تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی جھوٹ

جدید زمانے میں سیاست اور جھوٹ کاچولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ یہ کہا جائے، تو غلط نہ ہو گا کہ جدید سیاست کی بنیاد ہی جھوٹ پر کھڑی ہے۔ اس لیے سیاست دانوں کا جھوٹ بولنا ایسا کوئی انہونا واقعہ نہیں، لیکن چندعظیم سیاسی جھوٹ ایسے بھی ہیں جنہوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں پر اثر ڈالا۔

اناستاسیا کا قتل
1918ء میں زار کے پورے خاندان کے قتل میں شہزادی اناستاسیا بچ گئی تھیں۔ دہائیوں تک مختلف دعوے دارشہزادی اناستاسیا ہونے کا دعویٰ کرتے رہے، جن میں اینااینڈرسن سب سے مشہور تھیں۔ یہاں تک کہ اس ’’جھوٹ‘‘ پر کئی فلمیں تک بن گئیں لیکن 2007ء میں جینیاتی جانچ سے ثابت ہوا کہ اس قتل ِعام میں شہزادی نہیں بچی تھی اور اینااینڈرسن جھوٹ بولتی رہی۔

شہزادی اناستاسیا کا قتل روس کی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ
واٹرگیٹ سکینڈل
امریکی تاریخ کا بدنام زمانہ سکینڈل جو واٹرگیٹ سکینڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس سکینڈل میں امریکی صدر کا جھوٹ پکڑا گیااور اس پورے معاملے نے نہ صرف اُن کی صدارت کا خاتمہ کیا بلکہ ملک کی ساکھ کو بھی دنیا بھر میں نقصان پہنچایا۔ یہ امریکا کے صدر رچرڈنکسن تھے، جودوسری بار امریکا کے صدربننے تھے۔یہ17جون 1972کا واقعہ ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کے واٹرگیٹ ہوٹل میں واقع ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے صدر دفتر میں چوروں کے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا،یہ کوئی عام چوری کا واقعہ نا تھا۔صدر رچرڈ نکسن کی ری الیکشن کمپیئن سے منسلک تھے اور یہ اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جب یہ ٹیلی فون کے تاروں کے ساتھ فون کال ٹیپ کرنے کے آلات منسلک کر رہے تھے اور خفیہ دستاویزات چرا رہے تھے۔تاریخ دانوں کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صدر رچرڈ نکسن کو واٹر گیٹ جاسوسی مشن کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس کا علم تھا یا نہیں۔کہا یہ جاتا ہے کہ صدر رچرڈ نکسن نے واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد چوری کے واقعہ کو دبانے کے لئے کثیر رقم خرچ کی،ایف بی آئی کو جرم کی تحقیقات سے روکنے کے لئے سی آئی اے کو استعمال کرنے کے علاوہ شہادتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ ان تمام سٹاف ممبروں کو عہدوں سے فارغ کر دیاجو تعاون پر تیار نہیں تھے۔آخر کار اگست1974ء میں واٹر گیٹ سازش میں صدر نکسن کے کردار کے سامنے آنے پر صدر نے استعفیٰ دے دیا۔ان کے جانشین جیرالڈ فورڈ نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی نکسن کو بطور صدر تمام جرائم جو تسلیم کئے گئے اور جو کئے جانے تھے میں معافی دینے کا اپنا صدارتی حق استعمال کرتے ہوئے معاف کر دیا۔ عدالت میں سخت ترین جنگ کے بعد عدالت نے فیصلہ کیا کہ صدر ریکارڈ شدہ ٹیپس فراہم کریں۔ وہ امریکا کی تاریخ کے پہلے اور واحد صدر ہیں، جنہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔واٹر گیٹ سکینڈل نے امریکہ کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا اب امریکہ کے عوام صدارتی محل اور اپنے لیڈروں کے لئے زیادہ تنقیدی ہو گئے ہیں،خاص طور پر صدر کے عہدے کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر زیادہ ہی تنقیدی نگاہ رکھی جاتی ہے۔یہی وجہتھی کہ1976ء کے الیکشن میں اگرچہ صدر فورڈ نے نکسن اورواٹر گیٹ سکینڈل کو نظر انداز کر دیا لیکن ان کے ڈیموکریٹک حریف جمی کارٹر نے واٹر گیٹ سکینڈل کو اس طرح استعمال کیا کہ صدر فورڈ صدارتی دوڑ میں دو فیصد ووٹوں سے شکست کھا گئے کیونکہ عوام واٹر گیٹ سکینڈل میں نکسن کی حمایت کرتے ہوئے صدر فورڈ کے معافی کے اعلان کو نہیں بھولے تھے۔

2005ء میں واشنگٹن پوسٹ کے دو نامہ نگاروں بوب ووڈ ورڈ اور کارل برنسٹین (جنہوں نے 1972ء میں واٹر گیٹ کے سکینڈل کا پردہ چاک کیا تھا)نے پہلی بار مارک فیلٹ کا نام منظر عام پر آیا۔ایف بی آئی کے سابق نائب سربراہ مارک فیلٹ کے نام کا انکشاف کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ جون 1972ء میں واٹر گیٹ نامی عمارت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر دفتر کا تالہ توڑ کے داخل ہونے کی جو واردات ہوئی تھی اس میں وائٹ ہاؤس کا ہاتھ تھا۔وائٹ ہاؤس نے اس واقعہ کی پردہ پوشی کی کوشش کی لیکن واشنگٹن پوسٹ میں تابڑ توڑ شہادتیں شائع ہوتی رہیں۔ بالاخر معاملے نے ایسی سنگین صورت اختیار کرلی کہ صدر نکسن کے مواخذے کی نوبت آن پہنچی لیکن انہوں نے خود ہی استعفیٰ دیدیا۔وائٹ ہاؤس کے چالیس افسروں پر جھوٹے حلف کے جرم میں مقدمے چلے اور سزائیں ہوئیں۔

خلیج ٹونکن
خلیج ٹونکن کا واقعہ اگست 1964ء میں ویت نام کے قریب واقع خلیج ٹونکن میں امریکی بحری جہازوں پر حملے کے دعوے کیے گئے، جس نے بعد میں ویت نام پر جنگ مسلط کرنے کی راہ ہموار کی۔خلیج ٹونکن واقعہ امریکا کی ویت نام میں براہ راست مداخلت کا سبب بنا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا تھا۔ امریکی بحری جہاز یو ایس ایس میڈوکس کو 2 اور 4 اگست 1964ء میں خلیج ٹونکن میں شمالی ویت نام کی تین جنگی کشتیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گو کہ اس واقعے میں کسی کی جان نہیں گئی لیکن مبینہ جارحانہ کارروائی کانگریس کو ایک قرارداد منظور کرنے کے لیے کافی تھی جس کے بعد صدر لنڈن جانسن نے جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک پر چڑھائی کا حکم دیا۔

اس واقعے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکا ویت نام جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور ایک نہ ہونے والے واقعے کو جواز بنایا گیا۔ گو کہ ابتدا ہی سے اس واقعے پر شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے تھے لیکن دہائیوں تک مزاحمت کرنے کے بعد بالآخر 2005ء میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آ گئیں جن میں قبول کیا گیا تھا کہ 4 اگست والا واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا تھا۔ امریکا کا دعویٰ رہا ہے کہ شمالی ویت نام کی کشتیوں نے امریکی جہاز پر فائرنگ کی تھی جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس واقعے میں نہ ہی امریکی بحری جہازوں کو نقصان پہنچا اور نہ ہی کوئی اہلکار مرا لیکن مبینہ حملے اور داغے گئے، تارپیڈو کے بعد امریکا کی ’’سلامتی‘‘ کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا، بعد ازاں حکومت نے ویت نام میں ’’کمیونسٹ جارحیت‘‘ کو روکنے کی ٹھانی اور پھر ’’بڑے بے آبرو ہو کر‘‘ نکالے بھی گئے۔ واضح رہے کہ بعد ازاں ثابت ہوا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ خلیج ٹونکن میں پیش ہی نہیں آیا تھا۔

مونیکا لیونسکی سکینڈل
جنوری1998ء میں ایک امریکی صحافی نے ایسی خبر ’’بریک‘‘ کی، جو اپنے زمانے کی سب سے بڑی خبر بنی کہ امریکا کے صدر بل کلنٹن کے وائٹ ہاؤس کی ایک انٹرن مونیکالیونسکی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ جیسے ہی شبہات بڑھے، صدر کلنٹن نے اعلانیہ کہا کہ ’’میرا اس عورت مونیکا کے ساتھ کوئی غلط تعلق نہیں ‘‘لیکن یہ سفید جھوٹ ہی نہیں بلکہ انہوں نے حلفیہ بھی یہی جھوٹ بولا، جو اُن کے خلاف مواخذے کا سبب بن سکتا تھا۔ بعد میں وائٹ ہاؤس کی ایک سابق اہلکار اور مونیکا کی ہم رازلنڈا ٹرپ کی ریکارڈ شدہ ٹیلی فونک گفتگو سامنے آئی ،جس میں وہ کلنٹن کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں گفتگو کرتی پائی گئی۔ معاملہ کھل کر سامنے آ گیا اور بالآخر بل کلنٹن نے اقرار کیا اور یوں 90ء کی دہائی کا سب سے بڑا سیاسی جھوٹ پکڑا گیا۔

فوکوشیما حادثہ
فوکوشیما حادثہ 11 مارچ 2011ء کو جاپان میں ایک زبردست زلزلہ آیا، جس کے نتیجے میں ایک تباہ کن سونامی نے ملک کا رْخ کر لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسرا بڑا خطرہ تھا کیونکہ فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ میں واقع دو بڑے ایٹمی ری ایکٹرز نا کام ہو گئے تھے۔ ابتدائی طور پر جاپانی حکومت اور یہ پلانٹ چلانے والے ادارے نے تباہی کی سطح کو چار نمبر پر قرار دیا جو حقیقت میں 7 تھی ،یعنی تاریخ کے بدترین جوہری حادثے چرنوبل کے برابر تھی۔

کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی
عراق کو کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ امریکا جوہری، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف ہے، خاص طور پر دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر خود ایٹمی حملہ کرنے کے بعد سے۔ حال ہی میں سی آئی اے کی جانب سے چند دستاویزات کی راز دارانہ حیثیت ختم کی گئی ہے، جس میں معلوم ہوا ہے کہ امریکا نے عراق کے صدر صدام حسین کی مدد کی کہ وہ ایسے ہتھیار تیار کریں اور ایران کے خلاف جنگ میں اہداف پر اْن ہتھیاروں کا استعمال کریں۔ کہا جاتا ہے کہ صدر ریگن کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ وہ ایران کو بڑا خطرہ سمجھتا تھے۔

وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار
عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار 2002ء میں امریکا نے دنیا بھر میں عراق کا ’’ہوا‘‘ پھیلایا اور صدر جارج ڈبلیوبش کی تمام انتظامیہ کا ایک ہی راگ تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، جن سے مغربی دنیا کو خطرہ لا حق ہے۔ صدربش ہی نہیں ان کے وزیر ڈونلڈرمزفیلڈ بھی یک زبان ہو کر اس دعوے کو حقیقت قرار دے رہے تھے اور نتیجے میں عراق پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کر دیا گیا۔آج 13 سال گزر جانے کے بعد بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی ہتھیار عراق سے برآمد نہیں ہوا، لیکن لاکھوں افراد کی جانیں ضرور چلیں گئیں اور ایک ہنستا بستا ملک برباد ہو گیا۔ بعد میں جارج ڈبلیوبش یہ کہہ کر اپنی خفت مٹاتے دکھائی دئیے کہ ہتھیار تو نہیں ملے، لیکن صدام حسین ایسے ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ ان کی حکمرانی میں عراق میں عوام پر جو عرصہ حیات تنگ تھا، اس سے اْن کی جان ضرور چھوٹی ہے۔

میمو گیٹ سکینڈل
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے انکشاف کیا ہے کہ پی پی کے دور حکومت میں سی آئی اے اہلکار پاکستان آئے،ان کی تعیناتی میں حکومتی رضامندی شامل تھی۔ اسی اقدام کی وجہ سے امریکہ نے اسامہ بن لادن کا کھوج لگایا۔ امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں لکھے گئے آرٹیکل میں حسین حقانی نے اعتراف کیا کہ انہوں نے سی آئی اے اہلکاروں کی پاکستان میں تعیناتی کیلئے سویلین حکومت سے بات چیت کی اور حکومتی رضامندی سے سی آئی اے نے پاکستان میں کارروائیاں کیں۔ اوباما انتظامیہ کے ساتھ ان کے تعلقات نے آگے چل کر اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی راہ ہموار کی اور امریکی حکومت اس قابل ہوئی کہ پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد کے بغیر اسامہ بن لادن کا کھوج لگا لیا۔ اوباما کی الیکشن مہم کے جن ٹیم ممبرز کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے، اوباما کے اقتدار سنبھالنے کے تین سال بعد جب وہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اہلکار بنے تو انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اور سپیشل آپریشنز کے اہلکاروں کو پاکستانی سرزمین میں تعینات کرنے میں تعاون کی اپیل کی۔ میں نے پی پی کی حکومت کے سامنے اپنی تجاویز رکھیں اور حکومت کی رضامندی کے بعد امریکی اہلکاروں کی تعیناتی کی اجازت دی گئی۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے حسین حقانی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اسامہ کے خلاف آپریشن کیلئے سی آئی اے یا امریکہ کی کوئی خفیہ سپورٹ نہیں کی۔ میں نے امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر انٹیلی جنس اور امریکی فوجی اہلکاروں کو ویزہ دینے سے انکار کیا اور ہماری حکومت نے ہی شمسی ایئربیس کو امر یکہ سے واپس لیا۔ جب بھی امر یکیوں کے ویزے کے حوالے سے میرے پاس ویزہ کیلئے کوئی درخواست آتی، میں اس وقت صدرآصف زرداری اور حکومت سے مکمل مشاورت کرتی اور میں سوفیصد یقین سے کہتی ہوں کہ ہم نے ملکی اور قومی مفادات سے ہٹ کر کسی بھی امریکی اہلکار کو کوئی ویزہ نہیں دیا اور امریکہ سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جس سے پاکستان کے مفادات متاثر ہوں۔

Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.