اک لمحے کی کوتاہی۔۔۔پھرعمر بھر کا روگ

بچوں کا اغوا والدین اپنے بچوں کوکھونے سے کیسے بچا سکتے ہیں
ڈوریمون دیکھنے میں مگن قاسم کو ماہا نے جھنجھوڑ کر کہا ۔۔۔بھائی !۔۔ ماما کب سے آوازیں دے رہی ہیں اور تم ہو کہ۔۔ اتنے مصروف کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہیں دے رہی۔ اتنی دیر میں قاسم کی والدہ آئیں اور کہنے لگی جا ؤں بیٹامجھے بازار سے دہی لا دوں ،کھانا تیار ہو گیا ہے بس رائتہ بنانا باقی ہے۔قاسم بادل نخواستہ اٹھااور دہی لینے چلا گیا۔۔۔قاسم ابھی تک نہیں آیا ۔۔پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے میرا بچہ ۔۔قاسم کی والدہ نے پریشان ہوتے ہوئے اس کی بڑی بہن ماہا سے کہا ۔۔۔ان کی پریشانی اس وقت بڑھی جب قاسم کو گئے ہوئے دو گھنٹے گزر گئے۔۔۔آخر وہ کہاں گیا ؟زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟اسی کھوج میں قاسم کے والدین نے ہر جگہ معلوم کروا لیا مگر قاسم کی کوئی خبر نہ ملی،اک قیامت پورے خاندان پر گذر چکی تھی مگر اک قیامت اور ابھی منتظر تھی جب تقریبا دو ہفتے گزرنے کے بعد پولیس نے قاسم کی متعفن لاش کو دریافت کیا جس پر تشدد کے کچھ نشانات تھے جبکہ پوسٹ مارٹم سے تصدیق ہوئی کہ قاسم کی موت گلہ دبانے کی وجہ سے ہوئی۔قاسم کی والدہ کی آنکھیں ہروقت اپنے بیٹے کی یاد میں بھیگی رہتی ہیں اور اس کی بہن ماہا ہر لمحہ قاسم کی چوتھی جماعت کی کتابیں اور کاپیاں کھولے اسے یاد کرتی رہتی ہے اوراب قاسم کاپورا خاندان بس اسی بات کا منتظر ہے کہ کب پولیس قاسم کے اغوااور اس کے قتل کرنے والوں کو گرفتار کرے گی جنھوں نے ان کے ہنستے بستے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا ہے۔اور وہ اس ملزم یا ملزمان کو پھانسی پر لٹکتا دیکھنے کے بھی خواہش مند ہیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسے بہیمانہ جرم کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔بالکل اسی طرح کا ایک خوفناک واقعہ عید کے تیسرے روز وقوع پذیر ہواجب دوسری جماعت کا طالب علم عمیر عیدی ٹافیوں پر خرچ کرنے کے لیے گھر سے نکلا وہ خودتو نہ آیا مگر اس کی لاش گھر والوں کو مل گئی جو آج بھی اس کے غم میں نہال ہیں۔یہی ابتداء تھی اور آج تک کئی ماؤں کی لخت جگر اغواء کاروں کا نشانہ بنے ۔۔کچھ گھروں کو زندہ لوٹے اور چند ایک مردہ حالت میں۔۔۔اگر عمیر والے واقعہ کو سنجیدہ لیا جاتا تو بچوں کے اغواء کا معاملہ سنگین صور ت حال اختیار نہ کرتا۔اس حقیقت سے آپ بھی یقینا متفق ہو نگے کہ اگر کسی زخم کا ابتداء سے علاج نہ کیا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے بالکل اسی طرح بچوں کے اغواء کا معاملہ بھی ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اسے میں عبرت کا مقام کہوں یا بے چارگی کی انتہاء۔۔۔جو بھی ہے ۔۔۔ہے نہایت اذیت ناک۔۔۔ایک خوف کی لہر ہے جس کے سائے تمام طرف پھیلے ہوئے ہیں اور اوپر سے دل دھلا دینے والی خبریں۔۔۔ جیسے ہی ٹی وی پر بچوں کے اغواء کی خبر آتی ہے تو گھر کا ہر فرد پریشانی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور اپنے بچوں کو اغواء ہونے سے بچانے کے لیے احتیاطی تدبیریں ترتیب دینے لگتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بچوں کو اکیلے باہر نہ جانے دیں ۔۔کوئی کہتاسارے کام چھوڑ کربچوں کو اکیڈمی خود چھوڑ یں اور واپس لائیں۔۔بچوں کو دوستوں کے گھر نہ جانے دیا جائے۔۔اکیلے پارک یا گراؤنڈ میں نہ جانے دیا جائے۔۔۔بلاشبہ یہ احتیاطیں کارآمد ہیں مگردیرپا نہیں۔۔۔اس سے صرف وقتی طور پر اپنے بچوں کو محفوظ کیا جا سکے گا مگر مستقل طور پر خطرے کے سائے معصوم پھولوں کے سروں پر منڈلاتے رہیں گے۔کیونکہ ایک طرف تو بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف انتظامیہ کی طرف سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ بچے گھر وں سے ناراض ہو کر چلے جاتے ہیں۔کمال ہے ویسے۔۔۔اتنے بڑے گھناؤنے جرم کا اتنا چھوٹا سا جواب۔۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ بلاشبہ جلتا وہی ہے جس کے آنگن میں آگ لگی ہو۔۔باقی تو صرف شور وغل کر کے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔

میڈ یا رپورٹس کے مطابق پنجاب بھر میں جنوری تا جولائی تک 6 ماہ میں 652 اور صرف لاہور شہر میں 312 بچوں کو اغواء کیا گیایعنی سب سے زیادہ لاہور میں بچے اغواء ہوئے کیونکہ راولپنڈی میں 62، فیصل آبادمیں 27، ملتان میں 25اورسرگودھا میں 24 بچے اغواء ہوئے ۔لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 6 ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے 219 مقدمات پیش کئے گئے۔ راوی روڈ، داتا دربار، بھاٹی گیٹ، بادامی باغ ،فیکٹری ایریا،مغلپورہ اور باغبانپورہ میں سب سے زیادہ بچوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ صرف راوی روڈ کے علاقے میں 6ماہ کے دوران 15بچوں کو اغوا کیا گیا۔ اقبال ٹاؤن ڈویژن سے19،صدر ڈویژن سے30، ماڈل ٹاؤن ڈویژن سے 31بچے اغوا ہوئے جبکہ کینٹ ڈویژن میں سب سے زیادہ 59بچے اغوا ہوئے۔652 سے زائد اغوا ہونے والے بچوں میں سے صرف 43بچوں کو بازیاب کرایا جا سکا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے بچوں کے اغو اء کے واقعات کاازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے اوربچوں کے اغوا کی روک تھام کے لئے فوری ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ بس اڈوں، ریلوے سٹیشنوں، پارکوں اور دیگر رش والے مقامات پر اضافی نفری تعنیات کی جائے ۔سپریم کورٹ نے بھی بچوں کے اغوا ء پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 3 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو اغوا ء ہونے والے بچوں کی مکمل تحقیقات پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت عظمی نے اپنے ریما کس میں کہا ہے کہ بچوں کے اغوا ء کا معاملہ انتہائی حساس ہے، حقائق کی تہہ تک جائیں گے اور اسے صرف پولیس کی رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ،یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ والدین کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگتے ہیں۔ قا ئمقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے سپر یم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے اغوا ء کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 2015 سے لیکرجولائی 2016 تک پنجاب میں1808بچے اغوا ء ہوئے جن میں سے1093 بچوں کو بازیاب کرایا گیا چھ سالوں میں 6793 بچوں کے اغواء کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے 6654 بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا اور 139 بچے اغواء کے کیسوں میں بازیاب نہیں ہو سکے۔جبکہ مجموعی طور پر بچوں کے اغوا ء کے کیسوں میں سو میں سے 98 فیصد کی بازیابی ہوئی 2015 میں 1134 بچے اغواء اور 1093 بازیاب کرا لیے گے جبکہ 93 بچوں کی تلاش کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے پولیس کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ 2016 کے پہلے سات ماہ میں 767 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جن میں 715 کیسز تکمیل کے بعد کلوز کر دیئے گئے جبکہ صرف 52 کیسز پر تفتیش جاری ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اغواء کاروں کا نشانہ یہ معصوم بچے اور بچیاں ہی کیوں ہوتے ہیں۔موجودہ صورت حال سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کاروں کا سب سے بڑا مقصد عوام کو دہشت زدہ کرنا اور بچوں کی تعلیمی سر گرمیوں کو روکنا ہے کیونکہ جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا اختتام ہو رہا اور سکول دوبارہ کھل رہے ہیں تو یہ واقعات والدین اور بچوں کو غیر محفوظ بنا رہا ہے۔اسی طرح بچوں کے اغواء میں کئی افراد کا ذاتی مفادشامل ہے۔ مثلا جنسی ہوس کی تسکین کے لیے بچوں کو اغوا کرنا جبکہ بڑا مقصداغواکے بعد بیچنا شامل ہے یعنی انسانی تجارت کے کاروبار میں بہت سی طاقتور مافیاز ملوث ہیں۔جو بچوں کو خریدتے ہیں وہ اپنے مقاصد کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ غلام بنانے کے ساتھ ساتھ ان سے مشقت لی جاتی ہے۔نا صرف یہ بلکہ انہیں تربیت دے کر کسی قوم و ملک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیاجاتا ہے۔انسانی منڈیاں لگنے اور خریدنے اور بیچنے کا عمل صدیوں پراناہے،جس میں باقاعدہ انسانوں کی بولی لگائی جاتی تھی اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔عرب میں اونٹ ریس انہی مفادات کے حصول کی ایک کڑی ہے۔جس میں اونٹ کی پیٹھ پر 5تا10سال کی عمر کے بچے کو رسیوں سے باندھا جاتا ہے جب اونٹ سوار سخت چابک کو گھما کر بچے کو بے دردی سے پیٹتا ہے تو بچے کی چیخیں سن کر اونٹ اپنی پوری تیز رفتاری سے بھاگتا ہے ،اس ریس کو پوری دنیا سے لوگ دیکھنے آتے ہیں اور اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ بچہ جو اونٹ ریس میں استعمال ہوتا ہے وہ کون ہے۔۔یہ بات تو واضح ہے کہ یہ بچہ اونٹ سوار کا تو کیابلکہ اس پورے مجمع میں سے کسی کا بھی نہیں ہو سکتا تو ثابت ہوا یہ وہی بچے ہیں جو اغوا کیے جاتے ہیں اسی طرح پاکستان میں بچوں کو اغوا ء کر کے ،انہیں معذور بنا کر چوکوں پر بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ چوری ،ڈاکہ زنی کی تربیت بھی دی جاتی ہے پھر منشیات اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔اونٹ ریس کی طرح اس کی بھی ایک تلخ اور افسوسناک حقیقت ہے وہ یہ کہ اغواشدہ بچوں کی ٹانگوں کے گھٹنوں اور بازوؤں کو کہنیوں سمیت چارپائیوں کو بننے والے بان یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے،روزانہ ان پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں روز مزید کستا چلا جاتا ہے،اس طرح دو ہفتوں کے اندر ہی بازو اور ٹانگیں دوبارہ سیدھی نہیں ہو سکتیں اورپھر اسے بڑے بڑے مالز ،شاپنگ پلازوں ،شاہراؤں اور بازاروں میں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔اسی طرح بچوں کے اغواء کی ایک بڑی وجہ تاوان کا حصول بھی ہے جس میں اغوا کرنے والے مغوی کی رہائی کے بدلے بھاری رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس میں اغواء کار عام طور پر کسی مالدار آسامی کا شکار کرتے ہیں۔عوام کی اکثریت اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ایسے واقعات صرف دوسروں کے بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں ، ان کے بچے محفوظ ہیں۔حادثہ بتا کر نہیں آتا اور نہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ بچہ کس کا ہے۔ حادثہ اچانک رونما ہوتا ہے اور زندگی بھر کا دْکھ دے جاتا ہے۔ پھر پچھتاوئے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کاش اپنی بچی کو تقریب میں اکیلے نہیں جانے دیا ہوتا، کاش بچے کو دودھ لینے نہیں بھیجا ہوتا، کاش شاپنگ کرتے وقت بچے کا ہاتھ نہیں چھوڑا ہوتا، کاش ! کاش !

اب وقت آ گیا ہے کہ بچوں کے ا غواکے معاملے سے نمٹنے کے لیے والدین، اساتذہ،پڑوسیوں اور رشتے داروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اورآس پاس بسنے والے تمام مشکوک افراد کے بارے میں آگاہ رہنا چاہیے ، تمام ذمہ داری پولیس اور اداروں پر ڈالنا اور اپنے حصے کی ذمے داری ادا نہ کرنا کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔بچوں کو اکیلا بازار نہ بھیجا جائے،کیونکہ بچے اغواء صرف وہی کر سکتا ہے یا کروا سکتا ہے جن پر بھروسا ہو تا ہے مثلا ہمسایے،دوست اور رشتے دار وغیرہ۔بچے کے کسی ایسے ہم جماعت کو ساتھی بنا دیں جو آپ کے پڑوس میں رہتا ہو، بچے کے کلاس انچارج کے ساتھ خصوصی رابطہ رکھیں۔ اگر بچے کو اسکول سے چھٹی کرنی ہے تو اس کی باقاعدہ فون پر یا بذریعہ درخواست کلاس انچارج کو ضرور اطلاع کریں۔ یہ بات بھی خصوصی طور پر اور باقاعدہ ایک انتہائی سنجیدہ معاہدہ کے تحت طے کر لیں کہ اگر بچہ اسکول گیٹ بند ہونے تک اسکول نہ پہنچے تو کلاس انچارج آپ کو گھر پر بغیر کسی تاخیر کے اطلاع دے، تاکہ کسی غیرمتوقع واقعے کی صورت میں آپ فورا کچھ کر سکیں۔ گھر اور اسکول آنے جانے کے کئی راستے ہوتے ہیں۔ آپ بچوں کو پابند کر دیں کہ وہ اپنا روٹ طے کر لیں جس کا سب کو علم ہو۔ کسی ایمرجنسی میں سب سے پہلے وہی روٹ چیک کریں، اسکول سے واپسی کے وقت سے بچہ اگر 1منٹ بھی لیٹ ہوتا ہے تو سب کام چھوڑ کر فورا مقررہ روٹ سے ہوتے ہوئے اس کی تلاش میں لگ جائیں. بچے کے خاص دوستوں کے بارے میں مختصر لیکن ضروری معلومات آپ کے پاس ہر صورت موجود بلکہ کسی ڈائری میں درج ہوں: مثلا دوست کا نام، گھر کا مکمل ایڈریس، فون، والد کا نام، دفتر یا کاروبار کا پتہ، عہدہ، فون، موبائل وغیرہ، کسی ناگہانی صورت میں آپ کے متوقع مددگار اور قریبی رشتے داروں کی لسٹ بھی آپ کے پاس تحریری صورت میں گھر میں کسی عام جگہ پر دستیاب ہونی چاہیے۔ بچے کو صرف اسی دوست کے گھر جانے کی اجازت ہو جس گھر کے ہر فردکے بارے میں آپ مطمئن ہوں۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ گھر والے ضرورت کی چیزیں قسطوں میں منگوانے کے عادی ہوتے ہیں. یاد رکھیں، جتنی مرتبہ آپ بچے کو باہر بھیجیں گے غیر متوقع صورتحال کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ اس لیے بچے کو بار بار بازار بھیجنے سے گریز کریں۔پارک میں چونکہ ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ وہاں آپ کا بچہ آپ کی یا کسی دوسرے بڑے کی ہمراہی میں جائے، اور مغرب ہونے سے پہلے پہلے ہر صورت واپس آ جائے۔ بچے کو پارک میں خواہ مخواہ دوستیاں نہ بنانے دیں۔ہماری ایک خامی یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو بتایا ہی نہیں ہوتا کہ لوگ بچوں کو کس طریقے سے اغوا کرتے ہیں اور اغوا ہونے سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ یعنی آج کل کے حالات بچوں کے ساتھ ڈسکس کرنے سے بھی بچوں کے اغوا کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے بلکہ حالات اور اردگرد سے لاعلمی ہی بچوں کے اغوا کی بڑی وجہ بنتی ہے ان ہدایات پر اگر تمام والدین عمل کرنا شروع کر دیں تو ان شاء اﷲ بچوں کے اغوا اور تشدد وغیرہ جیسی صورت حال سے بچا جاسکتا ہے۔

بچوں کا اغوا۔۔۔پولیس اور عوام
اغواء ایک مجرمانہ فعل ہے ، جس سے مر اد کسی بھی انسان کو زبردستی کہیں لے جانا ، قید میں رکھنا ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر(3)11 کے مطابق ریاست چودہ برس سے کم عمر کے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے اوراگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ ہماری پولیس اس کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پولیس اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس معاملے کو عام سمجھ رہی ہے ،شہریوں کا اس حوالے سے کہا ہے کہ پہلے تو پولیس اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ بچے اغوا ہو رہے ہیں اور جب کوئی بچہ بازیاب کروا لیتی ہے تو اس کے والدین سے کہا جاتا ہے کہ یہ لکھ کر دے جائیں کہ ہمارا بچہ اغوا نہیں ہو ا بلکہ وہ ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا تھا ۔۔اس واقعہ کے پش نظر کئی ایک جگہوں پر مغوی کے گھر والے اور اہل محلہ و رشتے دار پولیس کے خلاف ہڑتال کرتے بھی دکھائی دئیے جن میں بھاٹی چوک اور بادامی باغ کا علاقہ شامل ہے،یہ تو سمجھ میں آتا کہ بچہ گھر سے گیا تھا اور اغوا ہو گیا توپولیس کا موقف مانا بھی جا سکتا ہے مگر ایک بچہ اپنے باپ کے ساتھ بائیک پر بیٹھا تھا کہ باپ رک کردکان سے سودا لینے کے لیے بائیک سے اترا اور اسی لمحے اس کا بچہ غائب۔۔۔اور جب ننھی جنت اپنی ماں کے ہمراہ انار کلی میں شاپنگ کے لیے آئی تو اغوا ہو گئی۔۔۔اسی طرح واپڈا ٹاؤن سے اغوا ہونے والی15سالہ ارفع کو پٹرولنگ پولیس کوڑے سیال نے بازیاب کروا یا اور اغوا کار فخر حیات کو پولیس کے حوالے کیا۔۔۔اسی طرح باغبانپورہ کے علاقہ داروغہ والا سے بچی کو اغوا کرنے کی کوشش کے دوران شہریوں نے ملزم محسن کو پکڑ کر بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس کے خلاف احتجاج کے دوران ٹریفک بلاک کر دی اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔۔اورلاہور میں 8 سالہ گونگے اور بہرے لڑکے کوہاتھ پاؤں باندھ کرنامعلوم ڈرائیور رکشے میں لے کر جارہا تھا کہ وارڈن نے روک لیا، ڈرائیور موقع سے بھاگ نکلا جبکہ وارڈن نے بچہ پولیس کے حوالے کردیا۔۔۔۔یہ تمام واقعات ہیں جو رونما ہوئے ہیں اور پولیس ان تمام واقعات سے با خوبی واقف ہے مگر نا جانے ’میں نا مانوگا ‘کی گردان کیوں دہرانے میں لگی ہے۔۔۔یقینا پولیس کا یہ رویہ عوام کے لیے جہاں تشویش کا باعث ہے وہیں عوام کو پریشانی میں مبتلا بھی کئے ہوئے ہے کہ آخر ایسی کون سے وجوہ ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قسم کا رویہ اپنا کر بچوں کے اغوا کے معاملے کو غیر سنجیدہ کیوں سمجھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس والدین کو دکھ اور خوف میں مبتلاتو کر رہی ہے مگرشہریوں کے دل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف غم و غصہ بھی بڑھ رہا ہے۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 69 Articles with 82971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.