انعام کہاں ہے صاحب ؟

50 دنوں کی مدت پوری ہوئی،غربت و افلاس ،بھوک کی شدت تنگی و تنگدامنی،مشکلات و پریشانی ہر شخص ان الفاظ کے حقیقی مفہوم سے واقف ہوگیا ۔غریبی، تنگدستی کے بادل گھنے ہوئے،روزگار تعطل کا شکار ہوا،معیشت کی ترقی کے منصوبے ناکام ہوئے، دعوے ہوا ثابت ہوئے ،پچاس سے زائد لوگوں کو موت نے نگل لیا ،کتنے بوڑھے بچے جوان قطاروں میں زخمی ہوئے اور روپیوں کے حصول کے لئے جہد مسلسل بھی بے ثمر رہی ،شادیوں کے لئے رقم حاصل کرنا انتہائی دشوار مرحلہ تھا، جو ہر کسی سے سر نہ ہوا اور بہت سے لوگوں نے موت کو گلے لگانا اس سے آسان سمجھا، کتنی ڈولیاں جنازوں میں تبدیل ہوگئیں ، کتنی خوشیاں غموں کی صورت اختیار کر گئیں، کتنے چراغ اس آندھی کی تاب نہ لاکر گل ہوگئے اور اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ؟جب کسی ملک کی 86،4فی صد کرنسی کو بند کردیا جائے اور ملک کے پاس متبادل کے طور پر کچھ بھی نہ ہو ،ریزرو بینک کے ذمہ دار خود اس تکلیف کا احساس کر رہے تھے ،یہاں تک کہ ارجیت پٹیل نے وضاحت کردی تھی کہ جلد مشکلات کا سدباب نہیں کیا جاسکتا اور ابھی تک بھی تجارت و زراعت اپنی سابقہ رفتار پر نہیں لوٹ سکی ،ملک جس صورت حال سے دوچار ہوا وہ آدھے دن کے چمکتے سورج کی طرح روشن ہے ،ماہرین معاشیات پورے طور پر معاملہ کی وضاحت کرچکے، 90 فی صد سے زائد کرنسی بینکوں میں جمع ہو چکی ،کروڑوں سے زائد نوٹوں کی کترنیں کہاں سے آئیں ،یہ معمہ بھی سلجھ نہیں پایا ؟کالا دھن کہاں گیا؟ اس کا کوئی سراغ نہیں لگ پایا ،زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا ؟نوٹ بندی کا منصوبہ ناکامی کے گہرے غار میں چلا گیا ،ہر ذی شعور فرد اس حقیقت کا پورے طور پر ادراک کر چکا ،ماہرین وضاحت کر چکے ،مگر ہمارے وزیر اعظم اس منصوبہ کی کامیابی کے دعوے کررہے تھے ،کالے دھن کے خاتمہ کا سنہرا خواب دکھا رہے تھے ، مفلسوں تنگ دستوں کے لئے انتہائی درجہ فکر مند ہونے کے دعوے کررہے تھے اور نوٹ بندی کو اس سلسلے کی ایک کڑی گردان رہے تھے ،ہندوستان کی ترقی کا راز کہہ رہے تھے ،معاشی بحران سے نجات کا ذریعہ باور کرارہے تھے ،پوری کائنات کو اس فیصلہ کی مداحی کی دعوت دے رہے تھے اور اپنے حوصلہ اور ہمت کی داستان سے چیخ چیخ کر لوگوں کی سماعتوں کو مبہوت کررہے تھے ،جب جب انہیں لگتا عوام بے چین ہیں تب تب جذباتی گفتگو کرتے اور عوام کو مطمئن کردیتے ،ان پچاس دنوں کی تمام تقریریں سن لیجیے آپ بھی حقیقت کے معترف ہو جائیں گے- جب انہیں احساس ہوا کہ حقائق کچھ اور ہی ہیں ،نوٹ بندی کا کھیل شکست و ریخت کی طرف دوڑ رہا ہے ،تو انہوں نے پینترا بدلا اور کیش لیس اکانومی کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔اگر واقعتا ہندوستان کو کیش لیس کرنے کا منصوبہ تھا ،تو کیا اب تک سرکاری محکمے کیش لیس ہوگئے؟کیا بسوں کو پوری طرح کیش لیس کیا جا چکا ؟کیا ریل گاڑیاں ،ہوائی جہاز ،سرکاری اسپتال ،اسکولس پوری طرح کیش لیس ہوگئے ؟جواب سب کے علم میں ہے،تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے ؟وزیر اعظم کے یہ دعوے کس قبیل کے ہیں ؟انہوں نے اس فسانہ کو ایک خوبصورت موڑ دے کر ختم کرنے کی کوشش کی جب یہاں بات نہیں بنی تو پچاس دن کا وعدہ کربیٹھے اور عوام سے وہ باتیں کہیں جو کسی سلیقہ مند ،جمہوریت پسند شخص کو زیب نہیں دیتیں، جاہل، ان پڑھ ،گنوار ہی شاید اس طرح کی زبان بولے ،عوام کو فیصل بنایا اور اپنے منصوبوں کی کامیابی پر انعام اور ناکامی پر زجر و توبیخ کا وعدہ کیا ،سادہ لوح اور سادہ طبیعت معیشت کی باریکیوں سے انجان لوگ اس دعوے پر اعتماد کر بیٹھے ،مگر یہ بھرم کب تک قائم رکھا جاسکتا تھا ؟پچاس دن بیت گئے وزیراعظم عوام کے سامنے تقریر کررہے تھے اور طرز و انداز وہی تھا، باتیں وہی تھیں،عوام کی تکلیف کے احساس کا اظہار ،ملک کی ناقابل یقین کوشش کا تذکرہ ،ہندوستانیوں کی قربانیوں کو بھی بیان کیا گیا، قطاروں میں لگے عوام کا درد و کرب اور ان کا حوصلہ بھی زیر لب آیا، مگر آج بھی وزیر اعظم نے مرنے والوں کے غم میں شرکت کو مناسب نہیں سمجھا۔ بہرحال ہر ہندوستانی یہ خیال کررہا تھا کہ مودی کو ہماری تکلیف ہماری محنت ہماری مشکلات کا احساس ہے،یہ احساس ہندوستان کے لئے معاون ثابت ہوگا ،غریبوں کے مقدر بدل جائیں گے ،مفلسی کا جنازہ اٹھ جائے گا ،کسم پرسی اب کسی کو اپنا شکار نہیں بنا پائے گی اور وزیراعظم’’پریورتن‘‘کی ایسی تاریخ رقم کریں گے جو صدیوں تاریخ کی زینت رہے گی۔45منٹ کی تقریر میں ہر ہندوستانی ان تاریخی جملوں کا منتظر رہا ،وہ شخص جو غربت کو مٹانا چاہتا ہے ،اس کی زبان کچھ تو ایسا نکلے جو اس کے دعووں کی دلیل ہو ،مگر تقریر ختم ہوگئی اور انتظار ختم نہیں ہوا،غریبوں کے حصہ میں کچھ آیا نا علم میں کچھ آیا ،جن دھن کھاتوں کو کچھ دیا گیا ،نہ مفلسوں کی قسمت بدلی ،نہ معاشی نظام میں بہتری کا علم ہوا اور وزیراعظم کی پوری تقریر احمد فراز کے اس شعر کی مصداق نظر آئی
ہم جیسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا ٭ سبھی نے وعدہ فردا پہ ٹال رکھا ہے
پوری تقریر میں یہی تھا کہ ملک کندن بن ابھرے گا، بینکوں کا نظام جلد درست ہوگا ،ہندوستان کا مستقبل سنہرا ہے ،یا اس کے علاوہ جتنے بھی اعلانات ہوئے ،سب سود کے متعلق تھے ،گھر کے قرض میں سود کم کیا گیا بزرگوں کے بینکوں میں روپے جمع کرنے پر سود کا اعلان کیا گیا ،زچگی کے دوران 6 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا گیا ،’’کھودا پہاڑ نکلی چوہیا‘‘ کیا اتنے صبر آزما مراحل کے باوجود ملک اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ وزیر اعظم اعلان کرتے کتنے پیسے بینکوں کو دستیاب ہوئے ؟عوام کو کتنی رقم پہنچی ؟کتنا کالا دھن حاصل ہوا ؟ملک کی معیشت کو کیا فائدہ ؟کالا دھن رکھنے والوں کو کیا سزا ہوگی ؟کون لوگ ہیں جن کے پاس کالا دھن تھا ؟تکلیف جھیل چکے غریب عوام کو کیا صلہ دیا جائے گا ؟ان کی محنت کا کیا انعام ہے ؟کیا یہ تمام تفصیلات عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری نہیں تھا ؟پھر مودی جی آخر عوام کو کیا سمجھتے ہیں ؟کیا سارے منصوبوں کی تکمیل زبان سے ہی ہوگی ؟کیا غربت زبان سے مٹائی جائے گی ؟کیا پریورتن زبان سے ہی کریںگے ؟لکھنو ریلی میں وزیر اعظم چلا چلا کر دوسری سیاسی جماعتوں پر الزام لگا رہے تھے اور یوپی کے تئیں فکر مند ہونے کا دعوی کر رہے تھے ، مگر وزیراعظم کو اب جان لینا چاہئے ،عوام اب الفاظ نہیں کام چاہتے ہیں ،جذبات کا استحصال نہیں ملک کی ترقی چاہتے ہیں ،ہمدردی کے بھونڈے الفاظ نہیں ،اپنا حق چاہتے ہیں ،اپنی محنتوں کا صلہ اور انعام چاہتے ہیں اور زبان حال سے پکار رہے ہیں ،انعام کہاں ہے صاحب! کیا وزیر اعظم کے پاس عوام کے ان سوالوں کے جواب ہیں ،آخر کب تک وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے قطاروں میں لگے رہیں گے؟ کب تک یہ شام غم صبح کے اُجالے میں تبدیل ہوگی ؟اور کتنا انتظار کرنا ہوگا ؟ یہ سچ وقت کی کوکھ میں پوشیدہ ہے ،ساتھ ہی یوپی انتخاب اس امر کا مظہر ہوگا کہ وزیراعظم کا یہ فیصلہ عوام کی نظر میں صحیح تھا یا غلط ،مستقبل جو بھی ہو حال تو روزِ روشن کی طرح ہے ،عوام کو حق حاصل ہو سکا نہ انعام اور الفاظ کو حقائق میسر نہیں آئے ۔
 
Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 75327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.