آپریشن’ ردّ الُفساد‘ ۔امید کی کرن

تبدیلی بڑی ظالم شہ ہے ، ملکوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی آئے، ملک کا سربراہ تبدیل ہوجائے، موسم تبدیل ہو، انسان کی سوچ بدل جائے، دماغ تبدیل ہوجائے ، ادارے کا سربراہ تبدیل ہوجائے ،یہاں تک کہ ڈرائیور تبدیل ہوجائے،گھر کی ملازمہ تبدیل ہوجائے،آئی جی ، ڈی آئی جی، ایس پی، ڈی ایس پی یا تھانے کا ایس ایچ او تبدیل ہوجائے، ڈاکٹر تبدیل ہوجائے یا دوا تبدیل ہوجائے ، دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا سرغنہ تبدیل ہوجائے تو اس کے ساتھ ہی تغیرو تبدیلی کا عمل شروع ہوتا نظر آنے لگتاہے۔ محسوس ہونے لگتا ہے کہ کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ زرداری صاحب نے جنرل مشرف کو رخصت کیا ، ان کی اپنی حکمرانی قائم ہوئی جس کے نتیجے میں تبدیلی کی لہر صاف نظر آئی، میاں صاحب نے انانِ حکومت سنبھالا توتبدیلی کا رخ ایک صوبے کی جانب نظر آیا، سب کچھ ہوا لیکن پنجاب میں رینجر ز کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے وردی اتاری اور جنرل کیانی سپہ سالار بنے توتبدیلی نظر آئی ، کیانی رخصت ہوئے جنرل راحیل شریف سپہ سالار ہوئے تو تبدیلی واضح طور پر نظر آئی اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ سپہ سالار ہیں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک میں بعض سیاست داں تبدیلی کی رٹ بہت عرصے لگائے ہوئے ہیں ۔ ان کا تو کہنا ہے کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے۔ تبدیلی کب اور کیسے آتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ اصل تبدیلی یہ ہوگی کہ ملک سے دہشت گردی، شدت پسندی ، کرپشن ، اقربا پروری ، منافرت ، خواہ وہ ملک کے کسی بھی کونے کھانچے میں ہو ختم ہوجائے ۔ خدا کرے آپریشن ’رد ا لفساد ملک‘میں حقیقی اور مکمل تبدیلی کا باعث ہو جائے۔

ایک بات جو عام پاکستانی کو ستا رہی ہے کہ کیا آپریشن ’ضرب عضب‘ کے مقاصد پورے ہوگئے ؟یا یہ عمل محض نام کی تبدیلی ہے۔ یقیناًایسا نہیں ، موجودہ عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر ملک و قوم کی فلاح اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ عسکری اداروں کی جانب سے جب بھی کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے مثلاً کوئی علاقہ خالی کراناہو، کسی ملک پر قبضہ کرنا ہو، دشمن ملک پر چڑھائی کرنی ہو، ضروری نہیں مقصد جنگ و جدل ہی ہو یہ عوام کی فلاح و بہبود بھی ہوسکتا ہے جیسے سیلاب اور سیلابی تباہ کاریوں ، زلز لے کی تباہ کاریوں اور اس قسم کے فلاحی کاموں کے منظم و مربوط کاروائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کاروائی کو ایک خاص نام دے دیا جاتا ہے ۔ سیاسی حکومتیں بھی یہی کرتی ہیں جیسے سی پیک، نیشنل ایکشن پلان ،لیپ ٹاپ اسکیم، پڑھا لکھا پنجاب وغیرہ۔ یہ ایک قدیم روایت اور عسکری حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی اس قسم کے آپریشن کیے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں اس قسم کی روایت پائی جاتی ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظم میں عسکری قوتوں نے جب کاروئی کی اُسے کوئی نہ کوئی نام دیا گیا جیسے 1918میںMichaelنامی آپریشن ہوا، دوسری جنگ عظیم کے دوران کئی آپریشن ہوئے جیسے ایٹماسفئر، بیگم، بریچ، چیپٹر، آئرن سائیڈ، برلن، ڈومینو ، لیڈراور آپریشن جبرالٹروغیرہ شامل ہیں۔دنیا کے دس مشہور فوجی آپریشنوں میں آپریشن رو لینگ تھنڈر جو 1965سے1968تک جاری رہا، آپریشن میجک کارپٹ 1945 ،آپریشن ارجنٹ فنی1983، آپریشن کریسنٹ ونڈ2001، آپریشن سپارٹن اسکورپین، جون 2003، آپریشن ویلینٹ گرڈین، آپریشن بائیونیٹ لائیٹنگ 2003، آپریشن ڈیسرٹ اسٹرام1991,اور ایگل کلا شامل ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں بھی عسکری قوتوں نے ،،مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے آپریشن تشکیل کیے جنہیں کچھ نہ کچھ نام دیا گیا۔ ان میں آپریشنز ’المیزان‘ 2002 سے 2006 2007 تک جاری رہا ، یہ جنرل مشرف کا دور تھا ، آپریشن ’راہِ حق‘ نومبر2007 جولائی 2008 تک جاری رہا ، اس وقت سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت تھے، 2008میں آپریشن’شیر دل‘ اور آپریشن’ صراطِ مستقیم ‘ باجوڑ اور فاٹا میں کیا گیا اس وقت جنرل پرویز مشرف سربراہ تھے، ’زلزلہ‘ کے نام سے آپریشن 2008 اور2009 میں ہوا جو جنوبی وزیر ستان میں کیا گیا، اسی سال جب کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سپہ سالار تھے آپریشن ’خیبر 1،خبیر2اور خیبر 3 عمل میں آیا، آپریشن ’راہ راست‘ مئی2009 میں کیا گیا جو منگورہ میں ہوا۔ اسی طرح جنوبی وزیر ستان میں ہونے والے آپریشن کو ’راہ نجات‘ کا نام دیا گیا یہ اکتوبر2009میں سوات میں ہوا، جولائی 2011 میں ’کوہ سفید ‘ کے نام سے آپریشن کیا گیا جو خرم ایجنسی میں ہوا۔، 2014 میں جب جنرل راحیل شریف سپہ سالار پاکستان تھے آپریشن ’ضرب عضب‘ 15 جولائی 2014 کوشروع ہوا۔یہ جنرل راحیل شریف کے دور میں بڑی آن بان اور شان سے جاری رہا ،کراچی آپریشن ضرب عضب کا حصہ تھااور کراچی کوبڑی حد تک دہشت گرد کاروائیوں سے نجات ملی۔ایک اندازے کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے ذریعہ تقریباً 90فیصد مقاصد حاصل ہوئے ۔ اس دوران حکومت کی توجہ دہشت گردوں کی کاروئیوں کی جانب کم ہوئی ، اس میں تبدیلی کے عمل کا بھی دخل رہا ، دہشت گردوں نے اپنے آپ کو ازسر نو منظم کیا، پاکستان کے دشمن ملک بھارت تو پہلے ہی پاکستان کے لیے ہر وہ کام کرنے میں سر گرم تھا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے ، اب دہشت گردوں نے افغانستان میں اپنے خفیہ ٹھکانوں کو منظم کر لیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کاروئیاں یکے بعد دیگرے ہونے لگیں۔ آپریشن ضرب عضب نے اپنے مقاصد بڑی حد تک حاصل کر لیے تھے۔اس آپریشن کے اہداف کو حتمی مقام پر پہنچانا باقی تھا۔ کہ ملک پھر سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ۔ اب پاک فوج کے پاس سخت ایکشن لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا ، دہشت گردوں کی کاروئیوں کو دیکھتے ہوئے ایسے آپریشن کی ضرورت تھی جو پورے پاکستان کے علاقوں تک وسیع ہو۔ اس لیے کہ آپریشن ضرب عضب میں کراچی آپریشن اور خبیر پختونخواہ ، خیبر ایجنسی، فاٹا اوردیگر علاقوں میں کاروائی ہوئی۔ سندھ اندرونی علاقوں اور پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ٹھکانوں کے شواہد واضح دکھائی دے رہے تھے۔ لاہوری سہولت کار انوار الحق کا کیمروں کی مدد سے شناخت کیا جانا اور اوسر اس جیسے دیگر واقعات نے پنجاب کی حکومت کو پنجاب میں رینجرز کی کاروائیوں کو قانونی حیثیت دے کر انہیں ساٹھ دن کے لیے آپریشن ’رد الفساد‘ کے تحت کاروائی کرنے کی اجاذت دی۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جو نئی لہر آئی اس کے پیچھے کئی وجوہات رہیں جیسے کہ پہلے کہا گیا کہ حکومت پاناما میں الجھی اور پھنسی رہی، اسے پاناما سے جان چھڑانے کے علاوہ کچھ اور سجائی نہ دے رہا تھا۔ ان حالات کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا اور اپنے آپ کو افغانستان کے علاوہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے بعض اندرونی علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کر لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف فروری کے مہینے میں10سے زیادہہشت گرد اور خود کش حملوں کے واقعات خیبر پختون خواہ، پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ہوئے ۔ کوئٹہ، لاہور، پشاور ،مہمند ایجنسی اور اب سندھ کا شہر سہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلند کا مزار مبارک دہشت گردی کا نشانہ بنا۔لاہور کی اہم شاہرہ پر خون کی ندی بہائی گئی اس کے نتیجے میں پنجاب نے محسوس کیا کہ اب وہی کاروائی جنوبی پنجاب میں بھی ضروری ہوگئی ہے جو کراچی اور دیگر شہروں میں کی جاچکی ہے۔ پاکستان آرمی اور دیگر عسکری اداروں نے اب دہشت گردوں کو نیست و نابود کی ٹھان لی، عسکری قیادت نے آپریشن ’رد الفساد ‘ کا اعلان کیا ، بعد میں انقرہ میں وزیر اعظم صاحب نے وضاحت کی کہ آپریشن ’رد الفساد ‘ کا فیصلہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا، یہ کوئی نئی کہانی نہیں آپریشن ضرب عضب میں بھی یہی کچھ ہوا تھا، حکومت نے اسے بعد میں اون کیا تھا اب بھی یہی کچھ سامنے آیا، چلیں میاں صاحب کی حکومت میں ایسے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ فیصلہ کہاں ہوا، کاروائی عسکری اداروں نے کرنی ہے، قیات بھی عسکری قیادت کے پاس ہوگی ، مقصد حاصل ہونا چاہیے۔ اس آپریشن میں سیاسی اور عسکری قیادت باہم مل کر پاکستان سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کا مصمم عزم رکھتی ہیں یہ بہت ہی خو ش آیند بات ہے۔ سابقہ آپریشن ضرب عضب کو سامنے رکھتے ہوئے جو کمی دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے میں رہ گئی ہوگی اسے آپریشن رد الفساد میں پورا کیا جائے گا۔ فساد کی تعریف وسیع معنوں میں ہر قسم کی خرابی ہے ، اس میں مذہبی انتہا پسندی، لسانی دہشت گردی، علاقائی دہشت گردی، فرقہ واریت، کرپشن ،ہر قسم کی افراتفری ، باہمی منافر ت، اسٹریٹ کرائم، الغرض ملک میں ہر قسم کی دہشت گردی کو ختم کرنا اور شدت پسندی سے پاکستان کو آزاد کراناہی آپریشن ’رد الفساد‘ کا بنیادی مقصد ہے۔ معروف کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ’اب شاہراہ قائداعظم لاہور پر دہشت گردی اور سہون شریف ، پشاور ، چارسدہ پر مسلسل دہشت گردی نے رد الفساد کو جنم دیا جس کا اعلان سیاسی قیادت نے نہیں کیا ‘۔روزنامہ جنگ کااداریہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ’اس آپریشن کا فیصلہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں منعقدہ اعلیٰ سطح اجلاس میں کیا گیا۔دہشت گردی کے باقی ماندہ خطرے سے نمٹنا ، اب تک کئے گئے انسداد دہشت گردی کے آپریشنوں کی کامیابیوں کو مستحکم بنا نااور سرحدوں کی سیکورٹی سخت کرنا ، جنوبی پنجاب میں قائم دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کو نیست و نابود کرنا اس آپریشن کا بنیادی مقصد ہے۔ پنجاب میں رینجرزبڑے پیمانے پر کاروائی کرے گی، جن شہروں میں آپریشن پہلے سے جاری ہے وہ بدستور جاری رہے گا، ایسا نہیں کہ کراچی آپریشن ردالفساد سے خارج ہوجائے گا، کراچی آپریشن رد الفساد کا لازمی حصہ رہے گا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق آپریشن نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس کا اہم مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہے ۔ آپریشن ’رد الفساد‘ سابقہ آپریشن ’ضرب عضب‘ کی ان اہداف کو جو کسی وجہ سے باقی رہ گئے تھے پورا کرے گا اور یہ آپریشن بھی ضرب عضب کی طرح کامیاب و کامران ہوگا۔ پاکستانیوں کے لیے نئی امید لے کر آئے گا، دہشت گردو نے ملک میں جو خوف و ہراس پھیلادیا ہے اسے ختم کرنے میں یہ آپریشن اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستانی قوم کی تمام تر دعائیں اور نیک خواہشات پاک فوج کے ساتھ ہیں۔(25فروری2017)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1276793 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More