موجودہ معاشرہ منافقت کی آما جگاہ:ایک تلخ حقیقت

رضائے الٰہی اوراخلاص کافقدان ،ہر کام سستی شہرت اور جھوٹی واہ وائی کے لیے کیاجارہاہے
آج کی اس رنگین دنیامیں ہر کوئی پرنٹ میڈیا،الکٹرانک میڈیااورسوشل میڈیاکے دامِ فریب میں مبتلاہے۔تعلیم یافتہ ہویاجاہل،امیر ہویاغریب،بلاتفریق مذہب وملت، اونچ نیچ وطبقاتیت کی دیوار سے اٹھ کرہرکوئی اپنی چھوٹی وبڑی تمام کارکردگیوں کوعام کرنا چاہتا ہے ۔دینی، سیاسی، سماجی، اصلاحی، فلاحی، رفاہی، ملّی اوردیگرشعبہ جات میں کی جانے والی خدمات کو منظرعام پر لایاجاتاہے۔اس عمل کے دوپہلوہیں۔ مثبت پہلویہ ہے کہ دوسروں میں بھی قوم وملت کے لیے کچھ کرگذرنے کاجذبہ پیداہوتاہے اور سبھی لوگ اپنی خدمات کودراز کرنے کامنصوبہ بناتے ہیں گویاکہ اس اظہار کے ذریعے خدمت خلق کے جذبے اوردیگر شعبہ ہائے حیات میں نمایاں خدمات انجام دینے کے ذوق میں اضافہ ہوتاہے۔منفی پہلو یہ ہے کہ میڈیاکی چمک دمک نے اخلاص،رضائے الٰہی اور بغیرکسی مفاد کے بندوں کی خدمت کا شوق ختم ہوچلاہے۔ہر کوئی اس لیے کام کرتاہے کہ اس کا نام ہو،شہرت ہو،عزت ہو ، اخبارات میں فوٹوآئے یاکم ازکم نیوز شائع ہوجائے۔فی سبیل اﷲ کام کرنے کا جذبہ ختم ہو چکا ہے۔ غریبوں، یتیموں، حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کی امداد کے پیچھے بھی کچھ نہ کچھ ذاتی مفاد پوشیدہ ہوتاہے۔آج کے اس برق رفتار دور میں انسان بغیر کسی فائدے کے محض رضائے الٰہی کے لیے کوئی کام کرنے کوتیار ہی نہیں ہے۔ (الاماشآء اﷲ)راقم اس ضمن میں کتناصحیح ہے اور کتناغلط اس بات کا فیصلہ قارئین کوکرناہے جن کی عدالت میں راقم چند مثالیں پیش کررہاہے تاکہ وہ معاشرے کی اصلاح کریں یا راقم کی۔

ہندوستان جمہوری ملک ہے۔یہاں کے باشندے ووٹ بینک سسٹم کے ذریعے اپنانمائندہ منتخب کرتے ہیں ۔مگر نمائندہ منتخب ہوکرایساغائب ہوتاہے کہ اس کا چہرہ دوسرے الیکشن ہی میں نظر آتا ہے۔یانظرآتابھی ہے تو اخباروں کی سُرخیوں میں۔کبھی ہاتھ میں ٹکم لیے،کبھی کسی بیت الخلاء کی گٹر درست کرواتے ہوئے ،کبھی کسی بریکرکی تعمیر کے لیے سیمنٹ کی پاٹی اٹھائے ہوئے،کسی چوک کاافتتاح کرتے ہوئے یا کسی بورڈ کی نقاب کشائی کرتے ہوئے۔عوام بھی اتنی بھولی بھالی ہے کہ اس نکمّے اور دوٹکے کے کام پر اپنے کارپوریٹر کو مبارکباد پیش کرتی ہے جب کہ یہ کام تو اس کے فرائض میں شامل ہے،ہرحال میں اسے یہ سب کام کرنا ہی ہے،انہیں کاموں کے لیے تو عوام نے اسے منتخب کیاہے۔مگراہل سیاست کام نہ کرتے ہوئے بھی اپنانام کرناچاہتے ہیں، کبھی میڈیاکے ذریعے اور کبھی بورڈ پر یہ جملہ تحریر کروا کے’’فلاں فلاں صاحب کے فنڈ سے ‘‘ گویاکہ وہ کسی چوک یابورڈ کاافتتاح نہیں کررہے ہیں بلکہ اپنے نام کاڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں اور واہ وائی تو ایسے بٹوری جاتی ہے جیسے انہوں نے اپنے جیب خاص سے تعمیری کام کروایاہو۔ہاں اگرکسی تعلیمی ادارے کاسنگ بنیاد ہوتا،کسی ہاسپٹل کاآغازہوتایا پھر ایساکوئی بڑااورنمایاں کام ہوتاجوتمام فرائض کواداکرتے ہوئے انجام دیاگیاہوتواس پر خوشی وانبساط کااظہارضروری ہے۔اس لیے کہ ہر بڑے کام کے پیچھے حوصلہ افزائی پوشیدہ ہوتی ہے۔مگر یہ کیا؟کہ تمام فرائض کال کاٹھری میں بند ہے اور فوٹوکچھوایا جارہا ہے گٹر ،بیت الخلاء،روڈ اور بریکرکی تعمیرکرتے ہوئے۔افسوس صد افسوس!

جلد ہی اسکول اورکالج میں داخلے کامرحلہ شروع ہوگا۔بہت سے فلاحی وسماجی ادارے یاکچھ ارباب سیاست اپنے اداروں اور کلبوں کے زیراہتمام طلبہ وطالبات میں بیاضوں کی تقسیم کریں گے۔اس فعل میں بھی اب رِیاکاری نے جگہ لے لی ہے۔پچاس روپے کی بیاض تقسیم کرکے پانچ سوروپے کی شہرت وصول کی جاتی ہے۔اسٹوڈنٹس کی لمبی قطار لگاکر فارم تقسیم کئے جاتے ہیں،اخباروں میں مراسلات آئیں گے،پھرنام نہاد بڑے مہمانوں کی موجودگی میں اوسط یاادنیٰ درجے کی بیاضیں تقسیم کی جائیں گی اور اگلے دن اخبار میں بچوں کی طویل قطار والی نمایاں فوٹو کی اشاعت کے ساتھ سستی شہرت کایہ مرحلہ اختتام پذیر ہوتاہے۔اور پھراس امر پر کسی کوسرسیدتو کسی کواردوادب کاخدمت گزارقرار دیاجاتا ہے ۔

مالیگاؤں میں اجتماعی شادیوں کارجحان بڑھ رہاہے جوخوش آئین امرہے جس سے لوگوں کا بھلا ہو رہا ہے۔مگر یہاں بھی بہت سی خامیاں راہ پاگئی ہیں جس سے ارباب علم بخوبی واقف ہیں۔ ایک خامی یہ ہے کہ اشتہاربازی کی جاتی ہے،بینرزلگائے جاتے ہیں، پمفلٹ کی اشاعت ہوتی ہے اور بڑے تزک واحتشام کے ساتھ محفلِ نکاح آراستہ کی جاتی ہے جس میں اہل علم اور ارباب سیاست کاجمگھٹاہوتاہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ نکاح کے اسٹیج پر سرِعام اکیاون یااک سوگیارہ دولہوں کو بِٹھا(بیٹھا)دیاجاتاہے اور جو بھی ادارہ اس کا اہتمام کرتاہے وہ اس عمل کے ذریعے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، دادو دہش کے ذریعے ،جھوٹی شہرت کے ذریعے یا اپنے کاموں کا دِکھاواکرکے خطیر چندہ حاصل کرکے وغیرہ۔ منڈپ میں تمام دولہوں کویکجابیٹھاکر گویایہ باور کرایاجاتاہے کہ یہ وہ نکّمے ،نالائق اورایسے ناکارہ افراد ہیں جو خود سے اپنی شادی بھی نہیں کرسکتے۔نکاح جیسی سنّت پر عمل کرنے کے لیے بھی انہیں خیراتی رقم یاکسی ادارے کے سہارے کی ضرورت ہے۔اگر آپ اتنے ہی مخلص ہوتو اشتہار بازی کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں انہیں سب کے سامنے بے نقاب کیاجاتا ہے؟ کیا جتنا اہتمام آپ ڈیکوریشن پر کرتے ہواتنی رقم میں چند اور غریب بچوں کی شادی نہیں ہو سکتی ؟ اور پھر فیس بُک،واٹس ایپ اور عوامی رابطے کی دیگر سوشل ویب سائٹس پر اس کی فوٹوز اور ویڈیوزکیوں شیئرکی جاتی ہیں؟یہ نیک کام پوشیدگی میں کیوں نہیں کیاجاتا؟آخر غریبوں کی ضرورتوں پر اپنی روٹیاں کب تک سینکی جائیں گی؟اب توحال یہ ہوگیاہے کہ کسی کی موت پر بھی شہرت بٹوری جاتی ہے۔کوئی کسی حادثے میں انتقال کرجائے اور کوئی صاحب وارثین کی مددکریں تو اس کی بھی نیوز بنادی جاتی ہے کہ فلاں فلاں صاحب نے روپیوں پیسوں کے ذریعے اہل خانہ کی مدد کی۔اناﷲ وانا۔۔۔۔۔۔الخ یہ کام تو اخباری نمائندوں اور صحافی حضرات کاہے کہ معاشرے میں وقوع پذیرہونے والے کاموں کی نشاندہی کریں،صحیح کاموں کی حوصلہ افزائی کریں اور غلط پر سرزنش۔مگرصحافی حضرات بھی کیاکریں؟انھیں تو گھربیٹھے مفت کی نیوز مل جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اب تو ہر قلم کاکوئی نہ کوئی قبلہ بن چکاہے۔ہر قلم کسی نہ کسی کی طرف جھکاہواہے۔کوئی کسی کی اصلاح کرناہی نہیں چاہتاسب کو خیال ِرزق ہے،کسی کو رزاق کی رضاکاخیال ہی نہیں۔

مالیگاؤں میں چھوٹے چھوٹے کاموں پر بڑے بڑے بینرلگانے کارجحان بھی کافی بڑھ چکاہے۔ عید پرراقم کے مضمون ’’عیدپر مبارکبادیوں کے بینرکاسلسلہ:سنّت ہے یا بدعت؟‘‘میں اس نحوست کی تفصیلی خبرلی گئی تھی۔ چھوٹاموٹاکام کرلواور پھر شاہراہِ خاص پر بڑا سا بورڈ لگوادو، جس میں ایک صاحب ہاتھ میں موبائل لیے،چشمہ پہنے ،گھٹیا اِسٹائیل میں کھڑا ہوں اور ان کی چپل کے نیچے آٹھ دس چیلوں کی فوٹوہو۔کاش کہ اتناہی روپیہ کسی یتیم کو دے دیاجاتا،کسی بھوکے کوکھاناکھلادیاجاتایاکسی بھی نیک کام میں لگادیاجاتا۔مگر افسوس!اب سب کچھ توفوٹوبازی کے لیے ہوکررہ گیاہے۔کیاعالم کیاجاہل؟ سب اس مرض میں ملوث ہیں۔آخرکون کس کی اصلاح کرے؟جب کہ آج ہر ایک کواصلاح کی ضرروت ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بارے میں جس چیز سے میں ڈرتا ہوں وہ شرکِ اصغر ہے، صحابۂ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ! شرکِ اصغر کیا چیز ہے، فرمایا ریا(یعنی دکھاوے کے لئے کوئی کام کرنا)۔ (رواہ: احمد)وہ اعمال جن کو رِیا (دکھاوا) یا سُمعَہ (نام و نمود ) کے لئے کیا جائے بظاہر وہ اعمال ادا تو ہو جاتے ہیں لیکن عمل کا مقصد صرف اس کا ادا ہوجانا ہی نہیں ہے بلکہ عمل کا مقصد تو یہ ہے کہ اس سے دنیو ی واُخروی فوائد وبرکات کا حصول ہو اور ریاو سُمعَہ کے لئے عمل کرنے والا نہ صرف اُس سے محروم رہتا ہے بلکہ وہ تباہی اور عذابِ خداوندی کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس کے لئے جہنم کا وہ ٹھکانہ متعین فرمایا کہ جس ٹھکانے سے خود جہنم پناہ مانگتا ہے چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:وہ جو دکھاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیز مانگے نہیں دیتے۔(پ؍۳۰،سورۂ ماعون،آیت ۷-۴)یہ صرف چندباتوں کااشاریہ تھا۔قارئین کرام !سماج میں اس مرض کابخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام،مفتیان عظام اور اہل سیاست سے التماس ہے کہ اس مرض کے ازالے کے لیے مل بیٹھ کرمنصوبہ بنائیں تاکہ معاشرہ امن وسکون کاگہوارہ بن سکے۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 670279 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More