حافظ محمد سعید! شمشیرِ بے نیام

حرمت و حریت کے سالارِ اعظم، حافظ محمد سعید کی جانب سے افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں زندہ دلانِ لاہور سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے قریباً تمام نام ور اخبار مالکان، گروپ ایڈیٹرز، ایڈیٹرز، اینکر پرسن، کالم نگار و تجزیہ کار اور فیچر رائٹرز نے بھرپور شرکت کی۔ گو کہ وہاں پر موجود ہر شخص اپنے اندر اپنا ایک الگ سوچ اور متفرق و منفرد خیالات رکھتا تھا مگر یہ بات مَیں پورے وثوق کے ساتھ کہ، سکتا ہوں کہ محترم حافظ محمد سعید کے پُرجوش اور ولولہ انگیز خطاب نے ان منتشر اذہان کو یک بارگی یک دلی و یک رنگی کے رنگ میں رنگ دیا ہو گا۔ حافظ صاحب کا خطاب ایک ایسی شخصیت و ہستی کا خطاب تھا جسے صریحاً و خالصتاً ایک محبِ وطن پاکستانی، دردِ دل رکھنے والے شہری، جہدِ مسلسل کے عادی مجاہد، میدانِ عمل میں رہنے والے حریت پسند اور ملک و ملت کے ایک حقیقی رہبر و رہنما کا خطاب تھا۔ کشمیر کے مسلمانوں اور بالخصوص امتِ مسلمہ کے لیے ان کے دل میں جو تڑپ مَیں نے دیکھی اس کا اندازہ اس ایک بات سے ہوتا ہے جب انھوں نے اپنے خطاب کے دوران یہ زریں الفاظ ادا کیے کہ ’’مَیں آپ کو اﷲ کا واسطہ دیتا ہوں، اس ماہِ مبارک کا واسطہ دیتا ہوں، خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولیے اور دیکھیے کہ دشمن ہمارے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے، وہ ہمارے سروں پر آن پہنچا ہے۔ آنکھیں بند کر لینے سے آفت کبھی نہیں ٹل سکتی۔ آفت ہمیشہ مقابلہ کرنے سے ہی ٹل سکتی ہے۔ شام، مصر، فلسطین میں جس طرح اور جس بے دردی کے ساتھ بے گناہ اور معصوم اور مظلوم مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، دنیا میں ایسی درندگی اور ظلم و جبر کی مثال نہیں ملتی اور اب دشمن نے اس طرز پر افغانستان کا رخ کر لیا ہے تا کہ وہاں بیٹھ کر وہ افغانوں اور پاکستانیوں کا قتل عام کرے جس طرح وہ دیگر مسلم ممالک میں کر چکا ہے اور کرتا چلا آ رہا ہے‘‘۔ عالمِ اسلام اور ملک و قوم کے لیے ان کے اندر کی تڑپ، درد اور خلوص و اخلاص کو دیکھتے ہوئے مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جن دنوں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ تحریکِ پاکستان میں رکاوٹ ڈالنے عالے نام نہاد لیڈروں اور سازشیوں سے دلبرداشتہ ہو کر لندن روانہ ہو گئے۔ تحریک یک لخت تھم گئی، کہیں پر اس پایے کی کوئی قیادت دکھائی نہ دے رہی تھی جو تحریکِ پاکستان کامیابی سے ہمکنار کر سکتی۔ ہر طرف مایوسی و ناامیدی اور ناکامی و شکستہ دلی کے تاریک و گہرے بادل چھا چکے تھے۔ دشمن خوش مگر آزادی کے متوالے حد درجہ غمگین و غمناک، چناں چہ اس گمبھیر و نازک صورتِ حالات پر قابو پانے کے لیے علامہ اقبالؒ اور محمد علی جوہر لندن روانہ ہو ئے تاکہ قائدؒ کو واپس لانے میں کامیاب ہو سکیں مگر کوئی صورت نہ بن پائی۔ اسی اثنا میں اس وقت کے معروف عالمِ دین اور روحانی شخصیت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک خواب دیکھا، کیا دیکھتے ہیں کہ ’’حضور نبی کریمؐ تشریف فرما ہیں، چاروں خلفاے راشدیں آپؐ کے دائیں بائیں اور کچھ صحابہؓ آپ کے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں کہ اچانک ایک شخص سامنے کی طرف سے آتا ہے، آپؐ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھتے ہیں اور کچھ فاصلہ پر جا کر اس شخص سے مصافحہ فرماتے ہیں۔ آپ دونوں کے درمیان کوئی گفتگو ہوتی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی۔ بعد ازاں وہ شخص چلا جاتا ہے اور آپؐ دوبارہ اپنی جگہ پر تشریف فرما ہو جاتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ حیرانی سے عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اﷲ! ایک ایسا شخص جو اپنی وضع و قطع کے اعتبار سے ایک انگریز معلوم ہوتا ہے، آپؐ اس کی تعظیم میں خود اس کی طرف تشریف لے گئے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اس کی ظاہری وضع قطع پر مت جاؤ، یہ دیکھو کہ اس کے دل میں مسلمانوں کے لیے کتنا درد ہے، کیا تم جانتے ہو یہ شخص کون ہے؟ پھر فرمایا، یہ محمد علی جناح ہے‘‘۔ (سبحان اﷲ) حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے یہ خواب فل سکیپ پیپر پر پرنٹ کروا کے پورے ہندوستان کی دیواروں پر چسپاں کر دیا جسے پڑھنے کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں ایسی ہیبت اور احترام اترا کہ لوگ دیوانہ وار قائداعظمؒ کی قیادت پر متفق و متحد ہو گئے اور پھر پاکستان کا وجود عمل میں آگیا۔ اس وقت پاکستان بنانے کے لیے ایک ایسی ہی بے لوث و بے خوف ہستی و قیادت کی ضرورت تھی جس کے دل میں مسلمانوں کا بے پناہ درد تھا اور آج پاکستان بچانے کے لیے ویسی ہی بے لوث و بے خوف ہستی ہمیں میسر ہے جس کے دل میں مسلمانوں کا درد ہے اور جس نے محمد علی جناح کی طرح اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر رکھا ہے جس کا نام ہے ’’حافظ محمد سعید‘‘۔ لہٰذا یہ مت دیکھیں کہ حافظ محمد سعید کس فرقے یا کس فقہ، سے ہیں، یہ دیکھیں کہ وہ اپنی قوم اور ملت اسلامیہ کا درد اپنے دل میں کس قدر رکھتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے وقت بھی کسی فرقے یا فقہ، کے لوگوں نے پاکستان نہیں بنایا بل کہ ان چیزوں سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے اتحاد نے پاکستان کی تکمیل کی۔ فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ جب صرف مسلمان بن کر میدانِ عمل میں اترے تو اس بے مثل اتحاد نے ہر اس قوت کو پاش پاش کر دیا جو ان کی منزل کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ آج ایک بار پھر ہم اسی گام اور مقام پر آن کھڑے ہیں جہاں سے اس مملکت خداداد کی ابتدا ہوئی لہٰذا آج ایک بار پھر ہمیں اسی جوش و جذبے اور بے مثل و موافق اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے جو حاصل کردہ اس اسلامی فلاحی ریاست کو بچا سکتی ہے۔ ملک کے اندر جس طرز پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے، اس نے پوری قوم کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ قوم کے لیے اب لازم ہو چکا کہ وہ تمام تر مذہبی و سیاسی منافرت سے بالاتر ہو کر ملکی استحکام اور اس کی بقا و سلامتی کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائے تا کہ دشمن نہ اس دیوار کو گرا سکے اور نہ پھلانگ سکے۔ کئی نوازشریف و زرداری آئے اور چلے گئے۔ کئی ضیا اور ایوب خان نمودار ہوئے اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئے، کئی حکومتیں آئیں اور گذر گئیں۔ لوگ آتے جاتے رہیں گے، حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں گی لیکن اگر خدانخواستہ ملک ایک بار ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوبارہ کبھی ہاتھ نہ آئے گا اور یہی دشمن کی بھرپور کوشش و کاوش بھی ہے۔ پاک فوج پر طعن و تشنیع کے نشتر چلانے والے سن لیں کہ یہی وہ قوت ہے جس کے خوف سے دشمن کے قدم رکے پڑے ہیں وگرنہ وہ کب کا پاکستان کو نگل جاتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دشمنوں کا استقبال کرنے والوں کو دشمن نے کبھی گود نہیں لیا بل کہ سب سے پہلے انہی کے سر قلم کیے گئے تا کہ آنے والے وقتوں میں یہ استقبالیہ گروہ وقت آنے پر کہیں ان کے دشمنوں کے استقبال کی تیاریوں میں نہ جت جائے۔ لہٰذا یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ قدرت نے ایک بار پھر ہمارے درمیان حافظ محمد سعید کی صورت میں ایک ایسی شخصیت کو عطا کر رکھا ہے جو مال و زر یا حکمرانی و سلطانی جیسے طمع و لالچ سے عاری فقط ملک و قوم کا سوچتی ہے اور یہ وہی خصوصیت و خاصیت ہے جو بانیِ پاکستان کے اندر موجود تھی۔ میری نگاہ و بصارت میں ملک کے اندر کوئی ایک بھی ایسا مذہبی یا سیاسی رہبر و رہنما نہیں جس سے یہود و نصاریٰ یا یہود و ہنود خوف و ہول کھاتے ہوں ماسواے حافظ محمد سعید کے۔ قائداعظم محمد علی جناح اگر سامراجی قوتوں یا یہود و نصاریٰ یا یہود و ہنود کے مکروہ عزائم کی راہ میں حائل ایک بلند و بالا مضبوط چٹان تھے تو مردِ حریت حافظ محمد سعید دشمن کے لیے ’’شمشیرِ بے نیام‘‘ ہیں جو ہر لمحہ خوف و دہشت کی علامت بنی بالخصوص ہندو بنیے کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے جس سے ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور جلد یا بدیر یہی وہ لشکرِ اسلام ہے جو پاک فوج کے شانہ بشانہ غزوۂ ہند لڑے گا جس کی بشارت حضور نبی کریمؐ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال قبل دی۔ درحقیقت اسی حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہی پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔

Farooq Haris Al Abbasi
About the Author: Farooq Haris Al Abbasi Read More Articles by Farooq Haris Al Abbasi: 2 Articles with 1324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.