تحریک یکجہتی پاکستان

خالق نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایااور یہ شرف،تکریم اور فضیلت اسے علم و فضل کی بدولت عطا ہوئی۔اور اس علم نے انسان کو رقیق القلب اور ذکی الحِس بناتے ہوئے ہمدردِ باہمی کا جذبہ ودیعت کیا۔اور یہی جذبہ آج تک حضرتِ انسان کے لئے قربِ الہی سے ہمکنار ہونے کا سبب بنا ہے۔اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینکی تکرار و اقرار کروانے والی ذات باری تعالی نے ساتھ ساتھ دوسری طرف خود ہی بار ہا مقامات پر دوسروں کی مدد کرنے کی ترغیب دے کر اس کی اہمیت اجاگر کی ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ پروردگار نے اپنی اتنی بڑی صفت میں سے انسان کو اجر و ثواب عطا کرنے کی غرض سے حصّہ عنایت فرمایا ہے۔بس یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کی صفت ذاتی ہے اور انسان کے لئے سب کچھ فقط اس کی عطا سے ممکن ہے۔پروردگار نے ایک دوسرے کی مدد کرنے والوں کے لئے اجر کے انبار لگا دیے ہیں۔بقول راقم
تخت و منبر،مسجد و مے خانہ ہو گا
موت جب آئے گی ساتھ تو جانا ہو گا
دوسروں کے درد میں آنسو کتنے ہیں بہے
قدرت کا تیری جانچ کو یہ پیمانہ ہو گا

اپنے درد پر تو جانور بھی رو پڑتے ہیں اور یہ فطری عمل ہے لیکن دوسروں کے درد کو محسوس کرنے والے ،ان کے غم میں شریک ہونے والے اور ان کے کرب پر تڑپ جانے والے ہی اصل میں عظیم ہوتے ہیں۔ انسان کہلوانے کا حقیقی حق دار بھی یہی طبقہ انسانی ہے۔پاکستان الحمد اﷲ ایک اسلامی مملکت ہے اور اسے ایک فلاحی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔اس کی نظریاتی اساس میں اسلامی نظریات کا خمیر ہے،لیکن برگشتہ طالعی کا یہ عالم ہے کہ یہاں خوفِ خدا رکھنے والے حکمرانوں کا فقدان ہے۔طبقاتی کشمکش اور وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم نے امیر و غریب میں ایک بڑی خلیج وضع کر دی ہے۔وسائل عام آدمی کی دہلیز سے بہت دور ہیں۔ غریبوں،مفلسوں،کمزوروں اور ناداروں کی اعانت اور دست گیری کے ضمن میں وسائل تھوڑے اور انتظامات ناکافی ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثریت خط زندگی سے بھی نیچے زندگی گذارنے پرمجبور ہے۔غربت میں رہتے رہتے لوگ زہد کی حدوں کو بھی پار کر چکے ہیں۔ملک کا ایک بڑا طبقہ صرف زندگی کی نقل اتارنے پر ا کتفا کیے ہوئے ہے۔ایسے میں محتاجوں کی خبر گیری کی بابت صاحب حیثیت لوگوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔فرد معاشرے میں رہتا ہوا دوطرفہ پہلوؤں سے منسلک ہوتا ہے۔ایک اس کا انفرادی تاثر ہوتا ہے جو اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے اور ایک اس کا اجتماعی پہلو ہوتا ہے جو اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے اور بیک وقت پورے معاشرے پر اپنا اثر چھوڑ رہا ہوتا ہے۔اس طرح نیکی بھی انفرادی اور اجتماعی دونوں نوعیت کی ہوتی ہے۔انفرادی نیکی سے صرف ہم خود فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ اجتماعی نیکی سے مخلوق خدا کا بھلا ہوتا ہے۔بعض موقعوں پر انسان اکیلا کسی بڑی نیکی کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن بہت سے لوگ اکٹھے مل کر بڑے پیمانے پر محتاجوں کی اعانت کا اہتمام کر سکتے ہیں۔سلام ہے ان ہستیوں پر اور ان اداروں پر جو مستحقین کے حوالے سے مدد کرنے کے لئے عملی بنیادوں پر پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں جہاں ہر ایک کواپنا حصہ ڈالنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ایسے طریقہ کار اور وہ افراد جو یہ جذبہ رکھتے ہیں بلاشبہ قابل ستایش و قابل تقلید ہوتے ہیں۔ تحریک یکجہتی پاکستان بھی ایسی ہی ایک تحریک ہے جس کا مقصد صاحب ضرورت افراد کی خبر گیری کرنا ہے۔اس تحریک کے سرپرست اور روح رواں محترم کامران لاکھا صاحب ہیں جو بڑے جذبے کے ساتھ مخلوق خداکی مدد کررہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک خاطر خواہ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ اس عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ اس جذبہ ہمدردی کو پورے ملک میں موجود مستحق افراد تک پہنچایا جائے۔اگر ہم کسی وجہ سے انفرادی طور پر کچھ نہ بھی کر سکیں تو ہمیں ایسے افراد کے ساتھ منسلک ہو جانا چاہیے جو یہ کارِخیر سرانجام دے رہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہتَعَاوَنُوعَلی البِرِّوَالتَقوٰی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے عملی بنیادوں پر ایسی تحریکات کو مضبوط کریں جن کا مقصد ملک پاکستان میں اتحاد و یگانگت،امن و آشتی ،ایثار و رواداری اور باہمی اخوت و بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔اس طرح ہم بھی اپنے دفتر اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کر کے سرخرو ہو سکتے ہیں۔

Prof Awais Khalid
About the Author: Prof Awais Khalid Read More Articles by Prof Awais Khalid: 36 Articles with 29526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.