’راستہ چھوڑ دیں‘ اور تھپڑ!

 راستہ خالی نہیں تھا، راہداری میں ممبرانِ اسمبلی اور دیگر سائل وغیرہ موجود تھے، پہرے پر موجود سکیورٹی اہلکار پریشان تھے کہ ابھی وزیراعظم نے باہر نکلنا ہے، تو ان کے لئے راستہ خالی نہیں۔ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے اہلکار نے ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی راستہ خالی کرنے کا کہا۔ جس سے ایک دفعہ تو ان کا موڈ خراب ہوا، ’’پبلک کو نکالوبھائی، ارکان کو کیوں نکالتے ہو؟‘‘۔ ’’سر ہماری نوکری کا مسئلہ ہے‘‘۔ فاروق ستار نے کہا کہ آپ کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں، وہ وزیراعظم ہیں، بادشاہ نہیں۔ تاہم اس موقع پر ہٹو بچو کے ماحول میں دیگر کمروں کے دروازے بھی بند کر دیئے گئے۔ نہیں معلوم کہ اگر راہداری میں ارکان وغیرہ کا رش ہو تو وزیراعظم کیا ایکشن لیں گے؟ یا شاید کبھی یہاں پر رش کی نوبت ہی نہیں آئی۔ سکیورٹی کے ذمہ داران اپنے اہلکاروں کو اس طریقے سے تربیت دیتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی قریب نہیں پھٹنکنے دیتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ واقعی ’’صاحب‘‘ کا موڈ ایسے ماحول میں خراب ہوتا ہو گا، جس وجہ سے ماتحت عملہ راستے صاف کروانے پر مجبور ہے۔ (شاید یہ پروٹوکول اور آئینی تقاضا بھی ہو)

پنجاب اسمبلی میں ایک معزز رکن جو اپنی اہمیت کی وجہ سے محکمہ انہار کے پارلیمانی سیکریٹری بھی ہیں، گزشتہ روز چولستان ترقیاتی ادارہ بہاول پور کے دفتر تشریف لے گئے۔ گیٹ بند تھا، ہارن بجایا، مگر حکم کی فوری تعمیل نہ ہو سکی، چنانچہ مغلظات کا سلسلہ شروع کیا ، گالیوں کو زیادہ پُر اثر بنانے اور اہلکار کے احتجاج کرنے پر گاڑی سے باہر نکل کر گیٹ کیپر کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ بات دیگر ملازمین تک پہنچی تو اہلکار اکٹھے ہوگئے، انہوں نے گیٹ پر کھڑے ہو کر ہی احتجاج کیا اور مذکورہ معزز رکن اسمبلی کے خلاف نعرے وغیرہ لگائے۔ ایپکا کے ڈویژنل صدر کا کہنا ہے کہ ہم خالد ججہ کو دو دن کی مہلت دیتے ہیں، اگر انہوں نے اپنے نازیبا رویے پر معافی نہ مانگی تو دفاتر کی تالہ بندی کر دی جائے گی۔
مندرجہ بالا دو واقعات ہمارے معاشرے کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم ایک طرف سادگی کے دعوے کرتے ہیں، دوسری طرف سکیورٹی کو جواز بناکر پروٹوکول اور ہٹو بچو کا سماں پیدا کرلیتے ہیں۔ ان کی راہداری میں یقینا یا تو ارکانِ اسمبلی تھے، یا پھر وہ لوگ جو ارکان کے ساتھ آئے ہوں گے۔ ارکان تو اس بات کا استحقاق بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان مقامات پر چلنے پھرنے میں آزاد ہوتے ہیں، اور ان میں ایسا رکن جو خود ایک پارلیمانی پارٹی کا سربراہ بھی ہو۔ دوسرا یہ کہ یہ تمام لوگ سکیورٹی کے حوالے سے چیکنگ کے تمام مراحل سے گزر کر آئے ہوتے ہیں، یعنی کلیئر ہوتے ہیں، ہاں اگر کسی سے خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ دست وگریباں ہونے کا ہو سکتا ہے، (یا پھر جوتا اچھالنے کا) ایسی صورتوں میں سکیورٹی والے کچھ بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ ہاتھ اور جوتا دونوں ممنوعہ ہتھیاروں میں نہیں آتے۔ سکیورٹی والے ایسے حملوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، البتہ واقعہ پیش آجانے کے بعد بہت کچھ کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں، مگر اس وقت کچھ کرنے کا کیا فائدہ جب چڑیاں کھیت ہی چُگ جائیں۔

ایک ایم پی اے کا ایک سرکاری اہلکار کو تھپڑ مارنا قانوناً جرم ہونا چاہئے، یہ انسانیت کی تذلیل ہے، یہ تکبر کی انتہا ہے، یہ غرور کا عروج ہے۔ اپنے ممبران اسمبلی عام اور غریب لوگوں کے ووٹوں سے ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں، مگر وہاں جا کر خود کو کوئی اور مخلوق تصور کرنے لگ جاتے ہیں، دوسرے کو حقیر تصور کرنے والے لوگوں کو انہی لوگوں کی نمائندگی کا حق کیوں کر دیا جاسکتا ہے۔ ووٹر تو محسن ہوتا ہے، یہاں یہ عالم ہے کہ اپنے ہی محسن کو گالیاں دی جاتی اور تھپڑ مارے جاتے ہیں۔ وہ بھی انسان ہے ۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ واقعہ اس روز پیش آیا جب پوری دنیا ’’برداشت کا عالمی دن‘‘ منا رہی تھی۔ سول سوسائٹی اور عوام کو چھوٹے درجے کے ملازمین کا ساتھ دینا چاہیے اور مذکورہ ایم پی اے پارلیمانی لیڈر کو معافی پر مجبور کرنا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے، انسانیت کی تذلیل رک سکے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.