اصلاح کی ضرورت

قندیل بلوچ عبرت کی علامت

خواتین کو جینے کا حق ہے، جینے دو۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کی جو حالت ہے، اس سے تو ہر خاص و عام واقف ہے، مگر افسوس کے سا تھ کہنا پڑھتا ہے کے اس کمزور طبقے پر تشدد کے ساتھ ساتھ غیرت کے نام پر خوب صورتی سے ان کی چراغ زندگی گھل کی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کا طبقہ سہمے ہوے مظلوم کی طرح جی رہی ہے۔ آزادی اور اظہار رائے کا گمان بھی ان کے لئے طوق بد بن جاتی ہے۔ اس سنگین مسلے کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے یہ طبقہ ہمیشہ ایک مخصوص طبقے کے ماتحت رہتی ہے۔

جیسا کے مولانہ شیرانی صاحب ایک لائف شو میں خواتین پر تشدد کی مزمت کی اور ساتھ میں یہ بھی کہا کے اگر معا شرے میں برائی اٹھتی ہے تو اسس سے اچھالنے کی بجائے روکھا جائے۔ جو کچھ قندیل کرتی پھر رہی تھی کیا اس میں سارا قصور صرف اسی کا تھا ۔ کیا صرف وہی اتنی بھیانک سزا کی مستحق تھی؟ اسے ان راستوں پر کس نے ڈالا جہاں سے واپسی قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے ۔ ایک نیم صنعتی سماج میں ذہنیت جاگیردارانہ ہی ہوتی ہے ۔ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کے باوجود مردوں کی غیرت و عزت کا تصور عورت ہی کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے ۔مگر اس مظلوم بچی کے باپ بھائیوں کی غیرت اس وقت کہاں تھی جب یہ سب مل کر اس کی کمائی کھا رہے تھے؟ پہلے زبر دستی اس کی شادی کی جب وہ اپنے جاہل چمار شوہر سے مار کھاتی تھی تب انہیں غیرت نہیں آتی تھی ۔ اسے طلاق دے کر اور اس کا بچہ چھین کر اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا گیا تو ان غیرت والوں سے اسکی دو وقت کی روٹی کی ذمہ داری نہ اٹھائی گئی ۔ وہ اپنا پیٹ خود پالنے نکل کھڑی ہوئی ۔ وہ بس کنڈکٹر بن گئی تب یہ باپ بھائی ڈوب کر نہیں مرے ۔ وہ دوبئی ،ساؤتھ افریقہ میں دھکے کھا رہی تھی اور اسکے چھ غیرتمند مسٹنڈے بھائی اس کی کمائی پر عیش کر رہے تھے ۔ اسے نہ معاشی سرپرستی حاصل تھی اور نہ ہی دینی سطح پر رہنمائی ۔ وہ وینا ملک یا نرگس کے جیسا نصیب لے کر دنیا میں نہیں آئی تھی ۔ کوئی مولانا طارق جمیل اسے اس دلدل سے نکالنے کو نہیں آیا ۔ وہ بھٹکتی پھری اندھی گلیوں کی مسافر بن گئی مگر اپنے کنگلے بہن بھائیوں کی زندگیوں میں مالی آسودگیوں اور خوشحالیوں کی روشنی بھرتی رہی ۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ پھر یہ بد نصیب لڑکی ایک سازش کا نشانہ بنی اور خود اپنے بھائی کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دی گئی ۔حالیہ دنون میں قندیل بلوچ کی ان کے بھا ئی کے ہاتھوںقتل عبرت کی علا مت ہے، تاہم پھر بھی خواتین کے تحفظ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے معاشرہ بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کر رہا۔ ” کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہر ایسے واقعے کے بعد ہر مرتبہ پاکستانی معاشرے میں صرف عورت ہی قتل ہوتی ہے، پاکستان معاشرہ اس واقعے میں ملوث مرد کو عام طور پر جواب دہ نہیں سمجھتا‘‘۔

غور کرنے کی بات ہے کہ اس ترقی یافتہ دنیا میں ہم کس درجے میں ہے، اور ہم کس جانب جارہے ہے، ہماری سوچ ابھی بھی عورت کے حجاب اور اس سے مرد کی اصلاح میں چہھی ہے۔

خدارا خواتین کے حقعو ق کے تحفظ کی ضرورت ہے، اور اس سنگین مسلے کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
shafiq ahmad dinar khan
About the Author: shafiq ahmad dinar khan Read More Articles by shafiq ahmad dinar khan: 35 Articles with 42350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.