دعا نہ پھول ۔۔ کیا واقعی یہ کھرب پتی پاکستانی کی قبر ہے؟

image

دنیا عبرت کی جگہ ہے یہاں آنے والے ہر انسان نے واپس لوٹ کر جانا ہے لیکن کچھ لوگ مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتقال کے بعد بالکل فراموش کردیئے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کچھ دنوں سے ایک تصویر وائرل ہے جس پر کچھ یوں درج ہے کہ "یہ خستہ حال قبر اس شخص کی ہے جو ایشیا کی سب سے بڑی کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کا مالک تھا۔ یہ بوسیدہ قبر اس شخص کی ہے جس کی دولت کا محتاط اندازہ 25 ہزار کروڑ روپے ہے۔

یہ ٹوٹی پھوٹی قبر اس شخص کی ہے جو 57 کمپنیوں کا مالک تھا ۔ یہ پریشان حال قبر اس شخص کی ہے جس نے اپنی بیٹی ناز سہگل کی شادی جس شخص سے کروائی وہ بھی کھرپ پتی بن گیا۔

یہ قبر حاجی یوسف سہگل کی ہے جو برصغیر کے مشہور کھرپ پتی خاندان سہگل خاندان کے سربراہ تھے۔ اس دنیا کی دولت اور طاقت کا انجام بس یہ ہے، یہ دنیا عبرت کی جاہ ہے تماشہ نہیں ہے"۔

یہ سچ ہے کہ دنیا جائے عبرت ہے لیکن سوشل میڈیا پر وائرل اس تصویر کے ساتھ جو تحریر ہے اس کا اس قبر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، سوشل میڈیا صارفین نے اپنی لاعلمی میں اس ملتے جلتے نام سے دھوکہ کھاکر کچھ نامناسب پوسٹ کیں۔

مشہور کھرپ پتی خاندان سہگل خاندان کے سربراہ حاجی یوسف سہگل کی اصلی قبر کی تصویر یہاں موجود ہے جس میں ان کے قبر کے کتبے پر ان کے والد کا نام بھی درج ہے۔

سوشل میڈیا پر اکثر لوگ انجانے میں ایسی تصاویر کو وائرل کردیتے ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ یوسف سہگل کی قبر کے قریب ہی ان کی اہلیہ کی قبر بھی موجود ہے اور یہ کہنا ہے کہ کوئی پھول چڑھاتا ہے نہ دعا مانگنے آتا ہے اور مشہور کھرب پتی پاکستانی کی قبر دولت مند لوگوں کیلئے مثال ہے تو یہ قطعی غلط بات ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کوئی بھی پوسٹ آگے بڑھانے سے پہلے تھوڑی سی تحقیق کرلیں تو دوسروں کی دل آزاری اور شرمندگی سے بچا جاسکتا ہے۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.