وہ جانتا تھا

(مقصود حسنی, قصور)

وہ جانتا تھا
منسانہ
مقصود حسنی


فیجاں کے تایا ابو اسے ملنے کے لیے آئے۔ دیکھا بدرا گھر پر اکیلا ہی بیٹھا ہوا تھا۔ ابتدائی سلام دعا کے بعد بیٹھ گئے۔ بیٹھنے کے فورا بعد فیجاں کا دریافت کیا کہ کہاں ہے۔ اس نے ذرا تلخ لہجے میں کہا اسے دورہ پڑ گیا تھا اور ٹیکہ لگوانے گئی ہے۔ یہ سن کر فورا اٹھ گئے اور چل دیے۔ اس کے روکنے کے باوجود نہ رکے۔
انہوں نے گھر سے باہر آ کر اس کے بڑے بھائی جو گرم اور تلخ مزاج کا تھا کو فون کیا اور بتایا کہ اس کی بہن کو دورہ پڑ گیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے اور تمہارا بہنوئی آرام سکون سے گھر بیٹھا ہوا ہے اور اسے بیوی کی رائی بھر چنتا نہیں۔ اس نے کام سے چھٹی لی اور گھر کی راہ لی۔ گھر آ کر ماں پر خوب گرجا برسا کہ اس کی پیاری بہن کا کس لاپرواہ سے رشتہ کر دیا تھا۔ ماں نے خاوند کو بلوایا وہ بھی کام چھوڑ کر گھر آ گیا۔
اچھا خاصا شور مچا۔ پورے محلہ میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ فیجاں کو دورہ پڑ گیا ہے اور اس کا خاوند بڑی لاپرواہی سے گھر پر آرام کر رہا ہے۔ یہ بات از خود مشہور ہو گئی کہ فیجاں کے خاوند نے اسے کچھ کر دیا ہے اور وہ ہسپتال میں آخری دموں پر ہے۔ ایک صاحب ہم دردی میں آ کر فیجاں کے قتل کی سازش کی اطلاع قریبی تھانے میں بھی کر آئے۔
گھر کا سارا لام لشکر بدرے کے گھر آ پہنچا اور اس کی کچھ سنے بغیر ہی اس پر جوتوں سمیت چڑھ دوڑا۔ وہ ان کی لغویات بڑے تحمل سے سنتا رہا۔ اس کا سالا نہالہ تو بار بار اسے مارنے کے لیے اس کی طرف آتا۔ وہ تو بھلا ہو ماموں شام کا جو اسے روک لیتا۔ اس کا موقف یہ تھا کہ اگر کوئی سٹ پیٹ آ گئی تو کیس برابر ہو جائے گا اور بدرا کڑی سزا سے بچ جائے گا۔
ابھی یہ رگڑا جھگڑا چل ہی رہا تھا کہ پولیس آ گئی انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بدرے کی خوب ٹھکائی کر دی۔ ان سے ایک پولیس والا کہنے لگا:
کنجر کہٰیں کا۔ بیوی کو قتل کر رہا تھا۔
لفظ کنجر پر وہ بھڑک اٹھا اور کہنے لگا: میں کنجر نہٰیں بےغیرت ہوں۔
اس کی گرج دار آواز اور اس کے الفاظ سن کر سب سکتے میں آ گئے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ کسی نے یہ کھوجنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی کہ وہ دورے یا شدید زخمی حالت میں ہسپتال اپنے پاؤں پر کیسے چلی گئی۔
پولیس اسے پکڑ کر لے جا رہی تھی اور ابھی گھر کے دروازے سے باہر بھی نہ نکل پائی تھی کہ فیجاں چنگی بھی گھر میں داخل ہوئی۔ اس پر خمار کی سی کیفیت طاری تھی۔ وہاں موجود لوگوں نے اس کی خماری کیفیت نوٹ کی۔ جوں اس نے گھر میں اتنے سارے لوگ اور پولیس دیکھی تو جنسی آسودگی کے خمار سے باہر آ گئی۔ فیجاں کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ اس کا بڑا بھائی غصے سے بولا کہاں گئی تھی۔ ادھر ہی تھی ادھر ہی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔ پولیس نے اس کے بھائی کو پرے دھکا دیا اور فیجاں سے پوچھنے لگے کہ بی بی تم کہاں گئی تھیں۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ دریں اثنا فیجاں کا باپ پولیس والے کی طرف بڑھا اور اس کی مٹھی میں کچھ لگا دیا۔ پولیس والے خاموشی سے گھر سے باہر نکل گئے۔
سیانا آدمی تھا پولیس کے چلے جانے کے بعد بولا۔ ہمیں اطلاع کی تصدیق کر لینی چاہیے تھی اور ہم دوڑے آئے۔ ان کے گھر کا مسلہ تھا۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہو ہی جاتا ہے یہ کون سی بڑی بات ہے۔
فیجاں کا خاوند منہ کھولنے کو ہی تھا کہ اسے خیال گزرا کہ وہ تو بیمار شمار رہتا ہے اس کا کیا پتا ہے۔ غلطی پر تو فیجاں ہے اور وہ اپنی عزت کا خیال نہیں کر رہی۔ اگر اس نے بھری مجلس میں فیجاں کی کرتوتوں کو نشر کر دیا تو اس کا اکلوتا بیٹا جو ہاسٹل میں داخل تھا مرتے دم تک یہ طعنہ سنتا رہے گا کہ اس کہ ماں ایک فاحشہ عورت ہے۔ یہ طعنہ سن کر وہ کس طرح پرسکون زندگی گزار سکے گا۔ چلو کوئی بات نہیں وہ عورت کی کمائی تو نہیں کھا رہا۔ اپنی کرنی خود بھگتے گی۔ وہ دلا نہیں بےغیرت ہے اور اسے اس بےغیرتی کی آگ میں چند اور سانسوں جلنا پڑے گا۔ اگر ساتھ بھیج دیتا تو چند معزز بیچ میں پڑ کر صلح صفائی کرا دیتے یا عرصہ دراز تک کچہری کی خاک چھاننا پڑتی۔ ہوتا کیا‘ کچھ بھی نہیں۔ وہ خوب جانتا تھا کہ اس اندھر نگری میں کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ یہاں حق سچ آنچ میں جلتا ہے اور دغا فریب کو کوئی آنچ نہیں۔
…………..
ابوزر برقی کتب خانہ
فروری ٢٠١٧
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.