہیں۔ اس میں قدرت کا کیا ہاتھ ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کو بلا وجہ ہلاکت میں نہیں ڈالتے۔ انسان خود ہی ہلاکت اور تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کچھ نہ ہوگا۔ زرعی ماہرین کو آگے آنا چاہیئے۔ زراعت کی ترقی کسان کی ترقی سے مشروط ہے۔ اس ترقی کے لئے مربوط کوشش کی ضرورت ہے۔ کسان کہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت کا انہیں نقصان ہو رہا ہے۔ اس لئے وہ اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بھارت کے زیر قبضہ پنجاب پورے انڈیا کو اناج سپلائی کر رہا ہے۔ بلکہ ان کا غلہ باہر کے ملکوں کو جا رہا ہے۔ ہمارا پنجاب بھی ایسا کر سکتا ہے۔ اگر ٹریکٹرز کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے۔ معیاری کھاد اور بیج فراہم کئے جائیں۔کیڑے مار ادویات بھی معیاری ہوں۔کیوں کہ آج استعمال ہونے والی ادویات ناقص ہیں۔ ان کے چھڑکاؤ سے کیڑے مکوڑے ناپید تو ہو رہے ہیں۔ زہر پیداوار میں بھی اثر کرسکتا ہے۔ جب کہ زیر زمین پانی بھی زہر آلود ہوتا ہے۔ پرند چرند پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں۔ انسانی صحت بھی بلا شبہ متاثر ہوتی ہے۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔اس پر ماہرین کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں زرعی ٹیکسوں کو کم کیا جائے۔ کسانوں کو انکم ٹیکس کی چھوٹ ہو۔ٹیوب ویلز پر بجلی ٹیرف میں کمی کی جائے۔ فصلوں کی قیمتوں کا درست تعین ہو۔ انہیں منڈیوں تک رسائی دی جائے۔ کسان کو اس کی محنت کی مناسب قیمت ملے تو وہ توجہ دے گا۔ ورنہ کپاس کی طرح دیگر فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ زرعی پالیسی کسانوں کی مشاورت سے بنائی جائے۔ تا کہ ملکی زرعی پیداوار میں ہر ایک رکاوٹ ختم ہو سکے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484759 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More