خانہ خدا کی توہین٬ گستاخ شہزادے کے لیے بد دعا کا مطالبہ

کچھ عابد و زاہد مسجد میں بیٹھے عبادت کر رہے تھے کہ اچانک ملک کا شہزادہ وہاں آ گیا۔ وہ اس وقت نشے میں تھا۔ اس نے آتے ہی عبادت گزاروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور ہر شخص کی توہین کی۔ شہزادہ وہاں سے چلا گیا تو ایک شخص نے اپنے مرشد سے کہا کہ یہ بدکردار شخص تو اس قابل ہے کہ آپ اسے بددعا دیں۔ جس طرح اس نے آج خانہ خدا اور ہماری توہین کی ہے۔ خدا جانے اس طرح اور کتنے لوگوں سے کیا ہو گا۔ مرید کی یہ بات سن کر مرشد نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگا۔ ’’اے اللہ! یہ شہزادہ تو بہت اچھا ہے اسے ہمیشہ آسودہ اور خوش رکھنا۔‘‘ مرشد کی زبان سے یہ دعا سنی تو مرید بہت حیران ہوا۔ اس نے کہا: ’’حضرت یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے کہ آپ ایک فاسق وفاجر شخص کے حق میں آسودگی اور راحت کی دعا کر رہے ہیں۔‘‘ مرشد نے جواب دیا۔ ’’خاموش رہ۔ جو کچھ ہم جانتے ہیں۔ تو جانتا نہیں۔‘‘

اتفاق ایسا ہوا کہ مرشد کی یہ باتیں کسی طرح شہزادے کے کانوں تک بھی پہنچ گئیں اور اس پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے اسی وقت مے نوشی سے توبہ کر لی اور اپنے ایک معتمد کو یہ پیغام دے کر مرشد کی خدمت میں بھیجا کہ اگر جناب تشریف لانے کی زحمت گوارا کریں تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔ مرشد نے دعوت قبول کر لی اور شہزادے پر یہ واضح کر دیا کہ زندگی گزارنے کا جو ڈھنگ اس نے اختیار کیا ہے وہ موجب ہلاکت ہے۔ شہزادے کا دل نصیحت قبول کرنے پر آمادہ تھا۔ اس نے اسی وقت مے نوشی اور گانے بجانے کے ساز توڑ دیئے اور نیک کاروں کے طور طریقے اختیار کر لیے۔ اب وہ اپنا سارا وقت عبادت میں گزارتا تھا۔ پہلی زندگی سے اس کا کچھ تعلق ہی نہ رہا۔ اس حکایت میں حضرت سعدی ؒ نے سخت گیری اور تلخ کلامی کے مقابلے میں تحمل اور درگزر کی فضیلت ثابت کی ہے۔

YOU MAY ALSO LIKE: