عالم دین 'علامہ ضمیر اختر نقوی' اصل میں کون تھے؟ ان کی زندگی کے چند ایسے حقائق جو یقیناً آپ نہیں جانتے ہوں گے۔۔۔

image

سال 2020 نے ہم سے کئی انمول ستارے ہمیشہ کے لیے جدا کردیے۔ ان ہی میں سے ایک عالمِ دین 'علامہ ضمیر اختر نقوی' ہیں جو کہ 13 ستمبر بروز اتوار کو حرکت قلب بند ہونے کے باعث 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

ان کی وفات سے ذکرِ اہلِ بیت، تحقیق اور شعر و شاعری کے ایک اہم باب کا اختتام ہوا۔

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جب تک کوئی انسان ہمارے سامنے زندہ موجود ہوگا، ہم اس کی قدر نہیں کریں گے لیکن جیسے ہی وہ شخص اللہ کو پیارا ہوجائے گا ویسے ہی اس کی اہلیت ہمارے دلوں میں بڑھ جائے گی۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی کی قدر کرنی ہے تو اس کی زندگی میں ہی کرو، مرنے پر تو دشمن بھی جنازے میں شریک ہوکر آنسو بہا لیتا ہے۔ لیکن افسوس! ہم آج تک ان الفاط کا مفہوم نہیں سمجھ سکے۔

آئیے آج ہم آپ کو علامہ ضمیر اختر نقوی کی زندگی کے چند مختلف حقائق کے بارے میں بتاتے ہیں۔

٭ علامہ ضمیر نقوی ایک نامور اسکالر تھے جو کہ 24 مارچ 1944ء کو بھارتی شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سیّد ظہیر حسن نقوی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ محسنہ ظہیر تھا۔

٭آپ نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر لکھنؤ سے حاصل کی۔ شیعہ کالج لکھنؤ سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ سن 1967ء میں علامہ صاحب پاکستان آگئے اور شہرِ قائد میں اپنی رہائش اختیار کی، اسی شہر سے ان کا دینی درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔

٭ علامہ ضمیر نقوی کو بطور ایک شیعہ عالمِ دین، مرثیہ نگاری سے بےحد دلچسپی تھی۔ مرثیہ نگاری کی تاریخ میں اور اردو زبان کے مشہور مرثیہ نویس میر انیس، مرزا دبیر اور جوش ملیح آبادی پر آپ نے متعدد کتابیں لکھیں۔

٭ آپ کی مشہور تصانیف میں شعرائے مصطفیٰ آباد، اردو ادب پر تذکرہ، واقعۂ کربلا کے اثرات، اقبال کا فلسفۂ عشق اور شعرائے لکھنؤ شامل ہیں۔

٭ ادبی تنقید اور نثر نگاری بھی علامہ ضمیر اختر نقوی کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ آپ نے عمران سیریز کے ناول نگار ابنِ صفی کی ناول نگاری پر بھی ایک کتاب تحریر کی۔ یوں علامہ صاحب نے مجموعی طور پر 300 سے زائد کتابیں تحریر کی ہیں۔

٭ اگر علامہ ضمیر اختر نقوی کی دیگر کتب پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی مجالس کو بھی کتب کی شکل میں محفوظ کیا گیا جس میں عظمتِ صحابہ، امام اور امت، ظہورِ امام مہدی علیہ السلام، احسان اور ایمان، محسنینِ اسلام اور دیگر اہم ترین مجالس شامل ہیں۔

اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم نے کس طرح کا انمول ہیرا کھویا ہے، لوگوں کو اس بات کی قطعی آگاہی نہیں ہے۔ اسکالر کے طور پر علامہ ضمیر اختر نقوی کی وفات ہماری قوم کے لئے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہے کیونکہ ان کی وفات کے موقعہ پر وہ سوشل میڈیا بھی غمزدہ نظر آیا جہاں کبھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر بلا وجہ تنقید اور مذاق اڑانے والوں کے لیے یہ ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہے جس پر ملک کی معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی شدید دکھ کا اظہار کیا۔

افسوس! کہ علامہ ضمیر اختر نقوی آج ہم میں موجود نہیں رہے۔


About the Author:

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.