الوداع ‘الوداع ‘ رمضان الوداع

رمضان المبارک کا با برکت و مقدس مہینہ اپنی تمام تر رحمتیں اور برکتیں نچھاور کر کے رخصت ہونے کو ہے ۔ مقدس مہینے کا جمعتہُ الوداع بھی الوداع ۔ جمعہ کے دن کو تمام دنوں میں فضیلت و عظمت حاصل ہے۔ رمضان المبارک کا الودع جمعہ تو ہر اعتبار سے فضیلتوں ، رحمتوں اور برکتوں کادن ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذرؒ ہیں فرمایا آپ ﷺ نے ’جمعہ دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے نزدیک یہ بڑے مرتبے کا حامل ہے اور اللہ کے نزدیک اس دن کی فضیلت عید و بقرعید سے زیادہ ہے‘۔ جمعہ کی عظمت کے حوالے سے صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؒ ہیں فرمایا آپ ﷺ نے سورج طلوع ہونے والے دنوں میں سب سے افضل ترین دن جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی ، یہی وہ دن تھا جس دن حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل ہوئے اور اسی دن یعنی جمعہ کے دن ہی وہ جنت سے بے دخل کیے گئے اور قیامت بھی اسی دن قائم ہونے والی ہے‘۔ جمعہ اور رمضام المبارک کا جمعتہُ الوداع اتنی فضیلتوں کو حامل ہے تو مکمل رمضان کا مہینہ کس قدر رحمتیں اور برکتوں کا حامل ہوگا جو اب ہم سے جدا ہورہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم آئندہ سال ہمیں اس مبارک مہینے کی برکتیں حاصل ہوں گی یا نہیں۔ چنانچہ رمضان المبارک کو رخصت کرتے ہوئے ہم جس قدر بھی اپنے اللہ سے صدق دل سے توبہ کریں، اپنے گناہوں کی مافی مانگیں ، ندامت کا اظہار کریں ، اپنے پروردگار سے آئندہ گناہ نہ کرنے، برائیوں سے دور رہنے کا پختہ عظم کے ساتھ اس مبارک ماہ کو رخصت کریں۔

رمضان ا لمبارک ایک بابر کت اور فضیلت والا مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوااور امت پر روزے فرض کیے گئے۔قرآن مجید کی سورۃ البقرہ آیت ۱۸۵ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ترجمہ: ’’ (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن (اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل ) کو الگ الگ کرنے والا ہے، تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘۔جس مہینے میں ہمیں حکمت سے بھرا قرآن ملا ہو، دستور حیات ملا ہو، کلامِ خدا ملا ہو اس سے بڑھ کر مبارک مہینہ ہمارے لیے بھلا اور کون سا ہوسکتاہے۔یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں پر وردگار عالم نے روزے فرض کیے ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کی امتوں پر بھی روزوں کا حکم تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری بنی حضرت محمد ﷺ کی امت پر روزے کا حکم دیتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا: ’’یٰاَ یَّھَاالَّذِیْنَ اٰ مَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِیَّا مُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِْینَ مِنْ قَّبْلِکُمْ تَتَّقُوْن۔(سورۃ البقرہ ، آیت ۱۸۳)تر جمہ ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو‘‘۔ روزہ ہمارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا کرنے کا باعث ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْ ن ‘یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔اس ماہ مبارک کی ایک اور اہمیت اور فضیلت ’لیلتہ القدر‘ ہے ۔ اس ماہ کا آخری عشرہ اور اس عشرے کی طاق راتیں جن سے ہم یقیناًمستفید ہوئے ہوں گے، یہ سعادت نہیں معلوم آئندہ سال ہمیں نصیب ہوبھی یا نہیں ۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے ، فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں‘۔سنن ابن ماجہ کی حدیث جسے معارف الحدیث میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات شب قدر ہے تو میں اس رات اﷲ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں؟ آپ ﷺ نے عرض کیا: ’اَ للّٰھُمَّ اِ نَّکَ عَفُوّ‘‘کَرِ یْم‘‘ تُحِبآُ الْعَفْو فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ ۔ ترجمہ ’’اے میرے رب! تو بہت معاف کرنے والا اور بڑا ہی کرم فرما ہے اور معاف کردینا تجھے پسند ہے۔ پس تو میری خطائیں معاف فرمادے‘‘۔

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کی آخری تاریخ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے لوگو ! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے ، بہت مبارک ہے، اس مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ( جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے)جو شخص اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے غیر فرض عبادت(یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کو ثواب ملے گا، اور اس مہینہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے سترّ فرضوں کے برابر ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے زرق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو یہ عمل اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ سے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گاجو دودھ کی تھوڑی سی لَسیّ پر یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے ( رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے اس کو اﷲ تعا لیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔ (اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا)جو آدمی اس مہینہ میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کردے گا اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا، اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی، معارف الحدیث)

شہید حکیم محمد سعید نے اپنے مضمون ’الوداع، ماہِ رمضان الوداع‘ میں لکھا مبارک ہیں وہ لوگ جو اس پر فیض ، پر بہار موسم میں چلنے والے رحمت کے جھونکوں سے مستفید ہوئے اور جنہوں نے اپنا دامن مراد بھر لیا لیکن ہم میں سے کون ایسا ہے جواس پر مطمئن ہو کہ اس نے رمضان کا اور اس ماہِ مبارک میں کتاب ہدایت نازل کرنے والے مہر بان ترین آقا کا حق ادا کردیا ہو۔ظاہر ہے یہ دعویٰ ہم نہیں کرسکتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی رحمت سے مایوس ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے : اور اللہ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کون مایوس ہوتا ہے‘۔

ہم نے ایک ماہ قبل استقبال رمضان کرتے ہوئے اس عظم کا اظہار کیا تھا کہ ہم اس با بر کت مہینے میں حکم خدا وندی کے مطابق اور فرمان رسول ﷺ کے مطابق عمل پیراں ہوں گے۔ یقیناًہم نے ایسا کیا ، رمضان کی برکتیں سمیٹیں، روزے رکھے، نماز قائم کی، تراویح میں کلام مجید سنا، غریبوں کا خیال رکھتے ہوئے ان کا روزہ کھلوایا، صدقہ خیرات اور زکواۃ اداکی اب یہ با برکت دن ، بابر کت مہینہ ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے۔ جس جذبہ سے، عقیدت اور احترام سے ہم نے رمضان المبارک کا استقبال کیا اسی احترام، عقیدت اور جذبے سے اب ہم اپنے اس محبوب اور پیارے مہینے کو رخصت کریں۔ اس خواہش اور تمنا کے ساتھ کہ اے پروردگار ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ تیرے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہوں اور اس ما ہِ مقدس میں وہ سب کچھ کریں جس کا تو نے حکم دیا، پھر بھی اگر ہم سے کوئی کوتاہی ، غلطی، کمی رہ گئی ہو تو اے اللہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے معاف کردینا،اور اے اللہ اگر ہم آئندہ آنے والے اس مقدس مہینے تک زندہ رہیں تو ہمیں توفیق دینا کہ ہم اس کا احترام اسی طرح کریں، اگر ہماری قسمت میں آئندہ یہ ماہ مبارک نہ ہو تو اے اللہ اس ماہِ مبارک میں ہم نے جو عبادت کی تو اسے اپنی بارگاہ میں قبول کر لینا، ہمیں معاف کردینا، ہماری بخشش کا ذریعہ ہماری اسی عبادت کو بنا دینا۔ اور اے ہمارے پرور دگار اگر آئندہ سال آنے والا مبارک مہینہ ہماری قسمت میں تو نے لکھا ہے تو ہم تجھ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ہماری عبادات میں جو کمی رہ گئی ہم انشاء اللہ آئندہ ماہِ مقدس میں اپنی پوری کوشش کریں گے کہ تیری حکم کی صحیح صحیح پاسداری کریں ۔ ہم اس ماہ رمضان کو دکھی دل کے ساتھ رخصت کرتے ہیں اورآئندہ سال آنے والے رمضان المبارک کا استقبال کرتے ہیں۔ تو بڑا مہربان اورمعاف کردینے والا ہے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274036 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More