سرمایہ داری نظام کے استحصالی ہتھکنڈوں کا شعور عام کیا جائے

آج دنیا بھر کے معاشرے چاہے ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے انسانوں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو گدھوں اور بیلوں کی طرز پہ زندگی گذارنے پہ مجبور کر دیا ہے، دینا بھر میں دو دنیا آباد ہیں ایک سرمایہ دار طبقہ کی اور دوسرے مفلوک الحال طبقہ کی، سرمایہ دار طبقہ دنیا بھر کی اکثریتی آبادی کی جسمانی اور دماغی محنت کو اپنے جدید نظام معیشت کے ڈھانچے کے ذریعے بروئے کار لاتا ہے اور اس کا خوب استحصال کرتا ہے۔ایک طرف انسانی محنت کا استحصال جاری ہے تو دوسری طرف زمینی وسائل پر کنٹرول کا عمل جاری ہے، صنعت وحرفت ہو، معدنیات ہوں یا زراعت ہر سطح پہ ایک اجارہ داری وجود میں آ چکی ہے ، سرمایہ کے بل پہ ہر طرح کے اختیار اورطاقت کے ذریعے انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو صرف چھوٹے سے طبقہ کی خو شحالی کے لئے کام پہ لگا دیا گیا ہے۔
اس وقت دنیا میں چند کمپنیوں کی اجارہ داری ہے جو کہ دنیا کے چند بڑے سرمایہ دارخاندانوں یا افراد کی ملکیت ہیں، یہ کمپنیاں خوراک، قدرتی وسائل، سائنس اور ٹیکنالوجی(سول و ملٹری) پہ مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔زمین پہ بسنے والے اکثریتی انسانوں کوبھوک و افلاس اور آب و ہوا کو آلودہ کرنے میں یہ کمپنیاں بنیادی کردار ادا کررہی ہیں۔قدرتی وسائل، جن میں صاف پانی، زراعت سے جڑے تمام شعبے، زرعی زمین پہ کنٹرول، پھلوں سبزیوں و دیگر اجناس کی پیدائش اور ترسیل تک کا مکمل کنٹرول ان کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا میں کروڑوں انسان رات کو بھوکا سوتے ہیں ۔مزدوروں اور کسانوں کایہ کمپنیاں استحصال کرتی ہیں، مختلف ہتھکنڈوں سے تیسری دنیا کے ممالک کے قدرتی وسائل اور زمینوں پہ کنٹرول کر کے، فصلوں اور پھلوں و دیگر اجناس کی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ساتھ اپنی مرضی سے مقامی مزدور و کسانوں کو استعمال میں لاتی ہیں اور انہیں غربت و افلاس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ،وہاں کے مقامی کاروبار اور صنعت کو تباہی سے دوچار کرتی ہیں اور پھر کرپٹ حکومتوں کے ساتھ مل کر لوٹ کھسوٹ کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔اور اسی طرح اسلحہ گو لہ بارود اور جنگی جہاز بنانے والی والی کمپنیاں بھی غربت و افلاس سے مارے ہوئے انسانوں کو موت کی وادیوں میں دھکیلنے اور انسانی معاشرے کو فتہ و فساد میں مبتلا کرنے کے لئے اقوام عالم کے درمیان نفرتوں کو ہوا دیتی ہیں اپنی مارکیٹ کو توسیع دیتی رہتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی دس فیصد صنعت اسلحہ بناتی ہے اور پوری دنیا میں سپلائی کرتی ہے۔اگر دنیا مین امن و آشتی ہو گی تو امریکہ معاشی طور پہ دیوالیہ ہو جائے گا۔لہذا ایک طرف اقوام کے معاشی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے ذریعے بھوک پھیلائی جا رہی ہے تو دوسری طرف جنگیں مسلط کر کے قوموں کو تباہی سے دوچار کیا جا رہا ہے۔یا دنیا بھر میں مذہب، لسانیت، قومیت کے نام پہ متشدد گروہ پیدا کر کے جنگی حالات پیدا کئے جاتے ہیں ، تاکہ ایک طرف اسلحہ انڈسٹری چلتی رہے تو دوسری طرف سیاسی مقاصد بھی حاصل کرتے رہیں۔اس وقت استحصالی سرمایہ دار طبقہ دنیا بھر کے زمینی وسائل اور ذہنی سرمائے کے استحصال کے ذریعے داد عیش دے رہا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر یہی کیفیت موجود ہے۔مثلاً’’دنیا بھر کے خوراک کے ذخائر پہ قابض دس بڑی کمپنیاں اجتماعی طور پر ایک دن میں ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالر ریونیو حاصل کرتی ہیں اور لاکھوں لوگ جو ان کی مصنوعات کی پیداوار، پیداواری عمل، تقسیم کار اور فروخت کے مراحل میں بلا واسطہ یا با لواسطہ خدمات انجام دیتے ہیں ۔ آج یہ کمپنیاں سات ارب ڈالر کی صنعت کا حصہ ہیں، اور اندازاًدس فیصد دنیا کی معیشت کی نمائندگی کرتی ہیں ‘‘ یہ اجارہ دار کمپنیاں خوراک کے وسائل ، صاف پانی کے ذخائر اور زرعی اراضی وجنگلات پہ کنٹرول کئے ہوئے ہیں اور اس طر ح سے ان کمپنیوں نے انسانوں کے لئے صاف پانی، صاف ماحول اور مناسب غذا کو نایاب بنا دیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ مزدور اور کسانوں کو غربت و فلاس کی زندگی میں دھکیل رہی ہیں۔دنیا بھر کے وسائل پہ قابض یہ کمپنیاں اپنے بے تحاشہ منافع کے لئے دنیا کے انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو غربت و افلاس میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں۔ اقوام متحدہ کے2014-2016میں خوراک و زراعت کے ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر کے سات اعشاریہ تین ارب لوگوں میں سے (سات سو پچانوے ملین) انناسی کروڑ پچاس لاکھ افراد یا 9 میں سے1 فرد دائمی غذائی کمی کا شکار ہے۔ زیادہ تر بھوکے لوگوں کا تعلق( سات سو اسی ملین) ترقی پذیر ملکوں سے ہے۔ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کی 12اعشاریہ 2 فیصد ہے یا 8 میں سے ایک فرد اس صورتحال سے دوچار ہے‘‘ ایک طرف خوراک کے وسائل پہ قبضہ اور دنیا کو بھوک کا تحفہ سرمایہ دار کمپنیوں کا کارنامہ ہے، اور دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی تمام صنعت اور اس کی مارکیٹ کو اس طرح سے کنٹرول کیا گیا ہے کہ دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصہ تمام وسائل کو قابض ہو کر لوٹ رہا ہے اور دوسرا حصہ لٹ رہا ہے، ایک حصہ سائنس کی کرامات سے مستفید ہو رہا ہے اور دوسرا حصہ فقط ان سائنسی کرامات کے حصول کے لئے مختلف مرحلوں پہ استعمال ہو رہا ہے، لیکن ان سے استفادہ کو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے جو ثمرات دنیائے انسانیت کو پہنچنے چاہئے تھے اس کی بجائے سرمایہ دار کمپنیاں اپنے مفادات کے تحت ٹیکنالوجی کو دنیا میں بیچ رہی ہیں، دنیا کو اپنا گاہک تو بنایا جا رہا ہے لیکن انہیں ٹیکنالوجی کی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رکھنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں، سائنسی تحقیقات فقط اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں،ٹیکنالوجی کو دنیا کے انسانوں کی آسانی کی بجائے اپنے سرمائے کی بڑھوتری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں مریخ پہ بستیاں بسانے کا منصوبہ سامنے آیا ہے جو کہ کمپنیوں کے اپنے مفادات کے حصول کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ ایک طرف زمین پہ کروڑوں لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، بجائے زمینی بستیوں کو خوشحال بنانے کے خلاؤں کے اندر دوسرے سیاروں پہ بستیاں بنانے کے لئے ایک خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زمین کے باسیوں کو لوٹ کر دوسرے سیاروں پہ تعمیرات کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا ئے انسانیت کا ایک بڑا حصہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کرامات سے استفادہ کی بجائے وہ اس ٹیکنا لو جی کی مدد سے ہونے والے استحصال کا شکار ہو گیا ہے۔دنیا کو توانائی کے بحران سے نکالنے کی بجائے اسے بحرانوں میں مبتلا کیا جا رہا ہے، سرمایہ داروں نے اپنے سرمایہ کے لئے کرہ زمین کے وجود کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ بے تحاشہ کیمیائی صنعتوں کے دھوئیں نے آب وہوا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔انسان بیماریوں، اور قدرتی تباہیوں کے دھانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داروں نے اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے،بقول معرف مفکرمولانا عبید اللہ سندھی کے’’سرمایہ دار لوگ اپنا تفوق جتانے کے لئے اپنی سوسائٹی علیحدہ کر لیتے ہیں یہ طریق بتدریج سرمایہ داری کے تغلب کا ذریعہ بنتا ہے ۔‘‘
آج اگر پوری دنیا کا جائزہ لیا جائے تو ایک طرف غریب اور متوسط طبقات کی بستیاں ہیں تو دوسری طرف بالا دست طبقات کے دنیا جہاں کی سہولیات سے آراستہ و پیراستہ محلات ،ان کے نقل وحمل، رہائش، کھانا پینا، نشست و برخاست ،انصاف، وغیرہ ہر چیز کو خاص اور علیحد بنا دیا گیا ہے،یہ فرق دنیا بھر میں ہر سوسائٹی میں نظر آئے گا۔ یقیناً اس وقت دنیا دو حصوں میں عملی طور پہ تقسیم ہو چکی ہے ایک مفلوک الحال استحصال زدہ انسانوں کی دنیا اور دوسری استحصال کرنے والو ں کی دنیا۔سرمایہ کے بل بوتے پر انسانوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے،دنیا کے پر تعیش علاقوں، سوسائٹیوں کے عقب میں اکثریتی مفلوک الحال طبقوں کی بستیاں اپنی محرومیوں و مایوسیوں کا مسکن بنی ہر طرح کی سہولیات سے محرومی کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔فلک بوس عمارات، شاپنگ مالز، انفراسٹرکچر، شاہراہیں تعمیر ہو چکی ہیں، مگر مزدور و کسان، دماغی محنت کرنے والے افراد زندگی اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے کولہو کا بیل بن کر رہ گئے ہیں۔انسانوں کی ایک بڑی آبادی بھوک کی وجہ سے فاقوں پہ مجبور ہے یا وہ دو وقت کی روٹی کے حصول لئے صبح و شام سرمایہ داروں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔یقیناً سائنس اورٹیکنالوجی کی ترقیات انسانی معاشرے کے لئے ناگزیر ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی پہ ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری نہ ہو اور وہ اسے دوسرے انسانوں کی پہنچ سے دور نہ رکھا جا سکے، بلکہ اس سے پوری دنیائے انسانیت مستفید ہو اور اسے استحصال کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ سائنسی ترقیات انسانوں کی عقلی وجسمانی صلاحیتوں اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر وجود میں آئی ہیں لہذا کل انسانیت کا حق ہے کہ ان سے استفادہ کریں۔

ضروت اس امر کی ہے معاشرے میں سرمایہ داری نظام کے استحصالی ہتھکنڈوں کا شعور عام کیا جائے،ملکی و بین الاقوامی سطح پہ استحصال کرنے والے اداروں کی چالوں کو سمجھنا چاہئے اور ایک ایسی قومی پالیسی تشکیل دی جانی چاہئے جس کے تحت اپنے قومی وسائل کا تحفظ ممکن ہو سکے ۔معاشرے میں انسانی حقوق کی بحالی کے لئے سب سے پہلے استحصالی اور طبقاتی نظام کو معاشرے سے ختم کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ انسانی معاشرے میں تمام انسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں برابر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہر انسان کا حق ہے کسی انسان یا گروہ یا نظام کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے یا اپنے جیسے خود غرض لوگوں کا اجتماع پیدا کر کے ان کی طاقت کے بل بوتے پر خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنے اور اپنے چند ساتھیوں کے لئے مخصوص کر کے کمزور انسانوں کو ان سے محروم کر دے۔ کیونکہ جب کسی بھی معاشرے میں طبقاتی معاشی نظام قائم ہو اور سرمایہ دار طبقہ اکثریتی انسانوں کا استحصال کرے اور انہیں بنیادی ضروریات سے محروم کر دے اور ان پر علم وہنر کے دروازے بند کر دے تو اجتماعی طور پر وہ معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136130 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More