چاہت بھری رفاقت کے 39سال

(شادی کی سالگرہ پر لکھی جانے والی ایک شگفتہ تحریر)

زندگی بھی کتنی انمول ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ میں دولہا بن کے ایک پرانی سی کار پر دلہن کو لینے اپنے سسرال گیا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھاسب کی نظروں کا تارا میں ہی تھا۔ ہر شخص مجھ پر ہی صدقے واری جارہا تھا ۔ دوست اپنی محبتیں نوٹوں کی شکل میں نچھاور کررہے تھے ۔جیسے ہی محبوب کی گلی میں ٗمیں نے پہلا قدم رکھا تو بینڈ باجے والوں نے اپنی مدھر دھنوں میں محمد رفیع کا ایک معروف نغمہ گانا شروع کردیا۔ جس کے بول تھے ۔
"بہارو پھول برساؤ ...... میرا محبوب آیا ہے ..... میرا محبوب آیا ہے ۔

جونہی اس گانے کی مدھر دھن میرے کانوں تک پہنچی تو پورے جسم میں سرور کی ایک لہر اٹھی اور پاؤں کے انگوٹھے سے دماغ کی آخری شریان تک دوڑتی چلی گئی ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں اس وقت انتہائی دبلا پتلااور لمبا سا لڑکا تھا۔ میں خود جب شیشے کے سامنے کھڑا ہونے کی غلطی کرتا تو مجھے اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگتی ۔ لیکن جب میں شیشے سے دور ہٹتا تو خودکو فلمی ہیرو وحید مراد سے بھی زیادہ خوبصورت اور سمارٹ تصور کرتا ۔ یہ گمان شیشہ نہ دیکھنے تک مجھ پر غالب رہتا ۔ اس وقت گھر میں صرف ایک ہی شیشہ تھا اوروہ بھی اس وقت کسی جگہ سے نمودار ہوتا جب ماں اپنے سر پر سرسوں کا تیل لگاکر اسے دیکھ کر کنگھی کرتی ۔ شیشے کو سامنے رکھ کر اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے ناک کوپیمانہ بناکر سر کے آخری حصے تک لے جاتی اور بالوں کے درمیان کسی گاؤں کو جانے والی پگڈنڈی جیسی لکیر نظر آنے لگتی ۔ شادی کے ایک ہفتہ پہلے ہی گھر میں عارف والا سے میری نانی ٗخالائیں ٗ ماموں ٗ کزنز پہنچ چکے تھے ۔روزانہ گھرکے سامنے خالی میدان میں قطار در قطار رنگین پاواں والی چارپائیاں بچھا ئی جاتیں پھر فرنیل کی خوشبو والے بستر پیٹی سے نکال کر چارپائیوں پر آراستہ کیے جاتے ۔ تکیے بھی اتنے خوبصورت جن پر گھر کے کسی نہ کسی فرد کا نام یا اس زمانے کا کوئی بہترین شعر کڑھا ہوتا ۔ آرام دہ بستر پر لیٹتے ہی مہمان کو نیند آجاتی ۔ صبح سویرے والدہ لکڑیاں جلاکر چائے کا دیگچا چولہے پر رکھتی اور چینی کی بنی ہوئی چائے کے ساتھ چنگیر میں رسوں کے انبار لگاکر مہمانوں کو پیش کیے جاتے ۔ مہمان بھی چائے میں رس ڈبو کر جی بھر کرکھاتے کہ دوپہر سے پہلے کھانا ملنے کی قطعا امیدنہیں ہوتی ۔دوپہر کو مہمانوں کی تعداد کے مطابق روٹیاں پکانے کے لیے تندورجلایا جاتاجس پر ڈھیر ساری روٹیاں اور سالن پکا کر مہمانوں کو پیش کیا جاتا۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری شادی سے پہلے والدین نے ایک حلوائی کو گھر بلاکر ڈیڑھ من لڈو بھی بنوائے تھے جس میں سے کچھ بارات کے ساتھ دلہن کے گھر چلے گئے تو کچھ لڈے دلہن کے گھر آنے کی خوشی میں محلے میں بانٹ دیئے گئے ٗ جو باقی بچے ان کو میں روزانہ کھا لیا کرتا کیونکہ شادی کی خوشی سب سے زیادہ مجھے تھی۔
.........
بارات محبوب کی گلی میں پہنچ چکی تھی ۔ شہنائیوں کی آواز نے پورے محلے کو میری آمدکی خبر کردی تھی ۔کچے مکانوں کی چھتوں پر لڑکیاں اور عورتیں دولہے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار تھیں ۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ آج ہر کوئی صرف اور صرف مجھے ہی دیکھنے کی تمنا رکھتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنا خوبصورت چہرہ سہرے میں چھپا رکھا تھاتاکہ نظر بد سے بچا رہو۔سہرے کی جھالروں کے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ تھا جس سے مجھے راستہ نظر آتا ۔ 6 اپریل 1978ء کے اس دن موسم بھی سہانا تھااور دل بھی جوان تھا ۔ بینڈ باجے کی دھن پر میں ایک قدم اٹھا تا ہوا میں دلہن کے گھرکی جانب بڑھ رہا تھا۔ کچھ منچلے دوستوں نے شادی کی خوشی میں ڈانس کرنے کی کوشش بھی کی جسے چوبارے پر کھڑی ہوئی لڑکیوں نے جی بھر دیکھا اور داد بھی دی ۔ میں نے سہرا کی ایک جھالر اٹھا کر گھروں کی چھتوں پر کھڑی ہوئی منچلی لڑکیوں کو ایک نظر دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں ان کی اس حرکت کو دیکھ کر مجھے کچھ شرم سی محسوس ہونے لگی ۔جس سے بچنے کے لیے میں نے اپنے مہندی والے ہاتھ میں رومال پکڑا اپنی ناک پر رکھ لیا ۔ دولہے کی یہ ادا بھی ان دنوں بہت مقبول سمجھی تھی ۔ایک ہاتھ میں ہاکی اور دوسرے ہاتھ میں رومال ناک پر رکھ کر محبوب کی گلی میں داخل ہوگیا ۔ رومال کا استعمال تو سمجھ میں آیا لیکن ہاکی کے استعمال کاآج تک مجھے علم نہیں ہوسکا کہ دولہے کو دلہن کے گھر جاتے ہوئے ہاتھ میں ہاکی کیوں پکڑنی پڑتی ہے ۔

صوفی بندے حسن خان جو میرے سسر تھے انہوں نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیااور پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے جیسے ہم ابھی ابھی حج کرکے واپس آئے ہوں۔پھر دولہے سمیت باراتیوں کو ایک کشادہ احاطے میں جابٹھا یا جہاں باراتیوں کے لیے تو کرسیاں بچھی تھی جبکہ دولہا کے لیے ایک تخت پوش پر دری بچھا دی گئی ۔نہ کوئی ٹینٹ اور نہ ہی کوئی قناعت لگی نظر آئی ۔ صرف ایک درخت کا سایہ تھا جو پہلے مجھ پر تھا پھر سورج کی پوزیشن بدلتے ہی باراتیوں پر چلا گیا ۔دھوپ کی وجہ سے مجھے خاصی گرمی لگنے لگی اس لیے سہرے کانقاب اٹھا دیاتاکہ جس کادل چاہے وہ میری زیارت کرلے ۔میری اس بے باکی کا فائدہ اردگرد کے گھروں کی چھتوں پر کھڑی ہوئی لڑکیوں نے خوب اٹھایا۔اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتی رہیں ۔جیسے میں انسان نہیں کوئی آسمانی مخلوق ہوں ۔ شادی والے دن انسان دولہا بن کے عجیب نمونہ بن جاتا ۔ جس کو دیکھنے کے لیے ہر شخص بے تاب ہوتا ہے حالانکہ شادی کے اگلے دن وہی شخص گلیوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے ۔ سر پر آٹے کا توڑا اور ہاتھ میں سبزی کاتھیلا ہوتاہے لیکن اس حالت میں کوئی بھی غور سے دیکھنے کی خواہش نہیں رکھتا ۔

جوں جوں سورج کی تمازت مجھ پر نچھاور ہونے لگی ٗگرمی کی شدت بھی بڑھنے لگی ۔ میں نے اردگرد اپنا ہمدرد تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کسی کو بھی مجھ پر ترس نہ آیا۔اسی اثنامیں مولوی یوسف صاحب نکاح کاایک بڑا سا فارم ہاتھوں میں لیے سیدھے میرے پاس آپہنچے ۔ نکاح فارم توایک دن پہلے ہی پر ہوچکا تھااب صرف نکاح کی رسم باقی تھی ۔ حسن اتفاق سے چھ کلمے مجھے بھی بہت اچھی طرح یاد تھے جو مجھے میرے استاد حافظ خیر دین صاحب نے یاد کروائے تھے ۔ جیسے ہی مولوی صاحب تیسرے کلمے پر پہنچے تو میں نے انہیں ٹوکا کہ آپ کلمہ صحیح نہیں پڑھ رہے ۔ وہ ٹھٹھک کر رہ گئے اور غصے کے عالم میں مجھے گھورنے لگے ۔ میں نے انتہائی ادب سے گزارش کی کہ مولوی صاحب یہ کلمہ تمجید ایسے پڑھیں ۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی کہ میں نے تیسرا کلمہ پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب میرے پیچھے پیچھے کلمہ پڑھنے لگے۔ پانچویں کلمہ تک اسی طرح ہوا تو میں نے احتجاج کیا اور کہا مولوی صاحب نکاح تو میرا ہے آپ کانہیں ۔ پھر آپ میرے پیچھے کلمے کیوں پڑھ رہے ہیں ۔ پہلے آپ کلمہ پڑھیں آپ کے بعد میں پڑھوں گا ۔میری یہ بات سن کر وہاں موجود لوگوں نے قہقہہ لگا دیا جس سے مولوی صاحب کو خاصی ندامت کاسامناکرناپڑا ۔

قصہ مختصر جب مولوی صاحب نے کلمے پڑھانے کے بعد ایک لمبی سے تمہید باندھی ۔عابدہ بنت صوفی بندے حسن خان کو آپ کے نکاح میں دیا جاتاہے کیا آپ قبول کرتے ہیں ۔ میں خاموش رہا ۔ دوسری بار پھر مولوی صاحب نے یہی الفاظ دھرائے تو میں پھر خاموش رہا ۔ اس لمحے میری خاموشی پر نہ صرف مولوی صاحب پریشان ہوئے بلکہ میرے سسرکے ماتھے پر پسینے کی آبشار بہنے لگی ۔ سرگوشیاں شروع ہوگئیں کہ دولہا تو خاموش ہے ۔پتہ نہیں کیا چاہتا ہے۔وہ لڑکی کو پسند بھی کرتا ہے یانہیں ۔ کوئی میری خاموشی کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوا ۔ لڑکی کے والد نے میرے والد کو کہنی ماری اور دبے لفظوں میں احتجاج کیا ۔ میرے والد نے کہرآلود نظروں سے مجھے دیکھااور آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے ڈانٹا کہ تمہاری یہ جرات کہ تم لڑکی قبول نہیں کررہے ۔ جب والدکو غصے میں لال پیلا دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ اب میری خیر نہیں ہے ۔ اب ساری عزت خاک میں ملنے والی ہے ۔اس لیے فوری طور تین مرتبہ قبول کی ٗ قبول کی ٗقبول کی ۔ کہہ کر سب کے اعصاب کوڈھیلا کیا ۔ بعد میں والد صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیا تکلیف تھی تم ہاں کیوں نہیں کررہے تھے تو میں نے کہا ابا جی کچھ سسپنس بھی توہونا چاہیئے نا۔

نکاح کے بعد دولہے اور باراتیوں کی ضیافت زردے اورپلاؤ سے کی گئی ۔پھر مجھے دلہن کے گھر لے جایا گیا جہاں رسمیں پوری کرکے رخصتی کا لمحہ آپہنچا ۔لڑکی کے سب سے بڑے بھائی مشتاق احمد خان نے اپنی بہن کو میری فٹیچر سی گاڑی میں لا کربٹھایا۔اس وقت کسی نے ٹیپ ریکارڈ پر یہ گانا چلا دیا ۔ جس کے بول تھے ۔
بابل کی دعائیں لیتی جا ...... جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے بھی تجھے نہ یاد آئیں .....سسرال میں اتنا پیار ملے

یہ گانا اس قدر پر سوز تھاکہ لڑکی والوں کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے ۔ جب میں کافی آنسو بہا چکا تو یاد آیا کہ جس دلہن کی رخصتی پر سب سوگوار ہیں اسے تو میں ہی اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں اس لیے میرے رونے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ چنانچہ میں نے جلدی سے آنسو صاف کیے اور گردن تن کر ایک بار پھر کھڑا ہوکر یہ رقت آمیز منظر دیکھنے لگا ۔ حسن اتفاق سے مجھے نئی نویلی دلہن کے ساتھ ہی بیٹھنے کا موقع مل گیا ۔ جوانی میں طبیعت میر ی بھی بہت رومانٹک تھی ۔ میں بھی خود کو فلموں کا ہیرو سمجھتا تھا لیکن میری یہ خام خیالی اس وقت ہوا ہوجاتی جب میں شیشے کے سامنے کھڑا ہوتا ۔ پتہ نہیں میرے سسر کو مجھ میں کیا چیز اچھی لگی کہ انہوں نے اپنی سب سے لاڈلی بیٹی کو میرے ساتھ رخصت کردیا ۔بعدمیں پتہ چلاکہ میرے سسرکو صرف یہ بات پسند آئی کہ لڑکا سرکاری نوکر ہے اور اس کو مہینے بعد تنخواہ مل جاتی ہے اس لیے ان کی بیٹی بھوکی نہیں رہے گی ۔

اس کے باوجود کہ لڑکی کی والدہ سمیت سب گھر والے اس رشتے کے مخالف تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرا سسرال اردو سپیکنگ تھااور میرا خاندان پنجابی تہذیب و کلچر کا علمبردار تھا ۔ کار میں لگی ہوئے ڈیک پر اس وقت کاایک معروف گانا ہمارے کانوں میں رس گھولنے لگا ۔ یہ گانا بھی محمد رفیع ہی نے گایا تھا ۔ جس کے بول تھے -;
مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا ........ اگر طوفان نہیں آتا کنارہ مل گیا ہوتا

اس گانے کے بول ہو بہو میرے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے اور میں لہک لہک کر ساتھ بیٹھی ہوئی دلہن کو یہ احساس کروا رہاتھا کہ یہ گانا محمد رفیع نہیں میں گارہا ہوں اور تیرا ساتھ ملنے کی وجہ سے خوشی کا اظہار کررہا ہوں۔ ایک طرف میرے جذبات زوروں پر تھے تو دوسری جانب بے چاری دلہن مجھ سے خوف زدہ ہوکر دوسری جانب سمٹی جا رہی تھی اور یقینا سوچ رہی ہوگی کہ کس گلوکار سے میرا واسطہ پڑ گیا ہے ۔ یہ وہ وقت تھا جب لڑکیاں والدین کی عزت کے لیے برے سے برے مرد کو بھی شوہر کی حیثیت سے قبول کرلیا کرتی تھیں اور زندگی بھر والدین کی عزت کابھرم رکھتیں ۔ یہ بھرم میری بیوی کو بھی ہر صورت رکھنا تھا ۔ جب کار چلی تو مجھے ان باراتیوں کی کوئی فکر نہ تھی جو مجھے اپنی جیب سے ایک روپے کے نوٹ نکال کر مجھ پر نچھاور کررہے تھے ان کے ہاتھوں سے بینڈ باجے والے نوٹ پکڑنے میں کسی تاخیر کامظاہرہ نہیں کررہے تھے ۔

دلہن کو لے کر جب ہم اپنے محلے میں پہنچے تو دوستوں نے دن کے اجالے میں بھی آتش بازی شروع کردی ۔یہ آتش بازی اس بات کا اظہار تھاکہ دولہا دلہن کو لے کر گھر کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ سب متعلقین ہوشیار باش ہوجائیں اور لمبی قطار بنا کر استقبال کی تیار ی کریں ۔ ماں نے سرسوں کے تیل کی بوتل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ٗ بڑی بھابی روقیہ کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا ۔ جب قرآن پاک کے سائے میں ہم دونوں نے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گھر کی دہلیز پر قدم رکھاتو ماں نے آگے بڑھ کر دہلیز کے دونوں اطراف سرسوں کا تیل ڈال کر شگون پورا کیا اور دلہن کو پیار سے گلے لگا کر اس کا ماتھا چوما ۔پھر ہمیں اس چھوٹے سے برآمدے میں بٹھادیاگیاجہاں جگہ کی تنگی کے باعث پہلے سے اوپر نیچے چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔ماں جی نے گھر کا اکلوتا شیشہ مجھے دے کر کہا بیٹاتم دونوں اس شیشے میں اکٹھے اپنا چہرہ دیکھو ۔ دوسرے لفظوں میں یہ اجازت نامہ تھا کہ میں اپنی بیوی کو پہلی بار شیشے میں دیکھ لوں۔ اس سے پہلے میں نے کتنی بار تصورات کی دنیا میں ہی ایک پری کو اپنے صحن میں اترتا ہوا دیکھا تھا۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میرے سسر بہت سخت مزاج تھے۔ ان کے گھر میں کوئی غیر محرم جوان داخل نہیں ہوسکتا تھا ۔ گھر کے دروازے پر ہر وقت بھاری پردہ پڑا رہتا جس کو تیز ہوا بھی اپنی جگہ سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوتی ۔یہ پردہ صرف اس وقت ہلتا جب کوئی بڑا فرد گھر میں داخل ہوتا ۔ یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ میں منگی سے لے کر شادی تک کتنی بار ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میاں میر دربار تک گیا تھا ۔ میرے سسرال کاگھر چونکہ راستے میں ہی آتا تھا ۔اس لیے بارہا مرتبہ اپنی ہونے والی دلہن کو دیکھنے کی جستجو کی لیکن ہر بار میری کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔اس طرح تمام تر کوشش کے باوجود میں شادی سے پہلے بیگم کی صورت نہ دیکھ سکا ۔

ماں نے جب شیشہ مجھے تھمایا تو پہلی باراس میں بیگم کی صورت بے نظیر دیکھی جو سراپا حسن تھی اور حسن بے مثال کا شاہکار تھی ۔ جسے دیکھ کر میرا سر فخرسے تن گیا اور میں اپنے والدین کے فیصلے کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا ۔ ابھی میں شیشہ میں رخ زیبا دیکھ کر فارغ ہوا ہی تھا کہ محلے کی ساری عورتیں اپنے ہاتھ میں پانچ روپے کا نوٹ پکڑے قطار بنائے دلہن دیکھنے کی آرزو مند تھی ۔ جو بھی گونگھٹ اٹھاکر دیکھتی تو اس کی زبان سے یہ الفاظ بے ساختہ نکلتے ماشا اﷲ دلہن بہت خوبصورت ہے ۔ ماں کو یقینا اپنے فیصلے پرفخر محسوس ہوتا خواتین کی باتیں سن کر میں بھی کچھ دور بیٹھا خوش ہورہاتھا ۔ یہ خوشی کیوں نہ ہوتی ۔ اتنی خوبصورت دلہن تو نصیبوں والوں کو ہی ملتی ہے جو مجھ جیسے بیکار سے انسان کو صرف اس لیے مل گئی کہ میں اس وقت ساتویں سکیل کا سرکاری نوکر تھا۔ مجھ میں خوبی صرف یہی تھی باقی سب خامیاں ہی خامیاں تھیں ۔ابھی میں برآمد ے میں بیٹھ کر عورتوں کی زبان سے تعریف سن کر خود کو محظوظ کررہا تھا کہ گھر کے باہر دوستوں کی یک زبان آواز آئی ۔ باہر بھی نکل آئیں دولہا صاحب ۔ ابھی سے خود کو گھر میں قید کرلیا ہے .......

دوستوں کی یہ بے باکی پر مجھے سخت غصہ آیا دل چاہا کہ ان کو باہر نکل کے دوچار سنا دوں کہ تمہیں اس وقت ملنے کی کیا جلدی ہے ۔ قسمت نے اگر کوئی اچھی لڑکی مجھے بیوی کے روپ میں دے ہی دی ہے تو مجھے اس کے پاس سے اٹھنے پر کیوں مجبور کررہے ہو۔پتہ نہیں کیوں آج مجھے دوست ایک آنکھ نہیں بھا رہے تھے اور دل چاہ رہا تھا کہ ان سب سے دوستی ختم کرلو ۔ اس لیے کہ قدرت نے مجھے بیوی کی شکل میں جنت کی ایک حور اوربہت ہی اچھا اور فرماں بردار دوست عطا کردیاتھا ۔چند دنوں تک بیگم کی خوبصورتی کے خوب چرچے رہے ۔ خواتین اور بچے دلہن کو دیکھنے کے لیے ذوق و شوق سے آتے جاتے رہے ۔ میں چونکہ اس خوبصورت لڑکی کا شوہر تھا اس لیے میرا نام بھی ساتھ مشہور ہوگیا کہ اسلم کی دلہن تو دیکھو ایسے لگ رہا ہے کہ چاند زمین پر اتر آیا ہے ۔ بیگم کی محبت کا جادو اس قدر سر چڑھ کے بولا کہ گلے سے سریلے راگ نکلنے لگے ۔ میں جب بھی نہانے کے لیے باتھ روم میں جاتا تو نہانے کے ساتھ ساتھ بلند آواز میں گانے بھی گاتا ۔ نہ جانے بیگم نے مجھ پر کیا جادو کر دیا تھا کہ میرے گانے کوشش کے باوجود تھمنے کانام نہ لیتے۔ جس سے اڑسی پڑوسی بھی بہت محظوظ ہوتے۔ ایک بار بیگم اپنے میکے چلے گئی ۔کئی دن سے پڑوسیوں نے میری آواز نہ سنی تو تشویش میں مبتلا ہوکر گھر چلے آئے ۔ تشویش میں مبتلا ہونے والوں میں پڑوسن خالہ بھی شامل تھی جو بطور خاص یہ پوچھنے کے لیے ہمارے گھر آئی ۔ اب اسلم کے گانوں کی آواز کیوں نہیں آرہی ۔ کیا وہ بیمار تو نہیں ہوگیا۔ والدہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔اے بہن وہ ٹھیک ٹھاک ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی لاڈلی بیگم میکے گئی ہوئی ہے ۔جاتے جاتے وہ اس کے گانے بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی ہے۔ اب وہ صبح سے شام تک خاموش ہی چلتا پھرتا نظر آتا ہے ۔ مجھے تو لگتاہے بیگم نے اس پر آتے ہی جادو کردیاہے ۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب اﷲ تعالی نے مجھے چاند سی بیٹی سے نواز ا جس کانام میرے والد نے گنگا رام کی ایک لیڈی ڈاکٹر تسلیم کے نام پر تسلیم اسلم رکھ دیا ۔

والدکی یہ خواہش تھی کہ یہ بچی بڑی ہوکر ڈاکٹر بنے گی لیکن قدرت نے اسے گرایجویشن کے بعد عالمہ بنا دیا ۔12 اگست 1981ء کی صبح اﷲ تعالی نے ایک چاند سا بیٹا( محمد شاہد اسلم) عطا کردیا جو آجکل روشن پیکجز میں آڈٹ آفیسر کے طور پر کام کررہا ہے ۔ 1985ء میں جب ہم اپنے الگ گھر مکہ کالونی شفٹ ہوئے تو میرا سب سے چھوٹا بیٹا (زاہد اسلم لودھی ) پیدا ہوا ۔ ان 39 سالوں میں زندگی میں بے شمار مشکلات بھی حائل رہیں اور لا محدود امتحانوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن ہر قدم پر وفا دار اور بہت ہی پیار کرنے والی بیوی کا تعاون مجھے حاصل رہا ۔ اس کی دعاؤں ٗوفاؤں اور محبتوں کا میں اس قدر اسیر ہوچکا ہوں کہ اب اس کی جدائی کے چند دن بھی میرے لیے ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں۔ اس نے بھی شادی کے بعد محبت کی انتہاء کر رکھی ہے اس نے والدین سے علیحدگی کے بعد کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑا۔ مجھے آج بھی وہ جدائی کے چار دن یاد ہیں جب بیگم ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے ملتان گئی اس کی جدائی میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ مجھ پر اس قدر بھاری ہوگیا کہ میں نے قلم اٹھا کر ایک مضمون جس کا عنوان "وفاؤں کا حصار"تھا لکھ ڈالا یہ مضمون ماہر ادب نے بہت پسند کیا بلکہ امجداسلام امجد نے اس مضمون پر بہت خوبصورت تبصرہ کیا کہ" ہم تو آج بھی بیوی ایسی مخلوق سمجھتے رہے ہیں جو گھر میں رکھی ہوئی ایک چیز کی طرح ہے ۔اس کی تعریف کرنا ایسے ہی ہے ٗ جیسے کسی ایسی جگہ پر خارش کی جائے جہاں خارش نہ ہورہی ہو "۔ میں سمجھتا ہوں یہ بیگم کے روپ میں عابدہ اسلم کا ہی کردار تھاکہ میں نے رات دن محنت کرکے نہ صرف بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کیں بلکہ انہیں ایک اچھا انسان بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔ اب میرے تینوں بچے شادی شدہ ہیں اور ہم دونوں میاں بیوی اپنے پوتے پوتیوں سے سارا دن اٹھکیلیاں کرتے رہتے ہیں ۔ جب ہم پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کل کی بات تھی جب ہم دولہا اور دولہن کے روپ میں ایک گھر بسانے کی جستجو کررہے تھے آج خدا کے فضل وکرم سے گھر بھی ہے اور اس میں رہنے کے لیے بیٹے بیٹی ٗ پوتے پوتیاں اور نواسوں کی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں ۔اﷲ تعالی نے مجھے عابدہ اسلم کی وفاؤں کے طفیل ہر وہ نعمت عطا کی جس کی میں نے تمناکی ۔بیگم کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ اس نے اردو سپکینگ گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک پنچابی خاندان کے رسم و رواج میں رچ بس کر اپنے وجود کو اس کا ہمیشہ کے لیے حصہ بنالیا ۔ 1975ء میں مجھے لوکل گورنمنٹ کے ذیلی ادارے "تعلیم بالغاں" میں ملازمت ملی ٗ پھر 1977میں فیملی پلاننگ میں بطور سٹینوگرافر ملازم ہوا ٗ 7 مئی 1979ء میں پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ میں ملازمت ملی جہاں پندرہ سال ملازمت کرنے کے بعد 19جنوری 1994ء کو گولڈن شیک ہینڈ لے کر فارغ ہوا ۔ایک بار پھر چھ مہینے فیملی پلاننگ آف پاکستان میں ملازمت کا موقع ملا۔ نومبر 1994ء میں بنک آف پنجاب میں بطور سٹینوگرافر جاب مل گئی تو جو 3 دسمبر 2014ء تک جاری رہی ۔ یہی تاریخ بنک سے میری ریٹائرمنٹ کی ہے ۔دونوں میاں بیوی اکٹھے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے ارض مقدس گئے ۔ اس دوران 35 کتابیں لکھنااور چھپوانا یقینا بہت بڑے چیلنج کا کام تھا اگر بیگم کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو کبھی میں اس قدر کامیاب انسان نہ ہوتا اس میں جہاں میری ذاتی صلاحیتوں کا دخل ہے وہاں ایک نیک سیرت اور وفاشعار بیوی کے کردار کو بھی کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔دعا ہے کہ جتنی بھی زندگی باقی ہے اﷲ تعالی ہمیں صحت اور خوشیوں والی زندگی عطا فرمائے اور ہم پوتے پوتیوں (جن میں شرمین فاطمہ ٗ رمیسہ فاطمہ ٗ محمد موسف ٗ محمد عمر اور فریسہ زائد شامل ہیں )کی محبتوں کے سہارے زندگی گزارسکیں ۔میری بیٹی تسلیم تاج اس کے شوہر حافظ تاج محمود اور دونوں نواسے حاشر محمود اور عبدالرحمن بھی ہمارے دل کی دھڑکنیں ہیں جن کے بغیر ہم اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اﷲ ہماری خوشیوں کی حفاظت فرمائے ۔ آمین

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.