نفسِ ذکیہ - قسط نمبر ۔ 8

اتوار کا دن تھا۔ مجدی صبح سویرے نہا دھو کر تیار ہوا۔سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنی اور چرچ کی راہ لی۔

سارے راستے وہ خدا تعالی کی تعریف کے ترانے گاتا اور حضرت عیسی ؑ پر درور و سلام بھیجتا بھیجتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم سب کی طرح اسے بھی مشکل وقت میں اﷲیاد آ گیا تھا۔ جاب جو نہیں تھی…… اوپر سے شادی ہونے والی تھی۔ اتنی مشکلوں سے تو یہ رشتہ پکہ ہوا تھا۔ ایک عام سے آدمی کی طرح اس کی سوچ بھی بس یہیں تک تھی کہ پڑھائی ہو گئی ہے لہذا اب اچھی سی نوکری کہیں لگی رہے اور پھر شادی ہو جائے اور بال بچے اور بس…… کہ یہی زندگی کا کل مقصد ہے…… بس یہی کرنے کا کام ہے……

’’اے خداوند ! اپنی بیٹے یسوع مسیح کے صدقے میری سن لے…… میری جاب لگا دے……‘‘ ۔ ’’آمین‘‘۔مجدی نے بلا جھجک اﷲ کی ذات میں کھلا شرک کیا(معاذ اﷲ) ۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ وہ دل سے یہی جملہ دہرا دہرا کر خدا تعالی سے دعائیں مانگتا جا رہا تھا۔

مجدی چرچ کے سامنے بنے چھوٹے سے باغ میں داخل ہوا۔ سامنے چرچ کے ایک مینار پر بڑی سی صلیب بنی ہوئی تھی۔صلیب کو دیکھتے ہی اس نے اینے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور اپنے گلے میں پڑے ہوئے صلیب والے لاکٹ کو مضبوطی سے اپنی مٹھی میں دبا لیا۔
’’یا خداوند! مجھے اپنے پاس سے روزی عطا کر۔ آمین‘‘ مجدی نے اپنے لاکٹ کو اپنے دل سے لگا لیا۔

بہت سے اور لوگ بھی چرچ آئے ہوئے تھے۔ دلاور نے کچھ لوگوں سے ہاتھ ملایا اور چرچ کے ہال میں داخل ہو گیا۔
ایک بہت بڑی ٹائیلوں سے بنی حضرت عیسی ؑ کی تصویر ہال کے اسٹیج کے پیچھے کی دیوار پر بنی ہوئی تھی۔ کم و بیش بیس تیس فٹ بڑی تصویر…… ان کے ایک ہاتھ میں ایک شمع دکھائی گئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک کتاب ، جس پر انگریزی میں لکھا تھا:
’’I am who I am‘‘ ۔
یعنی
’’ میں وہ ہوں، جو میں ہوں‘‘۔یہ وہی الفاظ ہیں جو اﷲ ذولجلال شانہ نے تب ادا کئے جب مو سی ؑ سے اس نے پہلی بار ایک جلتی ہوئی جھاڑی میں سے کلام کیا۔ موسی ؑ نے سوال کیا تھا،’’ تو کون ہے جو جھاڑی میں سے بولتا ہے؟ ‘‘اور جواب ملا، ’’ میں وہ ہوں، جو میں ہوں‘‘۔

مجدی نے ہال میں داخل ہوتے ہی اپنا سر عیسی ؑ کی اس بڑی سی تصویر کے سامنے جھکا دیا۔ پھر ایک طرف کو بڑھ کر ایک شمع روشن کی اور بہت سارے بینچوں میں سے ایک بیچ پر جا کر ادب سے سر جھکا کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب محلے کے بچے شام کو باہر کھیلا کرتے تھے۔ مغرب کا وقت ہوتا تو سب واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے……مگر نا جانے اس دن سب کو کیا مستی چڑھی ہوئی تھی کہ عشاء ہونے کو آئی تھی پر کوئی گھر جانے کا نام نہیں لے رہا تھا۔دیر اتنی ہو گئی تھی کہ اب واپسی پر سب کو اپنے اپنے گھر سے ڈانٹ تو ضرور پڑنی ہی تھی۔ دراصل گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی تھی۔ اسی لئے سب بے فکر تھے۔ روز شام کو محلے میں ہلہ گلہ ہوتا رہتا تھا۔

آج بھی ہم سب شام سے کھیل رہے تھے۔دلاور بھی ساتھ ہی تھا اور دوسرے بھی بہت سے بچے تھے۔ کبھی ہم ایک دوسرے پر گیند اچھالنے لگتے…… کبھی مارم پٹی شروع ہو جاتی …… پھر پکڑم پکڑائی …… چھپن چھپائی…… بچوں کا دل کھیل کود سے کہاں بھرتا ہے!!!

ہمارے محلے کی ہی ایک گلی میں ایک شخص شام کو پھلوں کا ٹھیا لگایا کرتا تھا۔ وہ شاید صبح کہیں اور کام کرتا تھا اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے شام کو سڑک کے ایک کنارے پھل بھی بیچتا۔ عشاء کے وقت وہ اپنے پھلوں کو پیٹیوں میں واپس رکھتا اور ان پر موٹی موٹی سی کپڑے کی چادریں بچھا کر ، گٹھانیں لگاتا اور واپس اپنے گھر کو چل دیتا۔

ہم بچے کھیلتے کھیلتے اسی گلی میں آ گئے تھے۔ ہم پکڑم پکڑائی کھیل رہے تھے اور دلاور مجھے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ارے وہ دیکھو!‘‘ ایک بچے نے چیخ کر کہا۔
سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس بچے نے پھلوں کے ٹھیئے کے پاس سے ایک کینو اٹھا لیا جو وہیں ایک پیٹی میں سے نکل کر گر گیا تھا۔
اتنے میں ایک اور کینو پیٹی سے باہر گر گیا۔ اب تو سب کی عید ہو گئی۔ ہم سب اپنا کھیل بھول کر کینوؤں کو لوٹنے بھاگے۔ ایک بچے نے پیٹی کو ہلایا اور ایک ایک کر کے بہت سے کینو باہر گرنے لگے۔ ہم سب کو معلوم تھا کہ یہ چوری ہے ۔ اس لئے ہر کوئی ایک کینو اٹھا کر لمبی دوڑ لگا دیتا کہ کہیں کوئی پکڑ نہ لے۔

اتنے میں فروٹ والا کہیں سے نمودار ہو گیا۔ وہ ابھی تک وہیں کہیں گلی کے کنارے اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔
’’اوئے!!!‘‘ فروٹ والے نے ایک چنگھاڑ لگائی، کہیں سے ایک سوٹی پکڑی اور ہماری طرف لپکا۔ میرا تو دم ہی نکل گیا۔ میرے ہاتھوں میں بھی ایک کینو تھا۔ میں سر پٹ بھاگا جس طرف باقی بچے بھاگ رہے تھے۔ فروٹ والا ہمارے سامنے سے آ رہا تھا۔ میں اتنا بد ہواس ہو گیا کہ پیچھے بھاگنے کے بجائے اس کے سامنے کی طرف بھاگا جہاں سب بچے بھاگے تھے۔ میں بھاگ کر بچوں کی ٹولی میں مل جانا چاہتا تھا۔ مجھے یہ آسرا تھا کہ بچوں کے چھرمٹ میں گھل مل کر میں بچ جاؤں گا۔ میرے آگے جو بچہ بھاگ رہا تھا فروٹ والے نے اسے پکڑ لیا۔
’’انکل میرے پاس کینو نہیں ہے……‘‘ اس بچے نے فوراََ کہا۔ واقعی اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ اس نے پہلے ہی فروٹ والے کو دیکھ کر کینو پیچھے پھینک دیا تھا۔ فروٹ والے نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور میری طرف لپکا۔
’’ہا ہ……‘‘۔ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رک گیا۔
’’انکل اسی نے ہمیں کینو چرانے کا کہا تھا……‘‘ ۔ دور سے ایک بچے نے چیخ کر کہا۔ اب تو میری جان ہی نکل گئی۔
فروٹ والے نے مجھے پکڑ لیا۔’’شٹاخ شٹاخ ‘‘ کی آوازوں کے ساتھ فروٹ والے نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ میں جم کر اپنی جگہ کھڑا تھا اوردونوں ہاتھوں سے کَس کے کینو کو پکڑا ہوا تھا۔
اس نے پھر میرے منہ پر ایک طمانچہ مارا…… وہ اپنے منہ سے مجھے گندی گندی گالیاں بھی بک رہا تھا۔
تھوڑی ہی دپر میں میرا ضبط ٹوٹ گیا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ مجھے یقین تھا کہ میری پیٹ پر ڈنڈی کی مار سے نشان بھی پڑ گئے ہوں گے۔ میرے سارے دوست میرا یہ حال دیکھ کر کوسوں دور بھاگ چکے تھے۔

مجھے روتا ہوا دیکھ کر فروٹ والے نے مجھے مارنا چھوڑا اور ایک جھٹکے سے مجھ سے کینو چھین کر مجھے ایک طرف کو دھکیل دیا۔ میں گرتے گرتے بچا۔ کینو کا رس میرے کپڑوں پہ لگ گیا تھا۔ میں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے آنسو ٹپکاتا ایک طرف کو چلنے لگا۔ پیچھے سے بدستور فروٹ والا ہم سب پر لعنت ملامت کر رہا تھا اور ساری گلی میں بکھرے اپنے کینو اٹھا رہا تھا۔

’’ کینو توسب نے چرائے تھے…… تو مار صرف مجھے کیوں پڑی؟‘‘ میں نے ایک ہاتھ سے اپنے آنسوں پونچے۔ پیٹھ پر پڑی لچکدار ڈنڈی کی مار سے ایک جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔
’’میرے دوست مجھے چھوڑ کے بھا گ گئے!!!‘‘
’’انہوں نے یہ کیوں کہا کہ میں نے ہی کینو چرائے ہیں؟؟؟‘‘ میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔ میرا نازک سا دل ٹوٹ گیا تھا۔
پَرکسی سے کیا شکایت کرتا۔ گھر میں کچھ بتاتا تو اور ہی مار پڑتی کے چوری کیوں کی۔ اور شاید باہر آنا جانا بھی بند ہو جاتا۔

میں ہمیشہ کی طرح چپکے سے گھر میں داخل ہوا اور چھت بیٹھ کر رونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔

میری اور فوزیہ کی موبائیل چیٹ اب روز ہی ہوتی تھی۔ ہم دونوں بنا کچھ کہے ہی ایک دوسرے کے لئے ابھرتی محبت کو بھانپ چکے تھے۔ مگر ہم دونوں اپنی میچور عمر کو پہنچ چکے تھے لہذا اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ ہمارے درمیان کسی قسم کا چھچھورا پن نہ ہو۔ ویسے بھی ہم دونوں کی طبیعت بھی ویسی نہ تھی۔دونو ں ہی سوبر قسم کے سلجھے ہوئے انسان تھے۔

آج کل فوزیہ کہیں سے کوئی پروفیشنل کورس کر رہی تھی۔ اپنے آفس سے جلدی نکل کر کورس کرنے چلی جاتی تھی۔

’’ہیلو ذولقر! ‘‘
’’ پتا چلا؟؟؟‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ ، مجدی کا فون آیا تھا۔ نا جانے کس خبر کی بات کر رہا تھا۔ میں نے پریشان کن لہجے میں پوچھا کہ جانے کیا ہو گیا ہے۔
’’ ارے بھائی! سعید احمد کا انتقال ہو گیا نا…… جلسے میں فائرنگ ہوئی ہے…… بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے ہیں……تم جلدی جلدی اسٹور بند کر کے گھر جاؤ…… حالات بہت خراب ہیں……‘‘، مجدی نے ایک ہی سانس میں ساری کتھا سنا دی۔
’’ ہیں…… ؟؟؟‘‘ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں ۔ ’’ سعید احمد کا انتقال ہو گیا؟؟؟‘‘ میں بھی گھبرا گیا۔ سعید احمد ملک کا مشہور ترین سیاست دان تھا۔ اس کی ہلاکت سے لازماََ کراچی بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑنے تھے۔
’’ہاں یار …… تم گھر جا سکتے ہو تو فوراََ بھاگو …… ورنہ دوکان کو اچھی طرح بند کر کے اندر ہی آج رات گزارو…… ‘‘ مجدی نے جلدی جلدی چیخ کر کہا ۔ وہ بات ختم کرنا چاہتا تھا۔ شاید اسے کسی اور کو بھی فون کرنا تھا یا وہ خود بھی خطرے میں تھا۔
’’اچھا! اچھا! تم تو ٹھیک ہونا؟؟؟‘‘
’’ ہاں میں ٹھیک ہوں …… اوکے بائی‘‘ ۔ مجدی نے کال کاٹ دی۔

میں نے آناََ فاناََ اسٹور میں چیخ کر اعلان کر دیا کہ سب فوراََ گھر کی راہ لیں۔ جہاں ہمارا اسٹور تھا ابھی تک وہاں حالات نارمل ہی نظر آ رہے تھے۔
پانچ منٹ میں سب بند ہو گیا۔ میں نے باہر بازار میں جھانکا تو ہر طرف دوکانوں کے شٹر گرتے ہوئے ہی نظر آئے۔ خبر پکی تھی۔

میں نے دوسرے ہی لمحے فوزیہ کو فون لگایا۔ اس کا فون بزی جا رہا تھا۔
میں بہت پریشان ہو گیا۔ اکیلی لڑکی ایسے حالات میں …… کہیں کوئی اسے نقصان نہ پہنچا دے۔ کہیں کوئی اسے پریشان نہ کرے……

اسٹور بند ہو چکا تھا۔ میں نے نے کچھ سوچے سمجھے بغیر گاڑی اسٹارٹ کی اور اس روڈ پر چڑھا دی جو فوزیہ کے انسٹیٹیوٹ کی طرف جاتا تھا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر سارا شہر بند ہو گیا تھا ۔ جانے سب کہاں گھس گئے تھے۔

’’ڈھر ڈھر ڈھر ڈھر ‘‘ کی آواز سے آسمان گونج اٹھا۔ قریب ہی کہیں فائرنگ ہوئی تھی۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

کراچی کے حالات سے تو ساری دنیا ہی واقف ہے۔ کب کیا ہو جائے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ آئے دن یہاں حالات خراب ہی رہتے ہیں۔ کبھی ٹارگٹ کلنگ تو کبھی بوری بند لاشیں …… کبھی ہڑتالیں تو کبھی دھرنے ……بس یہی کچھ چلتا رہتا ہے۔ یہاں کی عوام بھی اب ان سب چیزوں کی عادی ہو گئی ہے۔ روز سب جان ہتھیلی پر رکھ کے اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور اﷲ اﷲ کر کر واپس لوٹتے ہیں۔

میں نے موبائیل پر پھر فوزیہ کا نمبر ملایا مگر کال نہیں مل رہی تھی۔ ایسے مواقع پر سگنلز بھی پرابلم کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ سب ہی لوگ اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کے لئے کال ملاتے ہیں۔

آج تو معاملہ بہت نازک تھا۔ جونہی میری گاڑی مین روڑ پر پہنچے ایک طرف ٹائر جلنے کا دھواں نظر آنے لگا۔ آگے ہی کچھ شر پسند لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ جھنڈے وغیرہ لئے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں نے آـؤ دیکھا نہ تاؤ فوراََ مین روڈ سے گاڑی ہٹاکر ایک علاقے کی اندرونی سڑک پر نکل گیا۔

میں نے ایک چھوٹا سا میسج فوزیہ کو بھیج دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں فوزیہ کی کال موبائیل پر آنے لگی۔ میں نے جھٹ سے کال اٹھائی۔
’’ہاں فوزیہ! کہاں ہوٖ؟‘‘ میں نے سلام دعا کئے بغیر پوچھ ڈالا۔
’’ہاں ذولقر! میں یہیں انسٹیٹیوٹ میں ہوں ……‘‘ ۔ ’’بہت سے اور لوگ بھی رکے ہوئے ہیں ……‘‘ ۔ فوزیہ نے جواب دیا۔
’’اچھا! یہ تو اچھی بات ہے …… حالات بہت خراب ہیں ۔ تم باہرنہ نکلنا ……‘‘
’’میں آ رہا ہوں ……‘‘ میں نے کہا۔
’’تم کیسے آؤ گے …… حالات ……‘‘ فوزیہ کچھ کہہ رہی تھی۔
’’ میں آ رہا ہو ں …… ڈونٹ وری ……‘‘ میں نے اس کا جملہ کاٹ کر کہا۔

کرتے کراتے کوئی ایک گھنٹے میں میں فوزیہ کے انسٹیٹیوٹ پہنچا۔ جب کہ راستہ بیس منٹ سے ذیادہ کا نہیں تھا۔
میں نے فوزیہ کو کال کر کے کہہ دیا کے نیچے آ جائے۔ وہ اپنے دو کلاس فیلوزکے ساتھ نیچے آ گئی۔


’’اف!‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’تم ٹھیک تو ہو نا؟؟؟‘‘ فوزیہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
’’ ایسے حالات میں یہاں کیسے پہنچے؟؟؟‘‘ ۔’’ کیا ضرورت تھی آنے کی؟؟؟‘‘ فوزیہ نے فکر مندی سے شکوہ کیا۔ وہ جلدی جلدی سب کچھ بول رہی تھی۔
’’بس ……‘‘ ۔’’ آنے تو تھا ہی ……‘‘ میں نے اسے جتانا چاہا کہ اس کا خیال رکھنا تو اس کا فرض ہے۔ فوزیہ بھی سب سمجھتی تھی۔ اسے بھی میرا اس کے لئے خطروں میں گھِر کر یوں اس تک پہنچنا اچھا لگا۔

مگر اب ہم جاتے کہاں۔ پہلے تو میری اکیلی جان تھی۔ اب فوزیہ کی ذمہ داری بھی سر پر تھی۔ فائرنگ اور لوگوں کے چیخ و پکار کی آوازیں بدستور آ رہیں تھیں۔ کچھ ہی دیر میں فوزیہ کے گھر والوں کا فون آ گیا۔ اس نے انہیں اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ میں نے بھی اپنے گھر کال ملائی ۔وہ بھی فکر مند تھے۔

میں نے ایک اچھے علاقے کی اندرونی سڑک پر گاڑی ڈال دی۔ ایسے وقت پر مجھے یہی سب سے مناسب قدم لگا۔ مین روڑ سیف نہیں تھے۔ اسی علاقے میں ہمارے ایک عزیز کا گھر بھی تھا۔ میں اکیلا ہوتا تو ضرور وہاں چلا جاتا۔ مگر ساتھ فوزیہ بھی تھی۔

میں نے ایک پارک کے درختوں کے نیچے گاڑی کھڑی کر دی۔ رات کے نو بج رہے تھے مگر لگ ایسا رہا تھا جیسے دو بج گئے ہوں۔
میں نے گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچی اور فوزیہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھا۔ اس نے جواباََ ایک ٹھنڈی آہ بھری اور نظریں جھکا کر سر کو ہلکا سا دائیں سے بائیں ہلایا۔
’’انشاء اﷲ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ میں نے فوزیہ کو حوصلہ دیا اور بلا جھجھک اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
وہ پہلے تو تھوڑی جھجھکی پھر جیسے اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیا۔
’’آئی لو یو‘‘ ۔ میں نے پہلی بار اس سے اظہار محبت کیا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔
کوئی جواب نہ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

میں اور مجدی شو اسٹور میں بیٹھے تھے۔ اب تو مجدی بیچارہ بالکل ہی ویلا ہو گیا تھا۔ یا تو چرچ میں گھسا دعائیں مانگتا رہتا یا پھر میری طرف آ جاتا۔ یہی اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ جب بھی آتا، نوکری کا رونا رونے لگتا۔ مجھے اس کی پریشانی کا اندازہ تھا ہی۔میں اسے دلاسہ دیتا اور بہتری کی امید دلاتا۔ بڑی مشکلوں سے تو اس کا رشتہ ہوا تھا ۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں منگنی ٹوٹ نہ جائے۔ ظاہر ہے ہر ایک کو اپنی اولاد کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ اس مادہ پرستی کے دور میں کوئی کیوں کسی بے روزگار کو اپنی بیٹی دے گا!

’’ویسے بھی یار تمہیں پتا ہی ہے …… ہم لوگوں کو مشکل سے ہی نوکری ملتی ہے!‘‘۔ مجدی نے پر شکوہ انداز میں کہا۔
میں نے منہ بنایا۔میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ وہ کرسشن تھا۔ اس کے خیال میں وہ تعصب کا شکار تھا۔ اس لئے باقی لوگوں کی نسبت اسے جاب ملنا ذیادہ مشکل تھی۔
’’ ایسی کوئی بات نہیں…… ‘‘
’’ساری زندگی تم نے اسی سوسائٹی میں گزار دی ہے…… اب ایسی باتیں نہ کرو……‘‘ میں نے اس سے اختلاف کیا۔ حلانکہ مجھے پتا ہی تھا جو کچھ کہ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے۔ مذہب تو مذہب ہے۔ یہاں تو لاہور والا کراچی سے چڑتا ہے۔ پنجابی کو پٹھان نا پسند ہے …… سندھیوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہے……
ہمارے ملک کے دو لخت ہونے کی بھی ایک اہم وجہ بنگالی بھائیوں سے تعصب ہی تھا۔ جب تک اتحاد نہیں ہو گا۔ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔

’’تم مانوں نہ مانو …… ایسا ہی ہے‘‘۔ مجدی نے پھر کہا۔
’’کئی لوگ تو اس گلاس میں پانی تک پینا پسند نہیں کرتے جس سے ہم نے پانی پیا ہو……‘‘۔ مجدی بہت دلبرداشتہ ہو رہا تھا۔ مگر میرے پاس اس کی بات کا واقعی کوئی جواب نہیں تھا۔ مجدی اور میرا سارا بچپن ساتھ ہی گزرا تھا۔ میں خود مجدی کے ساتھ ہوتے تعصب کا گواہ تھا۔

’’فہد !‘‘ ۔ میں نے زور سے کہا۔
فہد کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کوئی کسٹمر بھی اسٹور میں نہیں تھا۔
’’فہدیار باہر سے دو کولڈ ڈرنکس لا دو‘‘۔ مجھے وہ کہیں نظر تو نہ آ یا، پر میں نے ہوا میں ہی حکم جاری کر دیا۔
’’فہد !‘‘ میں نے پھر اسے آواز دی۔

’’جی سر! جی!‘‘ ۔ فہد آہستہ سا چلتا ہوا سامنے آیا۔
’’کیا ہوا؟ کہاں تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میں نے اس کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات محسوس کئے۔
’’نہیں سر …… بولیں‘‘۔ فہد نے کہا۔
’’اندر آؤ‘‘۔ میں نے فہد کو اسٹور میں بنے اپنے آفس میں آنے کا کہا۔ مجدی بھی وہیں بیٹھا تجسس سے فہد کو دیکھنے لگا۔
فہد کی آنکھوں میں ایک نشہ سا تھا۔ وہ کچھ مست سا ہوا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘
’’کوئی نشہ کیا وا ہے کیا تم نے؟؟؟‘‘ میں نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’نہیں سر نہیں……‘‘ ۔ فہد اپنی آنکھیں پوری طرح کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ تاکہ چاک و چوبند نظر آئے۔
میں نے سر سے لے کر پیر تک اس کا معائنہ کیا۔
’’یہ ہاتھوں میں کیا لگا ہے؟؟؟‘‘ میں نے تشویشناک انداز میں دریافت کیا۔ اس کی بائیں ہاتھ کی آستین لال ہوئی ہوئی تھی۔
میں یک دم کھڑا ہو گیا۔ مجدی بھی کھڑا ہو گیا۔ اسٹور کے کچھ اور ملازمین بھی اس طرف آ گئے۔
میں نے فہد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی کلائی سے خون رس رہا تھا۔
’’یہ کیا ہے!!!‘‘ ۔ میرے دل میں ایک ہول سا اٹھا۔ شاید فہد نے اپنی کلائی کاٹ لی تھی۔
’’وٹ اِز دِز؟؟؟‘‘ میں نے پھر انگلش میں زور سے پوچھا۔
اب فہد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
’’چچ……کوئی کپڑا لے کے آؤ‘‘۔ میں ایک دوسرے ملازم سے زور دار آواز میں بولا۔ ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سب پریشان ہو گئے۔ ناجانے فہد نے ایسا کیوں کیاٖ……

خون کافی ذیادہ نکل رہا تھا۔ مجھ سے دیکھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں فہد چکر کھا کے زمین پر گِر گیا۔
’’اوہ شٹ!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
میں نے کپڑا لیا اور فہد کی کٹی ہوئی کلائی سے تھوڑاہٹ کر باندھ دیا۔ میں ایک کے بعد ایک گٹھان لگائے جاتا۔ سب پریشان ہو گئے تھے۔ مجدی نے ٹھنڈے پانی کا جگ اٹھا کر فہد کی کلائی پر انڈیلا۔
مگر خون نہیں رک رہا تھا۔ میں نے اور وقت ضائع کئے بغیر فہد کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔


اتوار کا دن تھا۔ مجدی صبح سویرے نہا دھو کر تیار ہوا۔سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنی اور چرچ کی راہ لی۔

سارے راستے وہ خدا تعالی کی تعریف کے ترانے گاتا اور حضرت عیسی ؑ پر درور و سلام بھیجتا بھیجتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم سب کی طرح اسے بھی مشکل وقت میں اﷲ یاد آ گیا تھا۔
جاب جو نہیں تھی…… اوپر سے شادی ہونے والی تھی۔ اتنی مشکلوں سے تو یہ رشتہ پکہ ہوا تھا۔ ایک عام سے آدمی کی طرح اس کی سوچ بھی بس یہیں تک تھی کہ پڑھائی ہو گئی ہے لہذا اب اچھی سی نوکری کہیں لگی رہے اور پھر شادی ہو جائے اور بال بچے اور بس…… کہ یہی زندگی کا کل مقصد ہے…… بس یہی کرنے کا کام ہے……

’’اے خداوند ! اپنی بیٹے یسوع مسیح کے صدقے میری سن لے…… میری جاب لگا دے……‘‘ ۔ ’’آمین‘‘۔مجدی نے بلا جھجک اﷲ کی ذات میں کھلا شرک کیا(معاذ اﷲ) ۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ وہ دل سے یہی جملہ دہرا دہرا کر خدا تعالی سے دعائیں مانگتا جا رہا تھا۔

مجدی چرچ کے سامنے بنے چھوٹے سے باغ میں داخل ہوا۔ سامنے چرچ کے ایک مینار پر بڑی سی صلیب بنی ہوئی تھی۔صلیب کو دیکھتے ہی اس نے اینے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور اپنے گلے میں پڑے ہوئے صلیب والے لاکٹ کو مضبوطی سے اپنی مٹھی میں دبا لیا۔
’’یا خداوند! مجھے اپنے پاس سے روزی عطا کر۔ آمین‘‘ مجدی نے اپنے لاکٹ کو اپنے دل سے لگا لیا۔

بہت سے اور لوگ بھی چرچ آئے ہوئے تھے۔ دلاور نے کچھ لوگوں سے ہاتھ ملایا اور چرچ کے ہال میں داخل ہو گیا۔
ایک بہت بڑی ٹائیلوں سے بنی حضرت عیسی ؑ کی تصویر ہال کے اسٹیج کے پیچھے کی دیوار پر بنی ہوئی تھی۔ کم و بیش بیس تیس فٹ بڑی تصویر…… ان کے ایک ہاتھ میں ایک شمع دکھائی گئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک کتاب ، جس پر انگریزی میں لکھا تھا:
’’I am who I am‘‘ ۔
یعنی
’’ میں وہ ہوں، جو میں ہوں‘‘۔یہ وہی الفاظ ہیں جو اﷲ ذولجلال شانہ نے تب ادا کئے جب مو سی ؑ سے اس نے پہلی بار ایک جلتی ہوئی جھاڑی میں سے کلام کیا۔ موسی ؑ نے سوال کیا تھا،’’ تو کون ہے جو جھاڑی میں سے بولتا ہے؟ ‘‘اور جواب ملا، ’’ میں وہ ہوں، جو میں ہوں‘‘۔

مجدی نے ہال میں داخل ہوتے ہی اپنا سر عیسی ؑ کی اس بڑی سی تصویر کے سامنے جھکا دیا۔ پھر ایک طرف کو بڑھ کر ایک شمع روشن کی اور بہت سارے بینچوں میں سے ایک بیچ پر جا کر ادب سے سر جھکا کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب محلے کے بچے شام کو باہر کھیلا کرتے تھے۔ مغرب کا وقت ہوتا تو سب واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے……مگر نا جانے اس دن سب کو کیا مستی چڑھی ہوئی تھی کہ عشاء ہونے کو آئی تھی پر کوئی گھر جانے کا نام نہیں لے رہا تھا۔دیر اتنی ہو گئی تھی کہ اب واپسی پر سب کو اپنے اپنے گھر سے ڈانٹ تو ضرور پڑنی ہی تھی۔ دراصل گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی تھی۔ اسی لئے سب بے فکر تھے۔ روز شام کو محلے میں ہلہ گلہ ہوتا رہتا تھا۔

آج بھی ہم سب شام سے کھیل رہے تھے۔دلاور بھی ساتھ ہی تھا اور دوسرے بھی بہت سے بچے تھے۔ کبھی ہم ایک دوسرے پر گیند اچھالنے لگتے…… کبھی مارم پٹی شروع ہو جاتی …… پھر پکڑم پکڑائی …… چھپن چھپائی…… بچوں کا دل کھیل کود سے کہاں بھرتا ہے!!!

ہمارے محلے کی ہی ایک گلی میں ایک شخص شام کو پھلوں کا ٹھیا لگایا کرتا تھا۔ وہ شاید صبح کہیں اور کام کرتا تھا اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے شام کو سڑک کے ایک کنارے پھل بھی بیچتا۔ عشاء کے وقت وہ اپنے پھلوں کو پیٹیوں میں واپس رکھتا اور ان پر موٹی موٹی سی کپڑے کی چادریں بچھا کر ، گٹھانیں لگاتا اور واپس اپنے گھر کو چل دیتا۔

ہم بچے کھیلتے کھیلتے اسی گلی میں آ گئے تھے۔ ہم پکڑم پکڑائی کھیل رہے تھے اور دلاور مجھے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ارے وہ دیکھو!‘‘ ایک بچے نے چیخ کر کہا۔
سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس بچے نے پھلوں کے ٹھیئے کے پاس سے ایک کینو اٹھا لیا جو وہیں ایک پیٹی میں سے نکل کر گر گیا تھا۔
اتنے میں ایک اور کینو پیٹی سے باہر گر گیا۔ اب تو سب کی عید ہو گئی۔ ہم سب اپنا کھیل بھول کر کینوؤں کو لوٹنے بھاگے۔ ایک بچے نے پیٹی کو ہلایا اور ایک ایک کر کے بہت سے کینو باہر گرنے لگے۔ ہم سب کو معلوم تھا کہ یہ چوری ہے ۔ اس لئے ہر کوئی ایک کینو اٹھا کر لمبی دوڑ لگا دیتا کہ کہیں کوئی پکڑ نہ لے۔

اتنے میں فروٹ والا کہیں سے نمودار ہو گیا۔ وہ ابھی تک وہیں کہیں گلی کے کنارے اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔
’’اوئے!!!‘‘ فروٹ والے نے ایک چنگھاڑ لگائی، کہیں سے ایک سوٹی پکڑی اور ہماری طرف لپکا۔ میرا تو دم ہی نکل گیا۔ میرے ہاتھوں میں بھی ایک کینو تھا۔ میں سر پٹ بھاگا جس طرف باقی بچے بھاگ رہے تھے۔ فروٹ والا ہمارے سامنے سے آ رہا تھا۔ میں اتنا بد ہواس ہو گیا کہ پیچھے بھاگنے کے بجائے اس کے سامنے کی طرف بھاگا جہاں سب بچے بھاگے تھے۔ میں بھاگ کر بچوں کی ٹولی میں مل جانا چاہتا تھا۔ مجھے یہ آسرا تھا کہ بچوں کے چھرمٹ میں گھل مل کر میں بچ جاؤں گا۔ میرے آگے جو بچہ بھاگ رہا تھا فروٹ والے نے اسے پکڑ لیا۔
’’انکل میرے پاس کینو نہیں ہے……‘‘ اس بچے نے فوراََ کہا۔ واقعی اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ اس نے پہلے ہی فروٹ والے کو دیکھ کر کینو پیچھے پھینک دیا تھا۔ فروٹ والے نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور میری طرف لپکا۔
’’ہا ہ……‘‘۔ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رک گیا۔
’’انکل اسی نے ہمیں کینو چرانے کا کہا تھا……‘‘ ۔ دور سے ایک بچے نے چیخ کر کہا۔ اب تو میری جان ہی نکل گئی۔
فروٹ والے نے مجھے پکڑ لیا۔’’شٹاخ شٹاخ ‘‘ کی آوازوں کے ساتھ فروٹ والے نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ میں جم کر اپنی جگہ کھڑا تھا اوردونوں ہاتھوں سے کَس کے کینو کو پکڑا ہوا تھا۔
اس نے پھر میرے منہ پر ایک طمانچہ مارا…… وہ اپنے منہ سے مجھے گندی گندی گالیاں بھی بک رہا تھا۔
تھوڑی ہی دپر میں میرا ضبط ٹوٹ گیا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ مجھے یقین تھا کہ میری پیٹ پر ڈنڈی کی مار سے نشان بھی پڑ گئے ہوں گے۔ میرے سارے دوست میرا یہ حال دیکھ کر کوسوں دور بھاگ چکے تھے۔

مجھے روتا ہوا دیکھ کر فروٹ والے نے مجھے مارنا چھوڑا اور ایک جھٹکے سے مجھ سے کینو چھین کر مجھے ایک طرف کو دھکیل دیا۔ میں گرتے گرتے بچا۔ کینو کا رس میرے کپڑوں پہ لگ گیا تھا۔ میں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے آنسو ٹپکاتا ایک طرف کو چلنے لگا۔ پیچھے سے بدستور فروٹ والا ہم سب پر لعنت ملامت کر رہا تھا اور ساری گلی میں بکھرے اپنے کینو اٹھا رہا تھا۔

’’ کینو توسب نے چرائے تھے…… تو مار صرف مجھے کیوں پڑی؟‘‘ میں نے ایک ہاتھ سے اپنے آنسوں پونچے۔ پیٹھ پر پڑی لچکدار ڈنڈی کی مار سے ایک جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔
’’میرے دوست مجھے چھوڑ کے بھا گ گئے!!!‘‘
’’انہوں نے یہ کیوں کہا کہ میں نے ہی کینو چرائے ہیں؟؟؟‘‘ میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔ میرا نازک سا دل ٹوٹ گیا تھا۔
پَرکسی سے کیا شکایت کرتا۔ گھر میں کچھ بتاتا تو اور ہی مار پڑتی کے چوری کیوں کی۔ اور شاید باہر آنا جانا بھی بند ہو جاتا۔

میں ہمیشہ کی طرح چپکے سے گھر میں داخل ہوا اور چھت بیٹھ کر رونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔

میری اور فوزیہ کی موبائیل چیٹ اب روز ہی ہوتی تھی۔ ہم دونوں بنا کچھ کہے ہی ایک دوسرے کے لئے ابھرتی محبت کو بھانپ چکے تھے۔ مگر ہم دونوں اپنی میچور عمر کو پہنچ چکے تھے لہذا اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ ہمارے درمیان کسی قسم کا چھچھورا پن نہ ہو۔ ویسے بھی ہم دونوں کی طبیعت بھی ویسی نہ تھی۔دونو ں ہی سوبر قسم کے سلجھے ہوئے انسان تھے۔

آج کل فوزیہ کہیں سے کوئی پروفیشنل کورس کر رہی تھی۔ اپنے آفس سے جلدی نکل کر کورس کرنے چلی جاتی تھی۔

’’ہیلو ذولقر! ‘‘
’’ پتا چلا؟؟؟‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ ، مجدی کا فون آیا تھا۔ نا جانے کس خبر کی بات کر رہا تھا۔ میں نے پریشان کن لہجے میں پوچھا کہ جانے کیا ہو گیا ہے۔
’’ ارے بھائی! سعید احمد کا انتقال ہو گیا نا…… جلسے میں فائرنگ ہوئی ہے…… بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے ہیں……تم جلدی جلدی اسٹور بند کر کے گھر جاؤ…… حالات بہت خراب ہیں……‘‘، مجدی نے ایک ہی سانس میں ساری کتھا سنا دی۔
’’ ہیں…… ؟؟؟‘‘ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں ۔ ’’ سعید احمد کا انتقال ہو گیا؟؟؟‘‘ میں بھی گھبرا گیا۔ سعید احمد ملک کا مشہور ترین سیاست دان تھا۔ اس کی ہلاکت سے لازماََ کراچی بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑنے تھے۔
’’ہاں یار …… تم گھر جا سکتے ہو تو فوراََ بھاگو …… ورنہ دوکان کو اچھی طرح بند کر کے اندر ہی آج رات گزارو…… ‘‘ مجدی نے جلدی جلدی چیخ کر کہا ۔ وہ بات ختم کرنا چاہتا تھا۔ شاید اسے کسی اور کو بھی فون کرنا تھا یا وہ خود بھی خطرے میں تھا۔
’’اچھا! اچھا! تم تو ٹھیک ہونا؟؟؟‘‘
’’ ہاں میں ٹھیک ہوں …… اوکے بائی‘‘ ۔ مجدی نے کال کاٹ دی۔

میں نے آناََ فاناََ اسٹور میں چیخ کر اعلان کر دیا کہ سب فوراََ گھر کی راہ لیں۔ جہاں ہمارا اسٹور تھا ابھی تک وہاں حالات نارمل ہی نظر آ رہے تھے۔
پانچ منٹ میں سب بند ہو گیا۔ میں نے باہر بازار میں جھانکا تو ہر طرف دوکانوں کے شٹر گرتے ہوئے ہی نظر آئے۔ خبر پکی تھی۔

میں نے دوسرے ہی لمحے فوزیہ کو فون لگایا۔ اس کا فون بزی جا رہا تھا۔
میں بہت پریشان ہو گیا۔ اکیلی لڑکی ایسے حالات میں …… کہیں کوئی اسے نقصان نہ پہنچا دے۔ کہیں کوئی اسے پریشان نہ کرے……

اسٹور بند ہو چکا تھا۔ میں نے نے کچھ سوچے سمجھے بغیر گاڑی اسٹارٹ کی اور اس روڈ پر چڑھا دی جو فوزیہ کے انسٹیٹیوٹ کی طرف جاتا تھا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر سارا شہر بند ہو گیا تھا ۔ جانے سب کہاں گھس گئے تھے۔

’’ڈھر ڈھر ڈھر ڈھر ‘‘ کی آواز سے آسمان گونج اٹھا۔ قریب ہی کہیں فائرنگ ہوئی تھی۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

کراچی کے حالات سے تو ساری دنیا ہی واقف ہے۔ کب کیا ہو جائے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ آئے دن یہاں حالات خراب ہی رہتے ہیں۔ کبھی ٹارگٹ کلنگ تو کبھی بوری بند لاشیں …… کبھی ہڑتالیں تو کبھی دھرنے ……بس یہی کچھ چلتا رہتا ہے۔ یہاں کی عوام بھی اب ان سب چیزوں کی عادی ہو گئی ہے۔ روز سب جان ہتھیلی پر رکھ کے اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور اﷲ اﷲ کر کر واپس لوٹتے ہیں۔

میں نے موبائیل پر پھر فوزیہ کا نمبر ملایا مگر کال نہیں مل رہی تھی۔ ایسے مواقع پر سگنلز بھی پرابلم کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ سب ہی لوگ اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کے لئے کال ملاتے ہیں۔

آج تو معاملہ بہت نازک تھا۔ جونہی میری گاڑی مین روڑ پر پہنچے ایک طرف ٹائر جلنے کا دھواں نظر آنے لگا۔ آگے ہی کچھ شر پسند لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ جھنڈے وغیرہ لئے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں نے آـؤ دیکھا نہ تاؤ فوراََ مین روڈ سے گاڑی ہٹاکر ایک علاقے کی اندرونی سڑک پر نکل گیا۔

میں نے ایک چھوٹا سا میسج فوزیہ کو بھیج دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں فوزیہ کی کال موبائیل پر آنے لگی۔ میں نے جھٹ سے کال اٹھائی۔
’’ہاں فوزیہ! کہاں ہوٖ؟‘‘ میں نے سلام دعا کئے بغیر پوچھ ڈالا۔
’’ہاں ذولقر! میں یہیں انسٹیٹیوٹ میں ہوں ……‘‘ ۔ ’’بہت سے اور لوگ بھی رکے ہوئے ہیں ……‘‘ ۔ فوزیہ نے جواب دیا۔
’’اچھا! یہ تو اچھی بات ہے …… حالات بہت خراب ہیں ۔ تم باہرنہ نکلنا ……‘‘
’’میں آ رہا ہوں ……‘‘ میں نے کہا۔
’’تم کیسے آؤ گے …… حالات ……‘‘ فوزیہ کچھ کہہ رہی تھی۔
’’ میں آ رہا ہو ں …… ڈونٹ وری ……‘‘ میں نے اس کا جملہ کاٹ کر کہا۔

کرتے کراتے کوئی ایک گھنٹے میں میں فوزیہ کے انسٹیٹیوٹ پہنچا۔ جب کہ راستہ بیس منٹ سے ذیادہ کا نہیں تھا۔
میں نے فوزیہ کو کال کر کے کہہ دیا کے نیچے آ جائے۔ وہ اپنے دو کلاس فیلوزکے ساتھ نیچے آ گئی۔


’’اف!‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’تم ٹھیک تو ہو نا؟؟؟‘‘ فوزیہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
’’ ایسے حالات میں یہاں کیسے پہنچے؟؟؟‘‘ ۔’’ کیا ضرورت تھی آنے کی؟؟؟‘‘ فوزیہ نے فکر مندی سے شکوہ کیا۔ وہ جلدی جلدی سب کچھ بول رہی تھی۔
’’بس ……‘‘ ۔’’ آنے تو تھا ہی ……‘‘ میں نے اسے جتانا چاہا کہ اس کا خیال رکھنا تو اس کا فرض ہے۔ فوزیہ بھی سب سمجھتی تھی۔ اسے بھی میرا اس کے لئے خطروں میں گھِر کر یوں اس تک پہنچنا اچھا لگا۔

مگر اب ہم جاتے کہاں۔ پہلے تو میری اکیلی جان تھی۔ اب فوزیہ کی ذمہ داری بھی سر پر تھی۔ فائرنگ اور لوگوں کے چیخ و پکار کی آوازیں بدستور آ رہیں تھیں۔ کچھ ہی دیر میں فوزیہ کے گھر والوں کا فون آ گیا۔ اس نے انہیں اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ میں نے بھی اپنے گھر کال ملائی ۔وہ بھی فکر مند تھے۔

میں نے ایک اچھے علاقے کی اندرونی سڑک پر گاڑی ڈال دی۔ ایسے وقت پر مجھے یہی سب سے مناسب قدم لگا۔ مین روڑ سیف نہیں تھے۔ اسی علاقے میں ہمارے ایک عزیز کا گھر بھی تھا۔ میں اکیلا ہوتا تو ضرور وہاں چلا جاتا۔ مگر ساتھ فوزیہ بھی تھی۔

میں نے ایک پارک کے درختوں کے نیچے گاڑی کھڑی کر دی۔ رات کے نو بج رہے تھے مگر لگ ایسا رہا تھا جیسے دو بج گئے ہوں۔
میں نے گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچی اور فوزیہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھا۔ اس نے جواباََ ایک ٹھنڈی آہ بھری اور نظریں جھکا کر سر کو ہلکا سا دائیں سے بائیں ہلایا۔
’’انشاء اﷲ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ میں نے فوزیہ کو حوصلہ دیا اور بلا جھجھک اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
وہ پہلے تو تھوڑی جھجھکی پھر جیسے اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیا۔
’’آئی لو یو‘‘ ۔ میں نے پہلی بار اس سے اظہار محبت کیا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔
کوئی جواب نہ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

میں اور مجدی شو اسٹور میں بیٹھے تھے۔ اب تو مجدی بیچارہ بالکل ہی ویلا ہو گیا تھا۔ یا تو چرچ میں گھسا دعائیں مانگتا رہتا یا پھر میری طرف آ جاتا۔ یہی اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ جب بھی آتا، نوکری کا رونا رونے لگتا۔ مجھے اس کی پریشانی کا اندازہ تھا ہی۔میں اسے دلاسہ دیتا اور بہتری کی امید دلاتا۔ بڑی مشکلوں سے تو اس کا رشتہ ہوا تھا ۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں منگنی ٹوٹ نہ جائے۔ ظاہر ہے ہر ایک کو اپنی اولاد کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ اس مادہ پرستی کے دور میں کوئی کیوں کسی بے روزگار کو اپنی بیٹی دے گا!

’’ویسے بھی یار تمہیں پتا ہی ہے …… ہم لوگوں کو مشکل سے ہی نوکری ملتی ہے!‘‘۔ مجدی نے پر شکوہ انداز میں کہا۔
میں نے منہ بنایا۔میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ وہ کرسشن تھا۔ اس کے خیال میں وہ تعصب کا شکار تھا۔ اس لئے باقی لوگوں کی نسبت اسے جاب ملنا ذیادہ مشکل تھی۔
’’ ایسی کوئی بات نہیں…… ‘‘
’’ساری زندگی تم نے اسی سوسائٹی میں گزار دی ہے…… اب ایسی باتیں نہ کرو……‘‘ میں نے اس سے اختلاف کیا۔ حلانکہ مجھے پتا ہی تھا جو کچھ کہ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے۔ مذہب تو مذہب ہے۔ یہاں تو لاہور والا کراچی سے چڑتا ہے۔ پنجابی کو پٹھان نا پسند ہے …… سندھیوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہے……
ہمارے ملک کے دو لخت ہونے کی بھی ایک اہم وجہ بنگالی بھائیوں سے تعصب ہی تھا۔ جب تک اتحاد نہیں ہو گا۔ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔

’’تم مانوں نہ مانو …… ایسا ہی ہے‘‘۔ مجدی نے پھر کہا۔
’’کئی لوگ تو اس گلاس میں پانی تک پینا پسند نہیں کرتے جس سے ہم نے پانی پیا ہو……‘‘۔ مجدی بہت دلبرداشتہ ہو رہا تھا۔ مگر میرے پاس اس کی بات کا واقعی کوئی جواب نہیں تھا۔ مجدی اور میرا سارا بچپن ساتھ ہی گزرا تھا۔ میں خود مجدی کے ساتھ ہوتے تعصب کا گواہ تھا۔

’’فہد !‘‘ ۔ میں نے زور سے کہا۔
فہد کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کوئی کسٹمر بھی اسٹور میں نہیں تھا۔
’’فہدیار باہر سے دو کولڈ ڈرنکس لا دو‘‘۔ مجھے وہ کہیں نظر تو نہ آ یا، پر میں نے ہوا میں ہی حکم جاری کر دیا۔
’’فہد !‘‘ میں نے پھر اسے آواز دی۔

’’جی سر! جی!‘‘ ۔ فہد آہستہ سا چلتا ہوا سامنے آیا۔
’’کیا ہوا؟ کہاں تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میں نے اس کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات محسوس کئے۔
’’نہیں سر …… بولیں‘‘۔ فہد نے کہا۔
’’اندر آؤ‘‘۔ میں نے فہد کو اسٹور میں بنے اپنے آفس میں آنے کا کہا۔ مجدی بھی وہیں بیٹھا تجسس سے فہد کو دیکھنے لگا۔
فہد کی آنکھوں میں ایک نشہ سا تھا۔ وہ کچھ مست سا ہوا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘
’’کوئی نشہ کیا وا ہے کیا تم نے؟؟؟‘‘ میں نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’نہیں سر نہیں……‘‘ ۔ فہد اپنی آنکھیں پوری طرح کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ تاکہ چاک و چوبند نظر آئے۔
میں نے سر سے لے کر پیر تک اس کا معائنہ کیا۔
’’یہ ہاتھوں میں کیا لگا ہے؟؟؟‘‘ میں نے تشویشناک انداز میں دریافت کیا۔ اس کی بائیں ہاتھ کی آستین لال ہوئی ہوئی تھی۔
میں یک دم کھڑا ہو گیا۔ مجدی بھی کھڑا ہو گیا۔ اسٹور کے کچھ اور ملازمین بھی اس طرف آ گئے۔
میں نے فہد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی کلائی سے خون رس رہا تھا۔
’’یہ کیا ہے!!!‘‘ ۔ میرے دل میں ایک ہول سا اٹھا۔ شاید فہد نے اپنی کلائی کاٹ لی تھی۔
’’وٹ اِز دِز؟؟؟‘‘ میں نے پھر انگلش میں زور سے پوچھا۔
اب فہد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
’’چچ……کوئی کپڑا لے کے آؤ‘‘۔ میں ایک دوسرے ملازم سے زور دار آواز میں بولا۔ ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سب پریشان ہو گئے۔ ناجانے فہد نے ایسا کیوں کیاٖ……

خون کافی ذیادہ نکل رہا تھا۔ مجھ سے دیکھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں فہد چکر کھا کے زمین پر گِر گیا۔
’’اوہ شٹ!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
میں نے کپڑا لیا اور فہد کی کٹی ہوئی کلائی سے تھوڑاہٹ کر باندھ دیا۔ میں ایک کے بعد ایک گٹھان لگائے جاتا۔ سب پریشان ہو گئے تھے۔ مجدی نے ٹھنڈے پانی کا جگ اٹھا کر فہد کی کلائی پر انڈیلا۔
مگر خون نہیں رک رہا تھا۔ میں نے اور وقت ضائع کئے بغیر فہد کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

 
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78376 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More