دو نئے دوستوں سے ایک پرانا ساتھی بہتر ہے

 ہندوستان امریکہ کی گود میں کیا بیٹھا کہ ہندوستان کی بدلتی نظروں کو اسکے پرانے اور پر اعتماد اسٹرٹیجک ساتھی روس کو بھی جس نے ہر جائز نا جائز معاملے میں اس کی مدد و حمایت جاری رکھتے ہوئے اس کی من مرضی کے پیشِ نظرپاکستان کو دولخت کرنے میں ذرا بھی دیر نہ تھی۔ یہ احساس ہو چلا ہے کہ اب ہندوستاں وفاداری کی حدوں سے نکلا چاہتا ہے اور اب نئے دوستوں میں اُس نے امریکہ کا انتخاب کر کے در اصل روسی قیادت کو بھی ایک طرح کے صدمے سے بہر حال دوچار کر کے اپنے بے وفا ہونے کا ثبوت بھی خود ہی فراہم کر دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی ہندوستان سے بدلہ لینے کی بجائے روس کی تخریب میں طالبان کی مدد سے امریکہ کے ساتھ مل کر بھر پور کردار ادا کرنے کہ بعد ان کو بھی یہ احساس ہو چلا ہے کہ روس کی ہمارے خلاف اور ہماری روس کے خلاف حکمتِ عملیوں نے دونوں ممالک کو دنیا میں ایک دوسرے سے دور رکھا۔ بلکہ دونوں کو ان کی نفرت کی پالیسیوں نے نقصانات سے بھی ہمکنار رکھا۔

ماضی کی ہندوستانی حکومت کے سابق وزیرِاعظم امریکہ مخالفت میں اس قدر آگے تھے کہ اپنے ایک بیان میں امریکہ پر یہ الزام لگا رہے تھے کہ’’ امریکہ ہندوستان کے خلاف پاکستان کی پشت پناہی کرتا ہے‘‘مگر ماضی کی پالیسیوں کے برعکس آج کی ہندوستان کی مودی حکومت مکمل طور پر اپنے ماضی کے تزویراتی پارٹنر روس کے ساتھ بے وفائی کرکے مکمل طور پر امریکی حلقہِ اثر میں آنے کوہے ۔باوجود روسیوں کو جُل دینے کی بھر پور جدو جہد کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہ عشق کا رشتہ در اصل پاکستان اور چین دونوں ملکوں کے خلاف ہندوستان پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔

اس حقیقت سے کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے دہشت گردوں کو اپنے ایک خاص اسٹائل سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔جس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ ہندوستان کا مشرقی پاکستان میں بنگالی دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کا استعمال تھا۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں ہندوستان اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کئی بلوچ دہشت گرد تنظیموں کو اپنے حاضر سروس ایجنٹوں کلبھوشن اور دوسرے دہشت گرد ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل تخریبی سر گر میوں میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ہندوستان کی ان دہشت گردیوں کے مکمل شواہد بھی پاکستان ساری دنیا کے سامنے رکھتا چلا آرہا ہے۔مگر اس کے باوجود یورپ اس کو دہشت گردی میں ملوث ملک کہنے سے خوزدہ ہے۔

روسی قیادت کو ہندوستان کے بدلتے ہوئے پینترے شائد ابھی پورے طور پر آشکارا نہیں ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روس ہندوستان و امریکہ تعلقات کے تحفظات کے باوجود ہندوستان کی ریاست گوا میں جاری برکس کانفرنس کے موقعے پر 16 معاہدوں پر ہندوستان سے تعاون کے ضمن میں دستخط کرچکا ہے۔جس کے تحت روس سے ہندوستان مہلک ترین میزائل نظام خرے گا۔مشترکہ ہیلی کوپٹرسازی کی جائے گی۔ جس کے تحت 200فوجی ہیلی کاپٹرز ہندوستان میں ہی روس کے ساتھ مل کر تیار کئے جائیں گے۔5 ، ارب ڈالر کا دفاعی میزائل لنظام پاکستان اور چین کی سرحدوں کے ساتھ نصب کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جنوبی ہندوستان میں مزید ایٹمی پلانٹس روس نصب کرے گا۔اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں اسٹلتھ گائڈڈ میزائیلوں سے لیس 4عدد بحری جنگی جہازبھی ہندوستان میں تیار کئے جائیں گے۔

روس کے پاکستان کے ساتھ پیدا ہونے والے تعلقات پر بھی ہندوستان کو نہ جانئے کس بات کی پریشانی ہے ۔کہ روسی صدر کے ساتھ اپنی گوا میں مشترکہ کا نفرنس میں مسٹر مودی روسی قیادت کو اپنے امریکہ سے تعلقات پر پردہ ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’دو نئے دوستوں سے ایک پرانا ساتھی بہتر‘‘یہ بات کہہ کر مودی معلوم نہیں کس کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ پھر روس کی خوشامد میں مودی رُطب اللسان ہوئے اور فرمایا کہ میں آپکی ہندستان پر خاص عنایت کا معترف ہوں۔مزید خوشامدکرتے ہوئے مودی کہتے ہیں کہ ہمارے ذاتی تعلقات میں آپکی زاتی دلچسپی قوت کا سرچشمہ ہے۔پیچیدہ اور بدلتے ہوئے عالمی حالات میں آپ کی قیادت نے ہماری پارٹنر شپ کی قوت کو اور استحکام بخشا ہے۔مودی کی تقریر کے جواب میں روس کے صدر پویٹن کا کہنا تھا کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان صنعتی تعلقات کے علاوہ فوجی اور تیکنیکی تعلقات کو بھی بہتر بنا رہے ہیں۔

ہندستان کے سیکریٹری خارجہ جے شنکرسے جب امیڈیا کے لوگوں نے پاک روس فوجی مشقوں پر سوال کیا تو موصوف نے بات کو بدلتے ہوئے سوال کا خاطر خواہ جواب ہی نہیں دیا۔دوسری جانب ہندوستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ مودی نے روسی صدر سے پاکستان اور روس کی جنگی مشقوں پر بھی سوال اٹھایا تھا۔ اس وقت روس کے لئے بھی یہ بڑا امتحان ہے کہ وہ ہندوستان کو اپنے کیمپ میں رکھ سکے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور فوجی مشقوں سے ہندوستان کے خدشات کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ روس کے ایک سینئر اہلکار نے جوروسی صدر ولاد یمنپوٹین کے ایک قریبی دوست ہیں نے کہا ہے کہ پاکستان سے فوجی ساز وسامان کی فروخت کی کوئی بات چیت نہیں کی گئی ہے۔اور حا ل ہی میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی مشقیں ہندوستان کے خلاف نہیں تھیں،بلکہ یہ مشقیں دہشت گردی کے خلاف تھیں۔روس نے کچھ ہیلی کاپٹر پاکستان کو دیئے ہیں ،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی تک پاکستان کو فوجی سازو سامان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی مذاکرات نہیں کئے گئے ہیں۔

اس وقت نرندر مودی دو کشتیوں کی بیک وقت سواری کے مزے لے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کو یکہ و تنہا کر دیاجائے۔امریکہ پاکستان کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے تو استعمال کرتا رہا ہے مگر اس نے کبھی بھی پاکستان کے مفادات کوکسی بھی معاملے میں فیور نہیں دیا ،بلکہ ہندو پاکستان کے حوالے سے اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے ہمیشہ ہندوستان کو ہی فیور کیا ہے۔چاہے ایٹمی امور ہوں یا مسئلہِ کشمیر یا کوئی اور معاملہ۔ہندوستان کو امریکہ کی بھر پور حمایت ملتی رہی ہے۔ایک جانب ہندوستان اامریکہ سے تعلقات کو بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب روسیوں کو درس دے رہا ہے کہ’’ دو نئے دوستوں سے ایک پرانا دوست بہتر ہے‘‘روسی حکومت کو اس ضمن میں جلد ہی فیصلہ کر لینا چاہئے ۔اس سے پہلے کہ پانی سر سے گذر جائے!
 
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 187224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.