وادیٔ کیلاش……پس منظر اور پیش منظر - تیسری قسط

عورت کو یہ لوگ نجس اور ناپاک خیال کرتے ہیں اور ان کا معبد میں بھی داخلہ ممنوع ہے ، چنانچہ اگر کوئی عورت بھولے سے یا قصداً معبد کے اندر چلی جائے تو ان کے خیال میں وہ عبادت گاہ ناپاک ہوجاتی ہے اور پھر وہاں کوئی نہ کوئی مصیبت آپڑتی ہے۔اسی طرح اگر کوئی عورت شہد کا چھتہ دیکھ لے تو اس پر اس چھتے کا شہد کھانا حرام ہوجاتا ہے اور اب وہ کسی ایسے چھتے کا شہد کھا سکتی ہے جسے اس نے دیکھا نہ ہو ، ان کے مذہب میں عورت گلاس میں پانی بھی نہیں پی سکتی ، بلکہ وہ ہمیشہ پیالے میں ہی پانی پیتی ہے، جب کہ ان کے مردوں پر اس قسم کی کوئی پابندیاں نہیں ہیں اور وہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہیں ۔

جمعہ کا دن ان کے یہاں بہت متبرک سمجھا جاتا ہے ، جسے یہ لوگ ’’اگر‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ، ’’اگر‘‘ والے دن یہ لوگ کوئی کام نہیں کرتے ، بس آرام کرتے ہیں ، نوجوان لڑکے رقص و سرور کی محفلیں گرماتے ہیں اور شام کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ، 20 کا ہندسہ ان کے یہاں قابل تعظیم ہندسہ گردانا جاتا ہے ۔

ان کے یہاں زکوٰۃ دینے کا بھی رواج پایا جاتا ہے ، چنانچہ اگر کسی شخص کے پاس 60 سے زیادہ بکریاں ہوں تو یہ اضافی ساری بکریاں وہ شخص ذبح کرتا ہے اور پھر ان کا گوشت اپنے اڑوس پڑوس کے لوگوں میں تقسیم کرتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں گھی اور چاول بھی بھجواتا ہے ، نیز ان میں سے ایک بکری ’’ملوش دیوتا ‘‘ کے نام بھی نذر کی جاتی ہے۔

ان کے یہاں جب چاند یا سورج گرہن ہوجائیں تو یہ تمام لوگ مل کر طبل اور گھنٹے بجاتے ہیں ، گویا اس طرح یہ لوگ بزعم خویش سورج اور چاند پر سے گرہن کے منحوس اثرات کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے خیال کے مطابق گرہن کے وقت سورج یا چاند مشکل میں گرفتار ہوجاتے ہیں جن کی یہ لوگ ڈھول بجاکر مدد کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں سورج اور چاند ان کو ہرقسم کے مصائب و آلام سے محفوظ رکھ سکیں ۔ان میں سے کچھ لوگوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ کوئی شیر چاند یا سورج کو کھانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جسے شور مچاکر یہ لوگ بھگا دیتے ہیں ۔ پہلی رات کا چاند دیکھ کر یہ لوگ دودھ اور چاندنی کو دیکھتے ہیں۔

قوس و قزح کے متعلق ان کا خیال یہ ہے کہ جہاں اس کے سرے اُفق کو چھوتے ہیں وہاں ضرور کوئی نہ کوئی خوف ناک جنگ لازمی ہوگی ۔ نجوم پر ان لوگوں کا عقیدہ انتہائی پختہ اور مضبوط ہے۔ان کے یہاں جب کبھی زلزلہ آجائے تو یہ لوگ بھاگ کر اپنے اپنے گھروں میں جاکر چھپ جاتے ہیں اور آگ لگاکر اس پر خشک آٹا چھڑکتے ہیں ، ان کے خیال کے مطابق یہ زلزلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ان کے دیوتاؤں کا ان پر قہر ہوتا ہے ، جسے ختم کرنے کے لئے وہ لوگ یہ رسم ادا کرتے ہیں ۔ ان کے عقیدے کے مطابق دوزخ کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ یہ دنیا اور بعد از دنیا جنت ہی جنت ہے۔

مارچ اپریل اور مئی کے مہینے میں اگر ان کے یہاں کسی کی موت واقع ہوجائے تو وہ اسے بہت مقدس گردانتے ہیں ، اس لئے کہ ان کے مذہب میں یہ تینوں مہینے انتہائی متبرک خیال کیے جاتے ہیں۔

ان کی عبادت گاہ درختوں کے جھنڈ میں ہوتی ہے ، جسے ’’ملوش‘‘ کہا جاتا ہے ، وہاں جاکر یہ لوگ اپنی عبادت کرتے ہیں ، قربانی بھی کرتے ہیں تاہم عبادت خانے میں عورتوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے ، اس لئے کہ ان کے مذہب میں عورت ناپاک اور نجس تصور کی جاتی ہے۔

سردیوں کے موسم میں جب برف باری اپنے زوروں پر ہوتی ہے تو یہ لوگ اس ہال کو ایک رقص گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اور موسم گرما کے لئے ایک اور جگہ مخصوص ہے جسے ’’چار سو‘‘ کہتے ہیں ، وہاں دیواروں پر بکروں کے سینگ لٹکے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان گھوڑے کے سر کا ایک عظیم مجسمہ ہوتا ہے جو ایک چبوترے پر رکھا ہوتا ہے ، وہاں آنے والا ہر ایک شخص اپنے ساتھ دیوار کی لکڑی کی ایک شاخ ضرور لاتا ہے اور پھر حال کے وسط میں جلتی ہوئی آگ میں اسے پھینک کر محو رقص ہوجاتا ہے ، اس جگہ ہر وقت ایک ’’پروہت‘‘ ضرور موجود رہتا ہے جو وہاں اپنی حفاظتی ڈیوٹی دیتا رہتا ہے۔

زندگی اور موت کے بارے میں ان کا لوگوں نظریہ یہ ہے کہ جب تک سانس ہے تب تک آس ہے ، یہ لوگ اپنی زندگی کو بوجھل نہیں ہونے دیتے بلکہ ہنستے کھیلتے اسے گزار دیتے ہیں ، ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہر ایک چیز سے جتنا ہوسکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور یہ مختصر سی زندگی بھر پور طریقہ سے گزاری جائے ، موت ان کے نزدیک ایک راہِ نجات ہے ، اور یہ شراب کا وہ آخری جام ہے کہ جس کا سرور دائمی دہتا ہے۔

ان کی اپنی ایک الگ زبان ہے جس میں فارسی ، ہندی ، سنسکرت ، اور یونانی زبان کی قدرے آمیزش ہوتی ہے۔

کیلاش مذہب کے لوگ بد روحوں پر یقین رکھتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ بد روحیں اس دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں اور ان کا کوئی مستقل ٹھکانا نہیں ہوتا اور وہ زندہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں ۔ چنانچہ ان بد روحوں سے بچنے کی مختلف تدابیر وقتاً فوقتاً یہ لوگ کرتے ہی رہتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ بکرے کی قربانی بھی دیتے ہیں ، اور کبھی کبھی ’’ملوش‘‘ سے اپنے مذہبی پیشواؤں کو اپنے گھر بلاکر عبادت بھی کروالیتے ہیں ، اور اس سب کا مقصد یہ ہوتا ہے تاکہ ہم لوگ ان بدروحوں کے قہر سے بچ جائیں۔

کیلاش قوم کے مذہبی پیشوا کو ان کی مقامی زبان میں ’’تولک‘‘ کہا جاتاہے ، یہ معمولی قسم کا لباس پہنتا ہے ، ڈاڑھی مونچھ اس کی بالکل صاف ہوتی ہے ، شکل و شباہت میں عام لوگوں کی طرح ہوتا ہے ، اور اسے پوری وادیٔ کیلاش کا مذہبی پیشوا تسلیم کیا جاتا ہے ۔ کیلاش قوم کے نظریئے کے مطابق چوں کہ یہ انتہائی سخت قسم کی ریاضت کرتا ہے ، بے انتہا عبادت کرتا ہے ، اس لئے سال میں ایک بار یہ لوگ اس ’’تولک‘‘ کے اعزاز میں جشن مناتے ہیں اور وہ اس طرح کہ دیو دار کے درخت کی ٹہنیاں جلائی جاتی ہیں جن کے دھوئیں میں وہ ’’تولک‘‘ رقص کرتا ہے اور رقص کے دوران اس پر غشی طاری ہوجاتی ہے ، گویا وہ عالم رؤیا میں چلا جاتا ہے اور اس عالم میں جاکر وہاں سے غیب کی خبریں نکال کر لاتا ہے کہ بارش کب اور کیسے ہوگی ، فصل کیسی ہوگی ، لوگ تندرست رہیں گے یا کوئی بیماری ان پر حملہ آور ہوگی ، بچے کیسے ہوں گے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ چناں چہ یہ لوگ اس کی بتلائی ہوئی تمام پیشن گوئیوں کو یاد کرلیتے ہیں اور اسی کی روشنی میں اپنا مستقبل ترتیب دیتے رہتے ہیں۔
(جاری ہے ……)
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 254064 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.