اقوام متحدہ کمیٹی، ایوان بالااورایوان زیریں کی قراردادیں

اس تحریرمیں ہم تین ایوانوں سے منظورہونے والی تین اہم قراردادوں کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں۔تینوں قراردادوں کی اپنی جگہ خاص اہمیت ہے۔قراردادیں پیش کرنے ،منظورکرنے پھران پرعمل کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔تحریک پاکستان کاآغازبھی ایک قراردادپیش کرنے اس کو منظور کرنے سے ہی ہوا۔جس کوپہلے قراردادلاہوربعدازاں قراردادپاکستان کہا گیا۔جس دن قراردادپاکستان منظورہوئی ۔پاکستانی قومی اس دن کویوم پاکستان کے نام سے مناتی ہے۔اب تین ایوانوں سے منظورہونے والی تین الگ الگ قراردادوں کی طرف آتے ہیں۔ان قراردادوں میں پہلی قراردادوہ ہے جواقوام متحدہ کمیٹی میں منظورہوئی۔یہ قراردادپاکستان نے پیش کی تھی۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حق خودارادیت کوبنیادی انسانی حق تسلیم کرنے پاکستانی قراردادمتفقہ طورپرمنظورکرلی۔جنرل اسمبلی کی سماجی، انسانی اورثقافتی امورسے متعلقہ ۳۹۱ رکنی کمیٹی میں پاکستان کی ۲۷ رکن ممالک کی حمایت سے پیش کردہ قراردادکی رائے شماری کی نوبت آنے سے قبل ہی متفقہ منظوری دے دی گئی۔قراردادکے مطابق حق خودارادیت پرعالمی سطح پرعملدرآمد،انسانی حقوق پرعملدرآمداوران کے موثرضمانت کیلئے بنیادی شرط ہے۔یہ قراردادمنظوری کیلئے آئندہ ماہ جنرل اسمبلی میں پیش کی جائے گی ۔ قراردادمیں جنرل اسمبلی کی طرف سے غیرملکی فوجی مداخلت، جارحیت اورقبضے کی سخت مخالفت کے عزم کااظہارکیاگیا۔کیونکہ یہ اقدامات دنیاکے بعض حصوں میں لوگوں کے حق خودارادیت کودبانے اوردیگربنیادی حقوق سے انکارکاباعث بنتے ہیں۔قراردادمیں ذمہ دارممالک سے غیرملکی سرزمین پرقبضے اور فوجی مداخلت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ، جبر، امتیاز، استحصال اور بدسلوکی کے تمام اقدامات بندکرنے کامطالبہ بھی کیاگیا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹرملیحہ لودھی نے قراردادکامسودہ کمیٹی کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ حق خودارادیت اقوم متحدہ چارٹراوربین الاقوامی قانون کابنیادی اصول ہے۔یہ قراردادابھی اقوم متحدہ کمیٹی میں منظورہوئی ہے۔ جنرل اسمبلی میں اس کی منظوری ہوناباقی ہے۔حق خودارادیت کے حوالے سے ایک قرارداداس سے پہلے بھی اقوام متحدہ میں منظورہوچکی ہے۔جس میں بھارت کوکہاگیا ہے کہ وہ کشمیریوں کوحق خودارادیت دے۔بھارت اپنی ہی پیش کردہ قراردادمنظورہونے کے بعد اس پرعملدرآمدکرنے سے مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہاہے۔ہرگزرتے دن کے ساتھ کشمیرمیں اس کے ظلم وستم میں اضافہ ہورہا ہے۔اقوام متحدہ میں یہ قراردادمنظورتوہوگئی۔ یہ قراردادمنظورہونے سے اقوام متحدہ نے سمجھ لیاہے کہ اس کی ذمہ داری پوری ہوگئی۔اقوام متحدہ کی منظورکردہ قرارداد پر عملدرآمد نہ کرنے اورکشمیرمیں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کبھی بھارت سے جواب طلبی نہیں کی گئی۔ چاہیے تویہ تھا کہ اس سے بازپرس کی جاتی ، اقوام متحدہ کی قراردادپرعمل نہ کرنے پرسزاکی صورت میں اس پرپابندیاں لگائی جاتیں بین الاقوامی مارکیٹوں اورمالیاتی اداروں کے دروازے اس پربندکیے جاتے اس کے برعکس امریکہ میں بھارت کوخصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ امریکہ اکثرشعبوں میں بھارتی کام کرتے ہیں۔اقوام متحدہ ابھی تک اپنی ہی منظورکردہ قرارد پر عمل نہیں کراسکی۔اگراسی قراردادمیں پاکستان سے وہی کہاجاتاجوبھارت سے کہا گیا ہے اورپاکستان بھی بھارت جیسا رویہ اپناتا توپاکستان پردنیاکے تمام دروازے بندہوچکے ہوتے۔جہاں تک ۲۷ ممالک کی حمایت سے اقوام متحدہ کمیٹی میں منظورشدہ اس قراردادکاتعلق ہے تویہ قرارتمام ایسی طاقتوں کے خلاف ہے جوطاقت کے بل بوتے پردنیامیں اپناتسلط قائم کرنے کی ناکام کوششیں کررہی ہیں۔قراردادمیں جنرل اسمبلی کی طرف سے غیرملکی فوجی مداخلت، جارحیت اورقبضے کی سخت مذمت کے عزم کااظہارکیاگیا۔اب یہ بات کوئی رازنہیں ہے کہ کس کس ملک نے کس کس ملک میں فوجی مداخلت کررکھی ہے،کس کس ملک نے کس کس ملک پرکسی نہ کسی صورت میں قبضہ کیاہواہے اورکس کس ملک نے کہاں کہاں جارحیت کررکھی ہے۔یہ جارحیت،مداخلت اورقبضے بھی مختلف ناموں اورمختلف جوازکے ساتھ کیے گئے ہیں۔امریکہ نے پہلے افغانستان ،عراق اب شام میں جارحیت کررکھی ہے۔ افغانستان اورعراق میں اسے ناکامی کاسامناکرناپڑا۔افغانستان پرجارحیت کاجوازاورتھا اورعراق میں اور جبکہ شام میں مداخلت کاجوازاورہے۔مصر، تیونس اوردیگرممالک میں بھی امریکہ کی مداخلت کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔اپنے مفادات اورعزائم کے مطابق کہیں یہ جمہوریت کی حمایت کرتا ہے توکہیں یہ فوجی حکومتوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔امریکہ نے ایران پربھی جوہری توانائی پرکام کرنے کی پاداش میں پابندیوں کی صورت میں جارحیت جاری رکھی ۔ پھرایران کے ساتھ معاہدہ کی صورت میں اسے شکست کاسامناکرناپڑا۔پاکستان پربھی ڈرون حملوں کی صورت میں امریکہ جارحیت ایک عشرہ تک جاری رہی۔پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں بے گناہ پاکستانی شہیدہوئے۔رات کی تاریکی میں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے کمسن طلباء کوڈرون حملہ کرکے شہید کیا گیا۔ان ڈروں حملوں میں پچانوے فیصدکے قریب بے گناہ پاکستانی شہیدہوئے۔اب اگرچہ پاکستان میں ڈرون حملوں کاسلسلہ رک گیا ہے۔ پھربھی ابھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ پاکستان میں ڈرون حملے رک گئے ہیں۔اسرائیل نے فلسطین پرجارحیت کررکھی ہے۔فلسطین کی سرزمین پراس نے قبضہ کررکھا ہے۔ فلسطینیوں پراس کے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔وہ فلسطین کی سرزمین پریہودی بستیاں بنائے جارہا ہے۔اب اس نے اپنی بربریت میں اضافہ کرتے ہوئے اذان پرپابندی لگادی ہے۔اس پرعمل بھی شروع ہوچکا ہے۔افسوس تواس بات کا ہے کہ عالم اسلام اوراوآئی سی میں سے کسی کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل کی طرف سے اذان پرپابندی کی مذمت ہی کردے۔کشمیرپربھارت کی جارحیت کااحوال آپ اس تحریر میں پہلے ہی پڑھ چکے ہیں ۔ قراردادمیں ذمہ دارممالک سے غیرملکی سرزمین پرقبضے اورفوجی مداخلت فوری ختم کرنے کے ساتھ ساتھ جبر، امتیاز،استحصال اوربدسلوکی کے تمام اقدامات بندکرنے کامطالبہ بھی کیاگیا۔یہ قرارداداوراس قراردادمیں یہ مطالبہ وقت کی ضرورت ہیں جبکہ اس پرعمل ہونامشکلات میں سے ہے۔یہ مطالبہ کمزورممالک نہیں عالمی طاقتوں سے کیاگیا ہے۔یہ سب کچھ ان عالمی طاقتوں نے کررکھا ہے یاان کی پشت پناہی سے دوسرے ممالک نے کیاہواہے۔جوممالک یہ قبضے اورجارحیت ختم کرنے کے ذمہ دارہیں وہی اس میں ملوث ہیں۔امریکہ نے کہاں کہاں فوجی مداخلت کررکھی ہے یہ تفصیل سب کومعلوم ہے۔جوخوداس میں ملوث ہووہ اس کوکیسے ختم کرنے کی طرف آئے گا۔رہی بات اقوام متحدہ کی۔ اس میں وہی ہوتا ہے جوامریکہ چاہتا ہے۔اس قراردادپرعمل ہونے کی نوبت توشایدہی آئے۔البتہ جن ۲۷ ممالک نے پاکستان کی اس قراردادکی حمایت کی ہے وہی ممالک ایسے تمام ممالک کابائیکاٹ ہی کردیں کہ نہ تویہ ممالک، جارحیت، فوجی مداخلت اورقبضے میں مرتکب ممالک کے ساتھ لین دین کریں نہ ان کے ملکوں کے دورے کریں نہ ان کے ساتھ تجارت کریں ، ان کاتجارتی اورسوشل بائیکاٹ ہی کردیں توان ممالک کواپنی اوقات یادآجائے گی۔دوسری قراردادسینیٹ میں منظورکی گئی ہے۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ پاکستان کے ایوان بالانے مکہ مکرمہ پرمیزائل حملے کے خلاف قرارداداتفاق رائے سے منظورکرتے ہوئے اس حملے کی شدیدمذمت کی ہے اورسعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کااظہارکیاہے۔اجلاس میں قائدایوان سینیٹرراجہ ظفرالحق نے قراردادپیش کرنے کیلئے قواعد معطل کرنے کی قراردادپیش کرنے تحریک پیش کی جس کی چیئرمین نے ایوان سے منظوری حاصل کرنے کے بعدقراردادپیش کرنے کی اجازت دے دی۔سینیٹرراجہ ظفرالحق نے قراردادپیش کی جس میں کہاگیاکہ یہ ایوان اکتوبر میں مکہ مکرمہ پربلیسٹک میزائل کے حملے کی شدیدمذمت کرتا ہے۔قراردادمیں کہاگیا ہے کہ دنیابھرکے مسلمان اس حملے کی شدیدمذمت کرتے ہیں اورحکومت پاکستان سعودی حکومت کے ساتھ یکجہتی کااظہارکرتی ہے، حکومت پاکستان سعودی عرب کومقدس مقامات کے تحفظ اوران کے تقدس کی حفاظت کیلئے بھرپو ر تعاون کی فراہمی کااعادہ کرے۔اوآئی سی اورسلامتی کونسل ایک ارب سے زائدمسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کاسخت نوٹس لیں۔ایوان بالانے اتفاق رائے سے قراردادکی منظوری دے دی۔یہ قراردادتاخیرسے پیش اورمنظورکی گئی۔ اس قراردادکی منظوری تو اسی دن ہوجانے چاہیے تھی ۔جب اس حملے کے بارے میں علم ہواتھا۔مکہ مکرمہ حملہ مسلمانوں کے ایمان اورعشق پرحملہ ہے۔یہ حملہ مسلمانوں کوان کے ایمانی مرکزسے دورکرنے کی سازش ہے۔ تیسری قراردادقومی اسمبلی میں منظورکی گئی ہے۔اس قراردادکی تفصیل یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے کیپٹن صفدرنے اپنے اورآفتاب شیر پاؤ ،صاحبزادہ طارق اللہ، حاجی غلام بلور،شاہ جی گل آفریدی،سراج محمدخان، عبدالقہارخان،نعیمہ کشوراورطاہربخاری کی جانب سے مشترکہ قراردادپیش کی کہ قومی اسمبلی سفارش کرتی ہے کہ حکومت ہرسال ایک وفدحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یوم ولادت پر رسوک کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ اقدس پر حاضری دینے کیلئے بھجوائے۔وزیرمملکت امین الحسنات شاہ نے کہا کہ حکومت کوکوئی اعتراض نہیں ہے۔اسمبلی نے قراردادکی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ یہ وفد ایسے علماء کرام، قراء حضرات اورنعت خوانوں پرمشتمل ہوناچاہیے جوازخود سعودی عرب جانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ملک بھرسے کم آمدنی والے قراء حضرات ،علماء کرام اورنعت خوانوں کی فہرست مرتب کی جائے پھرقرعہ اندازی کرکے جن کے نام آئیں انہیں سرکاری خرچ پربھیجاجائے۔ پی پی پی کی شاہدہ رحمانی نے قراردادپیش کی کہ حکومت کم آمدنی والے افرادکوان کے پہلے حج پرزراعانت فراہم کرے۔پختونخوامیپ کے سربراہ محموداچکزئی نے قراردادکی مخالفت کی اورکہا کہ تمام علماء کرام متفق ہیں کہ زکوٰۃ اورحج صرف صاحب استطاعت افرادپرفرض ہے اس لیے حج کیلئے امدادی رقم کاکوئی جوازنہیں ہے۔رائے شماری کرانے پرایوان نے قراردادمنظورکرلی۔ شاہدہ رحمانی کی جانب سے پیش کی گئی قومی اسمبلی کی منظورکردہ قرارداداگرچہ درست ہے کہ کم آمدنی والے افرادکوان کے پہلے حج پرحکومت کی طرف سے زراعانت دیاجائے۔ عوام کی طرف سے کوئی رکن اسمبلی یہ قراردادبھی ایوان زیریں میں پیش کرے کہ حج کے اخراجات کم کیے جائیں۔پاکستان میں حج بہت مہنگا ہے۔حج سستاہونے سے تمام حجاج کوریلیف ملے گا۔وزراء اوراراکین اسمبلی بھی اپنے اخراجات پرحج وعمرہ پراپنے اپنے حلقہ کے غریب عوام میں سے کسی کوبھی بھیج سکتے ہیں۔بحری جہازوں کے ذریعے سفرکرکے حج ،عمرہ کرنے کاسلسلہ بحال کر دیاجائے توحج ،عمرہ کے اخراجات کم ہوجائیں گے۔بحری جہازوں کے سفرکی بحالی کے بعدکم آمدنی والے افرادبھی حج، عمرہ کرسکیں گے۔محموداچکزئی کی یہ بات تودرست ہے کہ زکوٰۃ اورحج صرف صاحب استطاعت افرادپر فرض ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ حج کرنے وہی جائے جس پرحج فرض ہو۔کم آمدنی والے غریب مسلمان سال ہا سال محنت کرکے سرمایہ اکٹھاکرتے ہیں کہ حج کرنے جائیں گے۔جس شوق، محبت اورعشق کے ساتھ ایسے مسلمان حج یاعمرہ کرنے کیلئے سرمایہ اکٹھاکرتے ہیں اوردن رات مدینہ منورہ میں حاضری کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ایسے ہی حاجیوں کی وجہ سے دیگرتمام حاجیوں کے حج قبول ہوجاتے ہیں۔تینوں قراردادوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔تینوں قراردادیں مسلمانوں سے ہی متعلقہ ہیں۔کیونکہ جارحیت بھی مسلم ممالک میں ہورہی ہے۔ مکہ مکرمہ بھی مسلمانوں کامقدس شہرہے اورحج ،عمرہ کرنے بھی مسلمان ہی جاتے ہیں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300721 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.