انسانی حقوق کا عالمی دن اور ہمارا معاشرہ

اسلام میں حقوق العباد کو صف اول میں رکھا گیا ہے یعنی ہر شخص کو کسی دوسرے کی مدد (بلا تفریق) کرنے کا حکم دیا گیا ہے حضورﷺ نے 1439سال پہلے حقوق العباد پر زور دیا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہـ" بے شک اﷲ (تمہیں) عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے"۔

یومِ انسانی حقوق (انسانی حقوق کا دن) دنیا بھر میں 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد لوگوں میں انسانی حقوق کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ہمارے وطن عزیز میں انسانی حقوق کے حوالے سے چند افراد نے نمایاں کام سر انجام دیے ہیں جن میں سرفہرست سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ،انصار برنی ایڈووکیٹ اور دیگر شامل ہیں اگر ضلع اوکاڑہ کی بات کی جائے تو ایک نام فوراََ زبان پر آتا ہے جی ہاں ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن اوکاڑہ کے وکلاء میں جانا پہچانا ایک معتبرنام مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ،سابق چیئرپرسن انسانی حقوق کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار برائے ضلع اوکاڑہ (سابق سینئر نائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ) انسانی حقوق کے لیے کی گئی خدمات کی وجہ سے وہ اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔ یومِ انسانی حقوق کا رسمی تعین اقوام متحدہ نے 4 دسمبر 1950کو جنرل اسمبلی کے 317ویں اجلاس میں ہوا جب جنرل اسمبلی نے قرارداد 423(V) پیش کی، جس کے تحت تمام رکن ممالک اور دل چسپی رکھنے والی دیگر تنظیموں کو یہ دن اپنے اپنے انداز میں منانے کی دعوت دی گئی۔عموماً اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور تقریبات و نمائش کے ذریعے انسانی حقوق سے متعلقہ مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں معروف سماجی ورکر مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ جو کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں نے اپنے ایک بیان میں کہتی ہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی لمحہ فکریہ ہے ہمیں سوچنا ہوگاکہ ہم دین اسلام کے سنہری اصولوں کو کیوں چھوڑرہے ہیں؟ جس کی وجہ سے پاکستان میں انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی پر اگرچہ قانون سازی بھی ہوئی ہے اور آئین پاکستان میں انسانی حقوق کی اہمیت کو خاص طور پراجاگر کرنے کے لیے کئی ایک شقیں شامل ہیں روایتی طور پر 10 دسمبر ہی کو انسانی حقوق کے میدان میں نمایاں کام کرنے والوں کو اقوامِ متحدہ نوبل امن انعام بھی دیتا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق سرگرم عمل کئی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اس دن کو منانے کے لیے کئی خصوصی تقریبات منعقد کرتی ہیں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے صورتحال بھی کافی خطرناک ہے اس کا شکار ایسے افراد اور خواتین ہوتے ہیں جو اپنے ماحول سے بیگانہ ہوکر کسی نئی دنیا کی تلاش میں ہوتے ہیں اس طرح کے مرد وخواتین کو انسانی اسمگلراپنی دولت کمانے کا زریعہ بناتے ہوئے مستقبل کے سہانے خواب دیکھاتے ہیں ان انسانی سمگلروں کے ہتھے معصوم بچے بھی لگ جاتے ہیں جنھیں یہ دیگر مما لک کے اسمگلروں کو مختلف مقاصد کے لیے فروخت کرتے ہیں ۔اکثر غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق پاکستانی بچیوں کو اسمگل کرکے اْنہیں زبردستی جسم فروشی کی راہ پر لگا یا جاتا ہے، پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں میں بھی انسانی اسمگلنگ کا عنصر موجودہونے کے بارے میں سننے میں آتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی میں حصہ لینے والے افراد کی اسمگلنگ افغانستان سے ہوتی ہے پاک فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے گزشتہ چند سالوں میں نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ردالفساد سے اس قسم کی اسمگلنگ یا ایسے اسمگلروں کا قلع قمع کردیا ہے جو کہ انسانیت کے دشمنوں کو جہنم واصل کرنے پر قابل تعریف اقدام ہے ۔حکومت نے حال ہی میں ہندو میرج ایکٹ کو سرکاری بل کے طور منظور کیا ہے، جسے ایک ہندو رکن اسمبلی نے ہندو برادری سے مشاورت کے بعد ترتیب دیا گیا۔ ’کرسچن میرج ایکٹ‘ کو بھی قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے مسیحی ارکانِ اسمبلی کے حوالے کیا ہے، اور پادری صاحبان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ آ کر اس پر اپنا مؤقف دیں تاکہ اس سلسلے میں ہونے والی کوئی بھی قانون سازی مسیحی برادری کی مشاورت سے ہوسکے۔کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو سالانہ پورے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی رپورٹ شائع کرتا ہے۔ یہ رپورٹ ایک آزادانہ مستند دستاویز ہوتی ہے اس رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں پاکستان میں سال 2016 ء میں ملک کی عدالتوں میں تیس لاکھ مقدمات زیر التوا رہے۔ وکلا اور ججوں کے خلاف تشدد بڑھ گیا ،سال2016 ء میں کم از کم تین انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کا قتل ہوا۔ پنجاب پولیس نے 340 مجرموں کو 291 پولیس مقابلوں میں ماردینے کا دعویٰ کیا۔ سندھ پولیس نے 248 ڈاکو، 96 دہشت گرد اور گیارہ اغوا برائے تاوان کے ملزمان ماردیے۔ بلوچستان میں 229 مشتبہ دہشت گرد مارے گئے جبکہ قبائلی علاقوں میں 315 ، خیبر پختونخوا میں 40 اورگلگت بلتستان میں 4 مبینہ دہشت گردوں کے ماورائے عدالت قتل کے اعداد بتائے گئے ہیں۔ سال 2016ء میں 426 مجرموں کو مختلف عدالتوں نے موت کی سزا سنائی جن میں سے 87 کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ 728 لوگوں کی جبری گمشدگی ہوئی ہے جو گزشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔چھ صحافیوں اور بلاگرز کے قتل نے صحافت کے شعبے سے وابسطہ افراد کو سخت پریشان کیا۔ سائبر قوانین نے آزادی اظہار رائے کو بھی متاثر کیا کیونکہ یہ قوانین حکام کو لوگوں کی اظہار رائے میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی حقوق کے علمبردار اور سیاسی کارکن زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ 2016 ء میڈیا اور ٹی وی چینلز ،اخبارات اور پریس کلبوں پر انتہا پسندوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرف سے حملوں کے لئے بد ترین سال تھا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے عام لوگوں کی نقل و حمل پر بندشوں کے واقعات سے ہسپتال بر وقت نہ پہنچنے سے اموات بھی ہوئی ہیں۔ بعض سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں خواتین کارکنان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔

2016ء میں 2500 خواتین تشدد کا شکار ہوئیں جس میں جنسی تشدد، جسم جلانا اور اغوا کے واقعات شامل ہیں۔ بچوں پر جنسی تشدد ، ان کے فحش فلموں میں استعمال اور اغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ سال 2016ء میں بچوں کے اغوا، کم عمری کی شادی کے4139 واقعات ہوئے جوروزانہ گیارہ کے حساب سے سال 2015 ء سے دس فیصد زیادہ بنتے ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2017کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے، جہاں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں سن دو ہزار سولہ کے دوران چھیاسی قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی لیکن دوسری طرف پاکستانی ججوں اور وکلاء ،صحافیوں کی ٹارگٹ کلِنگ کے خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔محترم قارئین کرام !کالم سانچ میں میں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ2017-16 کاتذکرہ کیا ہے اگر ہم محسن انسانیت نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات اور قرآن مجید میں درج اﷲ تعالی کے احکامات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارا وطن عزیز اور معاشرہ مثالی صورتحال اختیار کر سکتا ہے٭٭٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.