جوتے، ٹاٹ اور تعلیم

پرانے زمانے کے لوگوں سے جب اُس وقت کی تعلیم کے بارے میں بات کریں تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ بیٹا ! ہم ایسے ہی یہاں تک نہیں پہنچ گئے ، ہمارے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل تھا، آج کل کے بچے تو کرسیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ، اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری ایسی سہولیات دستیاب ہیں جو ہمارے زمانے میںنہیں ہوا کرتی تھیں، ہم نے تو ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ہے اور ہم نے اپنے استادوں سے جوتے بھی بڑے کھائے ہیں، اُس وقت کی سیکھی ہوئی چیزیں ہمیں آج بھی از بر ہیں، اور آج کل کے بچوں کو تو ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں پھر بھی یہ ہمارے وقت کی پڑھائی کا مقابلہ نہیں کر سکتے، تو اکثرمیں یہ سوچتا تھا کہ سیکھنے کا تعلق تو انسان کے دماغ سے ہے لیکن ان کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ یقیناً تعلیم کا جوتوں اور ٹاٹ سے بھی کوئی گہرا تعلق ضرورہے۔ پرانے زمانے میں چونکہ سکول میں بیٹھنے کے لئے فرنیچر وغیرہ تودستیاب نہیں ہوتا تھا اس لئے اُس زمانے میں بچے اپنے ساتھ اپنے ٹاٹ بھی سکول لے کر جاتے تھے۔ بچے اپنے جوتے اتار کے ٹاٹ پہ بیٹھ جاتے تھے اور تعلیم کا عمل شروع ہو جایا کرتا تھا۔ جبکہ آج کل کے بچوں کے لئے سکول میں کرسیاں، میز اور ڈیسک وغیرہ کا بندوبست کیا ہوتا ہے۔ جن کے اوپر بیٹھ کر وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پرانے دور کی تعلیم اور آج کے دور کی تعلیم میں بس یہی بنیادی فرق ہے۔ اور یہی ایک بات سیکھنے کے عمل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ دراصل سیکھنے کے عمل کا دارومدار پر سکون اور آرام دہ ماحول سے بھی ہے، جب تک تعلیم حاصل کرنے والا پر سکون نہیں ہو گا، سیکھنے کے عمل میں دلچسپی پیدا نہیں ہو گی۔ اور جب تک سیکھنے کے عمل میں دلچسپی پیدا نہیں ہو گی سیکھنے کی صلاحیتوں میں بہتری نہیں آئے گی اور سیکھنے والے کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ وہ بچے جو اپنے جوتے کمرہ جماعت کے باہر اتار کر ننگے پائوں ، فر ش پر ، ٹاٹ پر یا قالین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ دوسرے بچوں کی نسبت بہتر سیکھتے ہیں کیونکہ جوتے اتارنے سے وہ اپنے آپ کو پر سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات ایک تحقیق کے دوران سامنے آئی، جو پچھلے دس برسوں سے دنیا کے پچیس سے زائد ممالک کے سینکڑوں سکولوں کے ہزاروں بچوں کے ساتھ کی گئی۔ انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ، جو کمرہ جماعت میں بچوں کے سیکھنے کے عمل کو متاثر کرنے والے عوامل جیسے کمرے کا درجہ حرارت، روشنی اور ہوا وغیرہ کا بچوں کے رویوں اور ان کے سیکھنے کی صلاحیتوں کے ساتھ جائزہ لینے کے لئے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے کہ دوران تحقیق بچوں سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوا کہ تقریباً پچانوے فیصد سے زائدبچے ایسے ہیں جو گھروں میں جوتی کے بغیر، نیچے بیٹھ کے، صوفے پہ ٹیک لگا کے یا لیٹ کے پڑھائی کرتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے وہ زیادہ پرسکون رہتے ہیں جبکہ سکول میں انہیں ہمیشہ جوتے پہن کے اور کمر سیدھی کر کے بیٹھنے والی کرسیوں پر بیٹھنا پڑتا ہے، جس میں انہیں دقت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب سکول میں بھی وہی طریقہ اپنایا گیا جیسے وہ گھر میں رہتے ہیں تو ان کو گھر جیسا ماحول میسر آیا، جس میں وہ نہ صرف پر سکون تھے بلکہ ان کی تعلیم میں اور سیکھنے میں دلچسپی بھی زیادہ تھی اور ان کی کارکردگی بھی دیگر بچوں کی نسبت بہتر تھی۔ اس تحقیق سے بر آمد ہونے والے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ جوتے بھی سیکھنے کی صلاحیتوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس بات کی سچائی تو ہمارے سامنے کب سے موجود ہے لیکن ہم ہیں کہ اس بات کو نہیں مانتے، جو اس بات کو نہیں مانتے وہ کسی مسجد یا مدرسے میں خود جا کر دیکھ لیں کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے کس طرح قرآن مجید حفظ کرتے ہیں، ان کے بیٹھنے کا اور پڑھنے کا کیاطریقہ کار ہے۔ وہ بغیر جوتوں کے زمین پر بیٹھ کر علم حاصل کرتے ہیں اور کتنی آسانی کے ساتھ پورا قرآن مجید حفظ کر لیتے ہیں۔ ننگے پائوں زمین پر چلنا سنت ہے ، ننگے پائوں زمین پر چلنے سے حافظہ تیز ہوتا ہے، یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہیں ، اسی لئے تو مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارے جاتے ہیں ، لیکن ہم ہیں کہ انگریز بننے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اب دیکھ لیں انگریز پھر واپس اُسی طرف آگئے ہیں۔ اس تحقیق کو بنیاد بنا کر وہ پورے انگلینڈ کے سکولوں میں بچوں کے سیکھنے کی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لئے بغیر جوتوں کے تعلیم کی تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف سکول میں کمرہ جماعت کی صفائی پہ ہونے والے اخراجات 27فیصد تک کم ہو جائیں گے بلکہ سکول میں فرنیچر کی فراہمی کے لئے اٹھائے جانے والے اخراجات بھی بچ جائیں گے جو ہمارے جیسے غریب ممالک کے لئے بھی بہت مفید ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں تو تعلیم کے لئے مختص کردہ وسائل پہلے ہی ناکافی ہوتے ہیں اس میں ممکن ہی نہیں کہ حکومت تمام سکولوں میں تمام سہولیات فراہم کر سکے، لیکن اس تحقیق کے بعد محکمہ تعلیم فرنیچر کی فراہمی کے بجائے کمرہ جماعت میں قالین بچھا کر بچوں کو زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع تو فراہم کر سکتی ہے ۔ خرچہ بھی بچے گا اور بچوں کی سیکھنے کی صلاحیتیں بھی بہتر ہوں گی۔ اس تحقیق کو پڑھنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ پرانے دور کے لوگ ہم سے پڑھائی میں کیوں اچھے تھے، کیونکہ انہوں نے تو قدرتی ماحول میں تعلیم حاصل کی ہے جبکہ ہمارے بچے مصنوعی ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی دنیا میں کی جانے والی تحقیقات سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے اور بچوں میں سیکھنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات ضرور کرنے چاہئے۔
aamer malik
About the Author: aamer malik Read More Articles by aamer malik: 7 Articles with 5306 views Working in social and development sector.. View More